٭کانگریس نے مکمل آزادی کی بجائے ڈومینین سٹیٹس Dominion Status کو قبول کیا۔ برطانوی فوج کو ہندوستان میں رکھنے، برطانوی گورنرجنرل برقرار رکھنے، دولت مشترکہ کا حصہ بننے جیسے تاجِ برطانیہ کے مطالبات قبول کر لئے تھے لہٰذا ان کے بدلے کانگریس کا مطالبہ ...پنجاب کی تقسیم اور گورداس پور و فیروز پور کا بھارتی پنجاب میں دیا جانا... قابل فہم ہے۔
٭اس دوران کل ہند انتخابات منعقد ہوئے۔ گروپ بی یعنی مسلم اکثریتی صوبوں میں 36 میں سے 26نشستیں مسلمان آبادی کےلئے مقرر تھیں۔ برطانوی ہند میں 292نشستوں میں سے کانگریس نے 205جبکہ مسلم لیگ نے 73 نشستیں حاصل کیں۔
٭پنڈت نہرو کے بیانات کی روشنی میں مسلم لیگ نے کابینہ مشن تجاویز سے دستبرداری اختیار کی۔ قائداعظم نے کہا کہ آج تک ہم نے آئینی راستہ اختیار کئے رکھا ہے لیکن اب کانگریس اور برطانوی گٹھ جوڑ کا جواب راست اقدام سے دینگے۔ اسکے لئے16 اگست 1946ءکا دن مقرر ہوا۔
٭سارے ملک میں پرامن طریقہ سے دن منایا گیا لیکن کلکتہ میں شدید قسم کے ہنگامے ہوئے۔
٭1946 ءکے صوبائی انتخابات کے نتیجہ میں مسلم لیگ نے اگرچہ 84نشستوں میں سے 78 حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن ہندو کانگریس اور برطانوی گٹھ جوڑ کے تحت گورنر برٹرینڈ گلیسنی نے سر خضر حیات خان کی یونی نسٹ پارٹی، کانگریس اور سکھ اراکین کے 84مخلوط ممبران پر مشتمل گروہ کی حکومت بنوا دی۔ابوالکلام آزاد کئی روزلاہور ٹھہرا رہا۔ نواب ممدوٹ نے گورنر کو یقین دلایا کہ وہ 78ممبران کے علاوہ دس مزید ارکان کی حمایت حاصل کرلے گا۔ اس طرح 175ممبران کے ایوان میں 88ممبران کی حمایت والی جماعت کو حکومت بنانے کا حق ہونا چاہئے لیکن یکم مارچ1946ءکو گورنر نے مسلم لیگ کی بجائے خضرحیات خان کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔
اس فیصلے سے سیاسی بے چینی بڑھی اور پنجاب کی فضا مکدر ہونے لگی۔ ہندوو¿ں نے اس دورانیہ میں اپنے محلوں کے داخلی راستوں میں لوہے کے دروازے لگوا دیئے۔ مسلم اور غیرمسلم آبادی میں رابطے بہت کم ہوگئے۔ مسلم لیگ نے نئے انتخابات کا مطالبہ کردیا۔ خضر حکومت کو معلوم تھا کہ اگر دوبارہ انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ بھاری اکثریت حاصل کرلے گی۔
٭اس پس منظر میں سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے حلقوں میں مسلح تنظیمیں بنا رکھی تھیں۔ خضر حکومت نے 24جنوری 1947ءکو ان تنظیموں پر پابندی عائد کردی۔ مسلم لیگ نیشنل گارڈ کے دفتر واقع رائل پارک لاہور پر، جیسے کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، پولیس کارروائی ہوئی۔ اس کے نتیجہ میں صوبے بھر میں مزاحمتی تحریک جاری ہوئی۔ بالآخر خضر حکومت نے 2مارچ 1947ءکو استعفیٰ دیا لیکن کانگریس برطانوی گٹھ جوڑ کی وجہ سے مسلم لیگ کو اکثریت کے باوجود حکومت نہ بنانے دی گئی حالانکہ چار ماہ بعد پنجاب کو پاکستان کا حصہ بننا تھا۔
٭خضرحیات کے استعفے (2مارچ1947ئ) کے بعد مسلم لیگ کی حکومت کو روکنے کےلئے بھیم سین سچر نے ایک بڑے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کا محاصرہ کر لیا اور دوسری طرف ماسٹر تارا سنگھ اپنی تلوار کے ساتھ پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر کھڑے انٹ شنٹ بول رہا تھا۔ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے طالب علم کا جلوس بھی مال روڈ پر موجود تھا۔ اتفاق سے میں بھی اس جلوس میں شامل تھا۔ دور سے ہمیں ماسٹر تارا سنگھ کا سر ہی نظر آرہا تھا۔ سکھوں کا نعرہ تھا ...
”راج کرے گا خالصہ باقی رہے نہ کوئے“
اس روز تارا سنگھ کے دو بیان مجمع میں پھیل گئے: اولاً یہ کہ سکھوں نے مغلستان تباہ کیا اور اب پاکستان تباہ کریں گے اور دوئم یہ کہ یہ تلوار فیصلہ کرے گی کہ پنجاب میں حکومت کون بنائے گا۔ ایف سی کالج کے ہم چند طلباءواپس کالج چلے گئے کیونکہ خبر گرم تھی کہ مال روڈ سے ماسٹر تارا سنگھ ایف سی کالج جائے گا۔
محمدظفرنیازی اور میں ولٹی ہال سے نکل کر کینڈی ہال جارہے تھے کہ مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جائے کہ دو سکھوں نے ہمیں روکا۔ ایک نے اپنا نیزہ ظفر نیازی کے پیٹ کے ساتھ لگایا اور کہا کہ ...اسیں دھانوں دیواں گے پاکستان (ہم آپ کو پاکستان دیں گے)۔ اس شام پروفیسر سنکلیئر کے ساتھ احمدشمیم (ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل) کی تلخ کلامی بھی ہوئی۔ اگلے روز کالج بند کر دیا گیا کیونکہ لاہور شدید فسادات کی زد میں تھا۔ حکومت کی محتاط رپورٹ کے مطابق دو ہزار سے زیادہ اموات واقع ہوئیں جبکہ سینکڑوں مسلمان، ہندو اور سکھ زخمی ہوئی۔ نتیجہ کانگریس کے حق میں نکلا یعنی مسلم لیگ کی وزارت بننے کی بجائے گورنر راج قائم ہوگیا۔
٭برطانوی حکومت کے پاس مختلف خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ ہر طرح کی اطلاعات ملتی رہتی تھیں لیکن آج تک کسی سراغ رساں ایجنسی نے یہ ثابت نہیں کیا کہ راولپنڈی ڈویژن میں سکھوں پر حملہ کرنے کی ذمہ داری مسلم لیگ یا مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ 11مارچ کو پنجاب میں اینٹی پاکستان ڈے منایا گیا۔ اس تحریک کے پیچھے یہ نعرہ تھا کہ مسلم لیگ کو پنجاب میں ختم کردو۔ یہ تحریک کانگریسی لیڈر ڈاکٹر گوپی چند بھارگو نے اپنی جماعت کے مشورے پر شروع کی تھی۔ (ختم شد)