’آئین کامقدمہ‘ اورضیاءالحق کٹہرے میں

جنرل ضیاءالحق کی اقتدار سے رخصتی کے حوالے سے کالم لکھ ا رہا تھا کہ ” نوائے وقت“ کے کالم نگار ڈاکٹر طاہر بھلر پیارے دوست سعید آسی کے کالموں پر مشتمل کتاب”آئین کامقدمہ"پیش کرنے تشریف لائے۔ کالم لکھنا کوئی آسان کام نہیں ۔یہ بڑی دلیری اور جرا¿ت کاتقاضہ کرتا ہے۔درویشی اورسچائی اس کا حسن ہوتا ہے۔ایک کاغذ کاٹکڑا اور قلم لکھنے والے کے ہاتھ میں ہوتا ہے اوراس کاذہن کبھی تاریخ کے مزاروں میں جھانک رہا ہوتا ہے اور کبھی چمنستانوں سے خوشبوئیں کشید کرکے اپنے الفاظ میں بکھیرتا ہے ۔کبھی غم دوراں توکبھی غم جاناں اسے ستاتا ہے۔زندگی میں ملنے والا ہر اچھا اوربراشخص اس کے ذہن میں زقندیں بھرتا ہے مگر اس پر بھی احتیاط کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ پروفیسر وارث میرمرحوم کہاکرتے تھے کہ ایک سچا لکھنے والاکبھی کسی کا ایجنٹ نہیں ہوتا۔اس کے لئے کبھی کبھی خون دل میں انگلیاں ڈبوناپڑتی ہیں ۔ایک سچے، ذہنی طور پر صحت مند،معلومات سے بھرے پڑے اورجگر دار قلم کار کا قلم قوم کی امانت ہوتا ہے نہ کہ ذاتی خواہشات کاترجمان۔اس کی تحریر اسکے ضمیر کی عدالت ہوتی ہے نہ کہ غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرنے کے لئے۔اس کی تحریر کا حسن کبھی صبا کی چال ہوتا ہے تو کبھی بجلی کی کڑک ”آئین کا مقدمہ“اسی طرح کے کالموں پر مشتمل سعید آسی کی تصنیف ہے ۔جسے واقعی خون جگر سے لکھاگیا ہے ۔اس پر مزید گفتگو کسی اور وقت پر اٹھائے رکھتے ہیں۔فی الحال ان اسباب کی بات کرتے ہیں جو سست روی سے ہی سہی مگر ضیاءالحق کے خاتمے کاسبب بنے 1983ءمیں ایم آر ڈی کی تحریک کے خاتمے پر ضیاءالحق نے سوچاکہ خودکو مضبوط کرنے کیلئے کسی سیاسی عمل سے گذرے بغیر عوام سے حق حکمرانی کامینڈیٹ حاصل کرلیاجائے۔اس لئے 1984ءمیں انہوں نے ایک عدد"ریفرنڈم "کروایا ۔ ریفرنڈم میں سوال یہ رکھا کہ "کیا آپ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کیاجائے"مزید یہ کہاکہ اگر آپ کاجواب ہاں میں ہواتو میں جنرل ضیاءالحق آئندہ پانچ سال کیلئے ملک کاصدر ہونگا ۔دوسری طرف ایم آر ڈی نے اس ڈرامے کابائیکاٹ کردیا۔ ریفرنڈم کے روز تمام پولنگ سٹیشن سنسان تھے۔عملہ فارغ بیٹھا رہا،لگتا تھا کہ یہ ریفرنڈم نہیں ضیاءالحق کا بائیکاٹ ہے ۔ لوگوں کے ساتھ حبیب جالب بھی نظارہ کرنے نکلے تونتیجہ اخذ کرکے قوم کے سامنے رکھ دیا کہ۔۔۔ شہر میں ہو کاعالم تھاجن تھا یا ریفرنڈم تھا۔کچھ باریش سے چہرے تھے ،اور ایمان کاماتم تھا۔ شام تک سرکاری ملازمین جماعت اسلامی اور وزراءکی ”محنت “رنگ لائی اور ضیاءالحق تقریباً90 فیصد ووٹ حاصل کرکے پاکستان کے صدر بن گئے۔ روس افغانستان سے واپس روانگی کی تیاریوں کے آخری مراحل سے گذر چکا تھا۔ضیاءالحق پرقومی سطح پر انتخابات کرانے کا عالمی دباﺅ بھی بڑھنا شروع ہوگیا اور اس سے اگلے ہی سال 1985ءمیں انہوں نے ملکی انتخابات کرانے کا اعلان کردیا۔