آغا سید حامد علی شاہ موسویٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یمن کی سرحد پر واقع نجران ہزاروں سال شہر ہے جس کے عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کے مباہلہ کا واقعہ 24ذوالحجہ 9ھجری کو پیش آیا اورخون کا ایک قطرہ بہائے بغیر نصرانیت پر حاصل ہونے والی اسلام کی فتح کوعیدکے مترادف قرار دیا گیا۔واقعہ مباہلہ اسلام کی امن پسندی اور سچائی کے روشن ثبوت کے طور پر تاریخ میں نقش ہے اور دنیا پر واضح کر رہا ہے کہ اسلام جبر و تشدد یا تلوار سے نہیں بلکہ مشاہیر اسلام کے عظیم کردار سے پھیلا ہے یہ دن نصرانیت پر اسلام کی عظیم فتح،کاذبین کی شکست اور صادقین کی سرفرازی کے دن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھاگیا ہے۔سورہ آل عمران کی سورہ آل عمران آیت 61 میں یہ تاریخی واقعہ بیان کیا گیاہے۔
’’آپؐ کے ربّ کی جانب سے حق اور حقیقت کو واضح کر دینے والے اس علم کے آپؐ تک پہنچ جانے کے بعد بھی اگر کوئی آپؐ سے اس بارے جھگڑا اور حجت بازی کرے تو ان سے فرمادیں ،اؤہم اور تم اس بارے آپس میں مباہلہ کر لیتے ہیں، اسی طرح کہ ہم اور تم خود بھی میدان میںآتے ہیں، اور اپنے اپنے بچوں،خواتین اور نفوس کو بھی بلا لاتے ہیں، پھر ہم سب مل کر اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی و زاری کے ساتھ دعا و التجا کرتے ہیں، کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو ۔(سورہ آل عمران آیت 61)یہ آیت مباہلہ کہلاتی ہے جو خیر البشر حضرت محمد مصطفی ؐ، حضرت علی المرتضی ؓ، خاتون جنت سیدہ فاطمہ زہراؓ اور حسنین کریمین کا بطور پنجتن پاک قرآنی تعارف ہے۔
نصارٰی (عیسائی) حضرت عیسیٰؑ کی وحدانیت کی تعلیمات میں تحریف کے بعدتثلیث کے قائل ہوچکے تھے ان کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰؑ تین اقانیم میں سے ایک اقنوم ہے؛ وہ حضرت عیسی ابن مریمؑ کے بارے میں اسلامی عقیدہ سے متفق نہ تھے جس کے مطابق وہ اللہ کے برگزیدہ نبی اور مخلوق تھے۔پیغمبر اسلامؐ نے جو خطوط سربراہان مملکت کو روانہ کئے تھے ان کے ضمن میں ایک خط آپ نے نجران کے عیسائی رہنما ابو حارثہ اور اسقف کو بھی لکھا تھا جس میں آپ نے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی نبی کریم ؐکے مکتوب کی تحریر کچھ یوں تھی؛
شروع کرتا ہوں خالق ابراہیم و یعقوب و اسحاق ؑ کے نام سے۔خدا کے رسول محمدؐ کی جانب سے نجران کے اسقف اعظم کے نام
میں ابراہیمؑ و اسحاقؑ و یعقوب ؑکے خدا کی تعریف بجا لاتا ہوں اور تمھیں بندوں کی پرستش ترک کرکے خدا کی عبادت کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔تمھیں اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ بندوں کی ولایت سے نکل کر خدا کی ولایت میں داخل ہو جاؤ اور اگر تمہیں ہماری دعوت منظور نہیں ہے تو جزیہ دو ورنہ تمھارا انجام اچھا نہیں ہوگا۔اسقف نے خط پڑھنے کے بعد تمام مذہبی اور غیر مذہبی شخصیات کو مشورے کے لئے طلب کیا۔ شرجیل جو عقل و درایت میں بہت ہی معروف تھا اس نے مشورہ دیا کہ ہم نے بارہا اپنے راہنماؤں سے یہ سنا ہے کہ ایک دن منصب نبوت جناب اسحاقؑ کی نسل سے نکل کر حضرت اسماعیلؑ کی اولاد میں منتقل ہو جائے گا، بعید نہیں ہے کہ محمد،ؐ اسماعیل ہی کے فرزندوں میں سے ہوں اور یہ وہی پیغمبر ہوں جن کی بشارت ہمیں دی گئی ہے۔
ابو حارثہ نے نجران کے پڑھے لکھے اور بزرگ عمائدین جیسے شرحبیل، عبداللہ بن جبّار بن فیض غور و فکر اور مشورہ کے لئے بلائے۔ جنہوں نے یہ طے کیا کہ نصاری کی طرف سے کچھ ہوشمند اور علم و عقل کے لحاظ سے زبردست افراد مدینہ میں محمد بن عبد اللہؐکے پاس جائیں اور ان سے اس سلسلہ میں بحث و مناظرہ کریں تاکہ حقیقت واضح ہو جائے۔ اسی بناء پر ساٹھ افراد کی کمیٹی تشکیل دی گئی جن میں سے ان کے عظیم علماء عاقب ابو حارثہ اور ایہم بھی تھے۔
