لاہور:گیارہ دن کے سنسنی خیز مقابلوں کے بعد کامن ویلتھ گیمز ختم ہوگئے ہیں اور پاکستان نے اس مقابلے میںجہاں ریکارڈ بنایا وہیں پاکستان کو سپورٹس کے میدان میں بہت کام کی ضرورت ہے۔کسی بھی ملک کی نوجوان آبادی اس ملک کی کھیلوں کی ضامن ہوتی ہے اور اگر پاکستان اور نمبر ون آسٹریلیا کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے حالات بہت مایوس کن نظر آتے ہیں۔آسٹریلیا کی کل آبادی تقریبا دوکروڑ اکسٹھ لاکھ ہے اور نوجوانوں کی ملک میں تعداد تقریبا 32لاکھ ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان 22کروڑ کی آبادی کا ملک ہونے کے ساتھ کل آبادی کا تقریبا 64فیصد نوجوان آبادی رکھتاہے ۔یعنی پاکستان کی تقریبا 14کروڑ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔دونوں ملکوں کی یہ یوتھ 15سال سے اوپر اور تیس سال تک کی ہے۔کامن ویلتھ گیمز میں آسٹریلیا 178میڈلز کے ساتھ نمبر ون پر ہے جن میں سے 67گولڈ میڈلز ہیں،57سلور اور 54برانز میڈلز ہیں۔دوسری طرف پاکستان 8میڈلز کیساتھ جن میں 2 گولڈ ،3سلور اور3برانز میڈلز کے ساتھ ٹیبل سکور پر کہیں نظر نہیں آتا آبادی میں اتنے بڑے فرق کے ساتھ ملکی ٹریننگز کا فرق اور عالمی معیار نظر انداز ہوجاتاہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان کے ذمہ دار اداروں خاص طور پر پاکستان سپورٹس بورڈ،پنجاب سپورٹس بورڈ ،ہاکی فیڈریشنز اور ریاستی کارکردگی اور ترجیحات پر بڑا سوالیہ نشان ہونے کے ساتھ شرمندگی کا باعث بھی ہے۔کامن ویلتھ گیمز 2022میں شریک پاکستانی ریسلر انعام بٹ نے بھی گزشتہ روز اس بات کا شکوہ کیا کہ عالمی معیار کی ٹریننگز کے بغیر سلور میڈل جیتنا بھی باعث فخر ہے۔یہ تمام اعداد و شمار اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ پاکستان کا ٹیلنٹ کس برے طریقے سے ضائع کیاجارہا ہے۔ان تمام فیکٹرز کے ساتھ یہاں سفارشی کلچر بھی قابل ذکر ہے جو ٹیلنٹ کو سامنے آنے میں رکاوٹ کا باعث بنتاہے۔جہاں یہ سارے عوامل موجود ہیں وہیں اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا کہ پاکستان میں کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں کو نہ ہی پذیرائی ملتی ہے اور نہ ہی کھلاڑیوں کو کرکٹر والا درجہ دیاجاتا ہےجو کھلاڑیوں کے لیے مایوسی کا سبب بنتا ہے۔ پاکستان کے روایتی حریف بھارت کی بات کی جائے تو وہ میڈلز کی ریس میں پانچویں نمبر پر ہے۔انڈیا 61میڈلز کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے جن میں سے 22گولڈ،16سلور اور 23برانز میڈلز ہیں۔