روپے کی بے قدر ی نے آئی پی پیز کی بحرانی کیفیت میں اضافہ کردیا

کراچی (کامرس رپورٹر) درآمدات پر پابندیوں اور روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر نے آئی پی پیز کو درپیش بحرانی کیفیت میں اضافہ کردیاگڈو پاور پلانٹ سے بجلی کی پیداوار میں کمی اور نیلم جہلم کے مسائل کی وجہ سے درآمدی کوئلے پر چلنے والے بجلی گھروں (آئی پی پیز) کی انوینٹری کو مزید دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا جو ملک میں بجلی کے بحران کو شدید بنانے کا سبب بنے گا۔ آئی پی پیز کو پہلے ہی کوئلے کی درآمد میں مشکلات کا سامنا ہے اور اب امپورٹ پر لگنے والی قدغن اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تیزی سے کمی نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنادیا ہے جس میں صرف تیل اور دیگر اہم کماڈٹیز کی امپورٹ کو ہی ترجیح دی جارہی ہے۔ ای ایف یو لائف اشورنس کے ہیڈ آف ریسرچ علی اطہر نے اس صورتحال کو آئی پی پیز کی پیداواری گنجائش کو ضایع کرنے کا سبب قرار دیتے ہوئے مقامی سطح پر دستیاب کوئلے کے استعمال کو ہی موزوں ترین حل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سال کے دوران عالمی سطح پر کوئلے پر انحصار بڑھ رہا ہے اور کوئلے کی طلب میں نمایاں اضافہ کوئلے کی قیمت میں بھاری اضافہ کا سبب بن رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ مہنگے داموں کوئلے کی درآمد سے پاکستان میں توانائی کی لاگت میں اضافہ ہوگا جو تاریخی پست شرح مبادلہ کی وجہ سے پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے۔ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر توانائی کے ذرائع (تیل و گیس) وغیر کی سپلائی میں قلت کا سامنا ہے اور روپ کے متعدد ممالک بشمول جرمنی، فرانس، اٹیل اور نیدرلینڈ اپنی توانائی کی طلب پوری کرنے کے لیے اپنے کوئلے کے پلانٹس کو ایک بار پھر فعال کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کی گرڈ پاور جنریشن مالی سال 2022کے دوران 139ارب یونٹس رہی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 10فیصد زائد ہے۔ علی اطہر کے مطابق روپے کی قدر میں کمی کے بعد حکومت کے لیے ایندھن کی قیمت کو کنٹرول کرنا کافی مشکل ہوگا۔  ایسے میں تھر میں کوئلے کے 175ارب ٹن کے ذخائر ملک کو آسانی سے توانائی میں خود کفیل بناسکتے ہیں۔ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ گزشتہ سال منظور ہونے والے فیز تھری کے توسیعی مرحلے میں تھر بلاک نمبر دو کی گنجائش 12.2ملین ٹن سالانہ تک پہنچ جائیگی جس کی تکمیل 2023کے آخر تک متوقع ہے۔ اس توسیع کے بعد تھر کے کوئلے کی قیمت 30ڈالر فی ٹن سے بھی نیچے آجائیگی جو ملک میں ایندھن کا سب سے سستا ذریعہ ہوگا۔ طویل مدتی بنیادوں پر تھر کے کوئلے کی بازیافت اور استعمال میں اضافہ سے پاکستان کو زرمبادلہ کی مد میں 2.5ارب ڈالر کی بچت ہوگی جبکہ گردشی قرضوں کی مالیت میں بھی سالانہ بنیادوں پر 100ارب روپے کی کمی واقع ہوگی۔ علی اطہر کے مطابق تھر کول پراجیکٹس کی ترقی پاکستان کے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے میں کمی لانے اور درآمدی ایندھن پر انحصار کم کرنے کا موثر حل ہے۔

ای پیپر دی نیشن