نجران اہل وفد بڑی شان و شوکت کے ساتھ سونے و جواہرات کے زیورات سے آراستہ فاخرانہ لباس پہنے مدینہ پہنچے تاکہ مدینہ پہنچ کر اہل مدینہ کو اپنی طرف متوجہ کرلیں اور کمزور عقیدہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیں۔ جب یہ وفد بارگاہ رسالت ؐمیں حاضر ہوا۔ تواسوہ حسنہ کے مالک رسولؐ نے نجران سے آئے افراد کے ساتھ بے رخی کا اظہار کیا اور ان کی طرف بالکل توجہ نہیں دی جو شرکائے وفد کیلئے حیرت انگیز تھا کہ رسول ؐنے پہلے دعوت دی اب بے رخی کیوں دکھا رہے ہیں؟
علمائے نجران تین دن تک مدینہ میں سرگرداں رہے اور بے توجہی کا سبب نہ جان سکے جس پرچند لوگ انھیں حضرت علیؐ کے پاس لے گئے اور تمام حالات سے انھیں آگاہ کیا حضرت علیؐ نے علمائے نجران سے فرمایا: ’’تم اپنے زرق و برق لباس اتار کر پیغمبرؐکی خدمت میں عام لوگوں کی طرح جاؤانہوں نے مولائے کائنات علیؓ ابن ابی طالب کی بات مانتے ہوئے ایسا ہی کیا۔ اس وقت پیغمبراسلامؐنے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور انہیں اپنے پاس بٹھایا۔اس سے یہ ثابت ہوا کہ اسلام کی نظر میں ظاہری جاہ و جلال کی چنداں اہمیت نہیں۔
مباحث کے دوران پیغمبر اکرمؐ حضرت عیسی کو عبد کے بجائے خدا ماننے، سور کے گوشت کھانے سے اجتناب نہ کرنے، حضرت عیسیٰ ؑکے معجزات اور انکے اللہ کے بیٹا ہونے کے عقائد کو دلائل سے لا جواب کردیا تو نصاری کی زبانیں گنگ ہو گئیں ان پر اچانک خاموشی چھا گئی اور سبھی بڑے پادری کو تکنے لگے جو خاموشی سے سر جھکائے بیٹھا رہااور کسی سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔نصاری نجران آخر کار اس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے بہانہ بازی اور کٹ حجتی پر اتر آئے اور کہنے لگے ان باتوں سے ہم مطمئن نہیں ہوئے ہیں اس پر پیغمبر اسلام نے وحی الہی کے تحت عیسائیوں کو دعوت دی کہ دونوں فریق اپنے بیٹوں، خواتین اور اپنے نفوس کو لے کے آئیں؛ اسکے بعد مباھلہ کرتے ہیں اور جھوٹے پر الہی لعنت طلب کریں گے۔
اس پرطے یہ ہوا کہ کل سورج کے طلوع ہونے کے بعد شہر سے باہر مدینہ کے مشرق میں واقع صحرا میں ملتے ہیں۔ یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔ لوگ مباھلہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس جگہ پر پہنچ گئے۔علمائے نجران مباہلہ کی مخصوص جگہ پر پہنچے اور انجیل و توریت پڑھ کر خدا کی بارگاہ میں راز و نیاز کرکے مباہلہ کے لئے تیار ہو گئے اور پیغمبر اکرم ؐکا انتظار کرنے لگے سید اور عاقب (جو وفد کے اراکین اور عیسائیوں کے راہنما تھے) بھی اپنے بیٹوں کو لے کر پہنچ گئے۔ دوسری جانب رسول خدا ؐ مباہلے کو روانہ ہوئے انہوں نے امام حسنؓ کا ہاتھ پکڑا امام حسینؓ کو گود میں اٹھایاآنحضرت کے پیچھے پیچھے انکی دختر گرامی سید النساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا ؓچل رہی تھیں اور ان سب کے پیچھے علیؓ ابن ابیطالب تھے۔ (تفسیر ابن کثیر و فتح القدیر،تفسیر مولانا صلاح الدین یوسف شاہ فہد پرنٹنگ پریس مدینہ منورہ سعودی عرب) زمخشری،فخرالدین رازی، بیضاوی اور دیگر مفسرین نے لکھاکہ رسول کریمؐ " بیٹوں کی جگہ حسنؓاور حسینؓ ہیں اور " عورتوں" کی جگہ فاطمہ زہراء اور نفسوں کی جگہ حضرت علیؓ ابن ابی طالب کو لے کر گئے۔
جب نصارٰی نے ان بزرگ ہستیوں کو دیکھا تو ان کے سربراہ ابوحارثہ نے پوچھا: یہ لوگ کون ہیں جو محمدؐکے ساتھ آئے ہیں؟ جواب ملا کہ:ان کے چچا زاد بھائی ہیں؛ وہ دو بچے ان کے فرزند ہیں ان کی بیٹی سے؛ اور وہ خاتون ان کی بیٹی فاطمہ ہیں جو خلق خدا میں ان کے لئے سب سے زیادہ عزیز ہیں۔
آنحضرتؐمباہلے کے لئے دو زانو بیٹھ گئے۔ ابو حارثہ نے کہا: خدا کی قسم! محمدؐکچھ اس انداز میں زمین پر بیٹھے ہیں جس طرح کہ انبیاء مباہلے کے لئے بیٹھا کرتے تھے، اور پھر پلٹ گیا۔سید نے کہا: کہاں جارہے ہو؟ابو حارثہ نے کہا: اگر محمدؐبر حق نہ ہوتے تو اس طرح مباہلے کی جرأت نہ کرتے؛ اور اگر وہ ہمارے ساتھ مباہلہ کریں تو ایک نصرانی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔
ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ ا شرحبیل عیسائیوں کے ایک عظیم اور بڑے عالم نے کہاکہ: میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ خدا سے التجا کریں کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑ دے تو بیشک وہ اکھاڑ دیا جائے گا۔ پس مباہلہ مت کرو ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اور حتی ایک عیسائی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔اس کے بعد ابو حارثہ آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:
اے ابا القاسمؐ! ہمارے ساتھ مباہلے سے چشم پوشی کریں اور ہمارے ساتھ مصالحت کریں، ہم ہر وہ چیز ادا کرنے کے لئے تیار ہیں جو ہم ادا کرسکیں۔ چنانچہ آنحضرتؐنے ان کے ساتھ مصالحت کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں ہر سال دو ہزار حلے (یا لباس) دینے پڑیں گے اور ہر حلے کی قیمت 40 درہم ہونی چاہئے؛ نیز اگر یمن کے ساتھ جنگ چھڑ جائے تو انہیں 30 زرہیں، 30 نیزے، 30 گھوڑے مسلمانوں کو عاریتا دینا پڑیں گے اور آپؐ خود اس ساز و سامان کی واپسی کے ضامن ہونگے۔ اس طرح آنحضرتؐ نے صلح نامہ لکھوایا اور عیسائی نجران پلٹ کر چلے گئے۔
رسول اللہؐنے بعدازاں فرمایا: "اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، کہ ہلاکت اور تباہی نجران والوں کے قریب پہنچ چکی تھی؛ اگر وہ میرے ساتھ مباہلہ کرتے تو بیشک سب بندروں اور خنزیروں میں بدل کر مسخ ہوجاتے اور بے شک یہ پوری وادی ان کے لئے آگ کے شعلوں میں بدل جاتی اور حتی کہ ان کے درختوں کے اوپر کوئی پرندہ باقی نہ رہتا اور تمام عیسائی ایک سال کے عرصے میں ہلاک ہوجاتے۔نصرانیوں کی نجران واپسی کے کچھ عرصہ بعد ہی سید اور عاقب کچھ نذرانے اور عطیات لے کر رسول اللہؐکی خدمت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوئے۔(الطبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، 1415، ج 2، ص 310)
ایک روایت کے مطابق جوصلح نامہ لکھا گیا اس میں یہ نکتہ بھی شامل تھا کہ اس صلح نامہ کے بعد اہل نجران کے لئے سود کھانا حرام ہے۔ مباہلہ کی عظمت و رفعت صحابہ کرام کی نظر میں کس قدر زیادہ تھی اس کا اندازہ اس حدیث نبوی سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؐفرماتے ہیں کہ جو تین سعادتیں حضرت علی ؐکو حاصل ہوئیں ان میں سے ایک کا بھی میرے لئے ہونامیرے نزدیک سرخ اونٹوں سے بہتر ہے،غزوہ تبوک کے موقع پر نبی ؐکا حضرت علی کو وہی نسبت دیناجو ہارون ؑکو موسیٰ ؑسے تھی ۔خیبر میں علی ؑ کو یہ کہہ کر علم دینا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پاکؐ سے محبت کرتا ہے اور وہ بھی (اللہ اور اس کا رسول) اس سے سے محبت کرتے ہیں اور تیسری چیز آیت مباہلہ کہ جب آپ ؐنے فاطمہؓ، علیؓ، حسنؓ اور حسین ؓکے بارے میں فرمایاکہ یا اللہ یہ میرے اہلبیت ہیں۔(جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1691،مشکوۃشریف:جلد پنجم:حدیث نمبر 768 )مباہلہ کا واقعہ جہاں اسلام کی فتح کی عظیم یادگار ہونے کے ساتھ پنجتن پاک کی روحانیت،جلالت بزرگی کا بھی آئینہ دار ہے، یہ روحانیت کے مادیت پر غلبے کی علامت ہے یہ واقعہ تصنع بناوٹ ظاہری ٹھاٹھ باٹھ کے بجائے سادگی کے اسلامی پیغام کادرس دیتا ہے اور اسلام کی امن پسندی کا نشان ہے۔آج جب شیطانی طاقتیں میڈیا کے زور پر اسلام کو دہشت گردی اور ظلم و جبرکے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اسلام کے امن وانسانیت دوستی کے نشانات کو مزید اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
24ذوالحجہ 9ھجری ،یوم مباہلہ ،اسلام کی صداقت اور امن پسندی کی لازوال یادگار
Aug 06, 2021