مون سون کی بارشوں اور دریاﺅں پر حفاظتی بندھ ٹوٹنے سے ہر سال سیلاب آتے ہیں۔ لاکھوں مالیت کے نقصان کے ساتھ انسان اور مویشی بہہ جاتے ہیں۔ فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے بے یارومددگار حکومت کی امداد کے منتظر لوگ آخرکار خود ہی اپنی مدد آپ پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مون سون بارشوں اور سیلاب کے پیش نظر ہماری حکومتیں کیوں بروقت حکمت عملی اختیار نہیں کرتیں کہ لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچایا جائے۔ حفاظتی بندھ باندھ کر سیلاب کے ممکنہ خدشے کے پیش نظر روک تھام کی جائے۔ متاثرین کی بروقت امداد کی جائے۔ انہیں بروقت اشیاءخور و نوش فراہم کی جائیں تاکہ مزید جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکے۔ اس سال بھی مون سون بارشوں نے جہاں پنجاب سندھ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں تباہ کاریاں کیں وہاں بدترین سیلاب لوگوں کے پیاروں کو بہا کر لے گیا کہیں کوئی ماں تین بچوں کے بہہ جانے پر ماتم کناں تھی کہیں کوئی بیوی اپنے سہاگ کے اجڑ جانے پر غم و رنج میں ڈوبی ہوئی تھی۔ پورے پاکستان میں سیلاب نے مویشیوں، انسانوں ، فصلوں ، بستیوں ، مکانات اور شاہراﺅں کو غرق آب کر دیا۔ لوگوں کے عزیزوں کی لاشیں پانی میں تیر رہی تھیں۔ خواتین اپنے مردوں اور بچوں کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ اس سیلاب نے لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کردیا۔ لوگ کھلے آسمان تلے زندگیاں گزارنے پر مجبور انتظامیہ کی امداد کے منتظر ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ ہمارے بچے بھوک سے مر رہے ہیں اول تو یہاں کوئی آتا نہیں ہے اگر آتا ہے تو فوٹوسیشن کر کے چلا جاتا ہے ۔ممکنہ خطرے کے پیش نظر بروقت انتظام نہ ہونے کی وجہ سے دور دراز کے علاقوں میں ضروریات زندگی کا سامان پہنچ نہیں پاتا اور اگر پہنچتا بھی ہے تو وہ اتنا کم ہوتا ہے کہ لوگوں کی ضروریات پوری ہی نہیں ہو پاتیں۔ تونسہ ، ڈیرہ غازی خاں، راجن پور اور جنوبی پنجاب کے متعدد اضلاع میں اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئی ممبر اسمبلی ان کی دلجوئی کے لیے ابھی تک یہاں نہیں پہنچا ہے۔ اور نہ ہی فلاحی ریاست کے دعویداروں کو ان کی حالت پر ترس آیا۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں سیلاب کی تباہ کاریوں پر قابو پانے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ راجن پور کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں ہر سال تباہی آتی ہے۔ ماضی میں جن منصوبوں پر عملدرآمد کروانے کا اعلان ہوا تھا نہ تو ان پر عمل ہوا نہ ہی سیلاب روکنے کے لیے بند تعمیر ہوئے۔ اگر حکومت اپنے وسائل استعمال کرتی تو یہی پانی ذخیرہ کر کے بنجر زمینوں کو سیراب کیا جا سکتا ہے لیکن سیاست کی طرف ہماری توجہ نے دیگر مسائل کو کھوہ کھاتے میں ڈال دیا ہے۔ ہم آج تک یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائے کہ ہماری اولین ترجیح کیا ہے۔ خاص طور پر جنوبی پنجاب کی طرف حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے وہاں مسائل کا انبار لگا ہوا ہے۔ بارہ سال پہلے جو مسائل تھے وہ آج بھی اسی طرح موجود ہیں۔ سیلاب کے دنوں میں سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بنتے ہیں اور قحط کی صورت میں انسان اور جانور ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں۔ حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں بند کی تعمیر بروقت سیلاب کی اطلاع خوراک کی ترسیل مقامی اور ضلعی انتظامیہ کا فعال کردار ریلیف کیمپ کا قیام کارکردگی اور متاثرین کی امداد کے بروقت انتظامات شامل ہیں۔ ہم اس وقت ہی کوئی حکمت عملی بناتے ہیں جب پانی سر پر آن پہنچتا ہے۔ اس سے پہلے ہمارے پاس نہ کوئی پلان ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی حکمت عملی۔ اگر ہم تھوڑی سی توجہ سیلاب جیسے گھمبیر مسئلہ کی طرف مبذول کر لیں تو نقصانات اور جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکتا ہے۔ ہم معجزے کے منتظر رہتے ہیں چاہے سیاست ہو معیشت ہو یا سیلاب۔ ہمارے پاس عملی اقدامات کے فقدان کے باعث مسائل میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ سیاسی جذبات کے سیلاب میں ہماری توجہ سیاسی ریلے میں بہہ جاتی ہے۔ جہاں ہم عوام کے دکھ کو سمجھ نہیں پاتے یا سمجھنا ہی نہیں چاہتے ہمیں اپنی ترجیحات پر نظرثانی کی ضرورت ہے لیکن افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ترجیحات پر نظرثانی کر بھی لیں تو عوام کی فلاح و بہبود کا اس میں باب شامل ہی نہیں ہوتا۔