مگر غیر جماعتی بنیادوں پر یعنی کوئی سیاسی جماعت اس میں حصہ نہیں لے سکتی تھی ۔اس موقع پر ایم آر ڈی نے ضیاءالحق پر پلٹ کروارکرنے کی حکمت عملی کی بجائے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔اس بائیکاٹ کے پیچھے بہت سوں کی اپنی ہوس اقتدار بھی تھی ،اس بائیکاٹ نے ملک کو سیاسی طورپر بانجھ کردیا۔تجربہ کار اور دیانت دارراہنماﺅں کی بجائے غیر سیاسی افراد، منڈیوں کے آڑھتی ،لکی کمیٹیاں ڈالنے والے ،انجمن تاجراں کے عہدیداران اور ناجائز ذرائع سے اپنی زندگی گذارنے اوردوسروں کی تباہ کرنے والے لوگ اسمبلی میں آگئے جو آج بھی پارلیمنٹ میں موجود ہیں۔ نواز شریف اور الطاف حسین جیسے لوگ بھی انہی غیر جماعتی انتخابات اورایم آر ڈی کے بائیکاٹ کا نتیجہ ہیں کسی کالم میں مکمل طور بائیکاٹ کی کہانی بیان کرچکا ہوں کبھی قند مکرر کے طورپر اس کاپھر بھی ذکر ہوجائے گا۔ 1985ءکی غیر جماعتی اسمبلی کا پہلا اجلاس ہواتو ضیاءالحق کی مکمل بربادی کا آغاز ہوگیا جب محمد خاں جونیجو کو انہوں نے ایک کمزورآدمی سمجھ کروزیر اعظم نامزد کردیا۔ جونیجو نے اپنی پہلی ہی تقریر میں اسمبلی میں اعلان کردیا کہ 1986ءکاسورج مارشل لاءنہیں دیکھے گا۔ اس کے چند دنوں بعد مینار پاکستان لاہور پر ایک عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اسی عزم کودھرایا ۔وزیر اعظم جونیجو کے اس اعلان نے ضیاءالحق کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔صدرجنرل ضیاءالحق اور وزیر اعظم کے درمیان تناﺅ روز بروز بڑھتا رہا۔ایوان وزیر اعظم نے ایوان صدر کی فائلیں روکنا شروع کردیں ۔روس افغانستان سے نکل گیا اور اب اگلے مرحلے میں افغانستان میں نئے عالمی منظر نامے کےلئے امریکہ ،یورپ نے مختلف معاہدات کےلئے جنرل ضیاءکی بجائے وزیر اعظم جونیجو کواہمیت دیناشروع کردی۔ 
وزیر اعظم جونیجو نے تمام سیاسی جماعتوں سے اپناوجود منوانے کیلئے وزیر اعظم ہاﺅس میں افغانستان کے مسئلہ پر "آل پارٹیز کانفرنس "بلا کران کا وہ وجود سرکاری طورپر تسلیم کرلیا جسے ضیاءالحق نے 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات میں اپنے طورپر ختم کرڈالاتھا۔ اور یوں اسے ان سب جماعتوں کا مینڈیٹ بھی ایک طرح سے مل گیا ۔جنرل ضیاءنے مئی 1987ءمیں اپنے ترمیمی آئینی اختیارکے تحت محمد خاں جونیجو کی حکومت ختم کرکے اسمبلیاں توڑدیں تاہم پنجاب میں نواز شریف کی حکومت کو قائم رہنے دیا۔14،اگست 1987ءکو امام کعبہ پاکستان تشریف لائے اور رورو کراللہ سے پاکستان کی سلامتی کے دعائیں کیں۔شائد انکی دعائیں رنگ لے آئیں اور صرف تین دن بعد جنرل ضیاءالحق ایک ہوائی حادثے میں کام آگئے ایم آر ڈی کی جدوجہدضیاءالحق کےخلاف شروع ہوئی تھی ۔کامیاب ہوگئی مگر اسے دس سال سے زائد عرصہ لگا۔اس کے دوران دنیا بدل گئی ،سیاسی کارکنوں کی جوانیوں کوشاہی قلعہ اور جیل خانے کھاگئے ،کوڑوں کی برسات جاری رہی۔جاتے ہوئے بھی ضیاءالحق نے قوم سے بڑاخراج وصول کیا۔

ای پیپر دی نیشن