گرین پاکستان کنونشن خانیوال ماڈل ایگریکلچر فارم پاکستان منرلز سمٹ کسانوں اور غیر ملکی سفیروں سے اپنے فی البدیہ خطاب میں آرمی چیف سید عاصم منیر نے کئی ایک باتیں کی ہیں۔ میں آ رمی چیف کے خطاب کو خطاب نہیں کہوں گی بلکہ ان کا غیر متزل اور مصمم ارادہ کہوں گی۔ ان کے الفاظ غیر متزلزل عزم کی گواہی دے رہے ہیں۔ ان کے اس مصمم ارادہ اور غیر متزلزل اور عزم کا خلاصہ صرف یہ ہے کہ اب پاکستان کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ ایک پیغام ہے اپنوں کے لیے بھی اور غیروں کے لیے بھی۔ ہم اپنی ترقی میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کریں گے چاہے وہ دہشت گردی کی شکل میں ہوں یا پھر دشمن کی پاکستان مخالف چالوں کی شکل میں۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
اور آج حافظ سید عاصم منیر ملکی ترقی کے لیے بے تیغ لڑ رہے ہیں۔ اگر ملک اور قوم کی حفاظت کے لیے سپاہی خود کو قربان کر دینا اپنا فرض سمجھتا ہے تو پھر معاشی بدحالی اور ملک کی ترقی کے لیے ہر طرح کی کوشش کرنا بھی ملک کی حفاظت کے زمرے میں آتا ہے۔ سیاست دان اور فوج مل کر ملک کو ہر طرح کے بحران سے نکال سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف اور آ رمی چیف کے بیرون ملک دورے، سرمایہ کاروں سے ملاقاتیں اور پاکستان منرلز سمٹ کا کامیاب انعقاد کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اب واقعی پاکستان ترقی کرے گا۔ ہم 75 برسوں سے ترقی کے خواب دیکھ رہے ہیں وہ اب شرمندہ تعبیر ہونے کو ہے۔ جب کہ دوسری جانب دوست نما دشمن شمالی وزیرستان میں چھ ٹریلین ڈالر کے معدنی ذخائر پر بلبلا رہے ہیں۔ کچھ تو مسلسل تلملا رہے ہیں جس کا نتیجہ باجوڑ خودکش حملے کی صورت میں سامنے آ یا۔
یہ باطل قوتیں اپنی موت آ پ مر جائیں گی پاکستان کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہم ایک قابل اور اہلیت رکھنے والی قوم ہیں جو ٹاپ پر جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حافظ جنرل عاصم منیر نے مزید کہا کہ میں ایک مسلمان کی حیثیت سے بات کرتا ہوں اور بطور مسلمان بات کرتے وقت میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ جو ام الکتاب ہے یعنی قران پاک تو اس سے رہنمائی لوں۔ قران پاک میں کہا گیا ہے کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے آپ کو کبھی مایوس نہیں ہونا سورة یوسف آ یت نمبر 87 ترجمہ: اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں بے شک اللہ کی رحمت سے تو کافر ہی مایوس ہوتے ہیں۔ سورة زمر کی آیت کا اضافہ کیا گیا۔ ترجمہ: اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا۔ ان کا کہنا تھا ہمارا رب یہ کہتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ تھوڑا سا مسئلہ پیش آ نے کی صورت میں ہم چیخ و پکار شروع کر دیتے ہیں۔ آخر ہم کیوں صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔ قران کی روح سے تو مسلمان کے لیے صرف دو ہی حالتیں ہیں ایک تو یہ کہ جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے۔ دوسرا جب اللہ خوشی دیتا ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ قران پاک میں فرمایا۔ ترجمہ، یعنی میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں۔ سورة العنکبوت آیت نمبر 2 کے آغاز میں ہی اللہ نے بتا دیا ہے :کیا لوگوں نے یہ گمان کر لیا کہ ان کو یہ کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کو آزمایا نہیں جائے گا۔: پھر قران کی یہ آیت پڑھی کہ اور بے شک ہم نے ان سے اگلوں کو جانا تو ضرور اللہ سچوں کو دیکھے گا اور ضرور جھوٹوں کو دیکھے گا۔
جہاں تک اوقات کے الٹ پھیر کا تعلق ہے تو وہ بھی اللہ نے قران میں ہمیں پہلے ہی بتا دیا ہے کہ انسانوں کے دلوں کے درمیان پھرتا ہوں اسی لیے حوصلہ نہیں ہارنا۔ کشمکش میں تو زندگی ہے۔ آپ نے دل کے مریض کو مانیٹر کرنے والی مشین دیکھی ہوگی جب تک وہ لکیر اوپر نیچے جاتی ہے تو زندہ رہنے کی علامت ہوتی ہے لیکن جب وہ لکیر سیدھی ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بندہ مر گیا۔ یوں یہ اتار چڑھاو¿ اور کشمکش زندہ ہونے کی علامت ہے اس کشمکش کے بغیر تو زندگی ہی نہیں ہے۔ پاکستان کو کچھ نہیں ہوگا پاکستان قائم اور سلامت رہے گا۔ یہ ہمارا ایمان اور یقین ہے۔ دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے۔ بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے۔ پاک فوج زندہ باد، پاکستان پائندہ باد!