خلیجی اخبار نے اپنی 29 ،جولائی2023 ءکی اشاعت میں ” پاکستان برائے فروخت “ کے عنوان سے جو نہا یت سخت تکلیف دہ مضمون شائع کیا کہ پاکستان کو بڑھتے ہوئے قرضوں کی ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان اپنی بندر گاہیں ، ہوائی اڈے اور ٹیلی کام کمپنیاں فروخت کرنے کی تگ ودو میں ہے ، پاکستان نے گذشتہ ماہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اپنی قدیم اور مصروف ترین بندرگاہ کے ایک اہم حصے کو ابوظہبی پورٹ گروپ کو 25 سال کے لئے لیز پر دینے کا معاہدہ کیا ،یہ معاہدہ آپریشنل آﺅٹ سورسنگ ڈیل کے اعلان کے بعد عمل میں آیا ہے۔
معاہدے کے مطابق اے ڈی گروپ کراچی کی بندرگاہ کی تین برتھ پر کام کرے گا اور گودی میں جانے کے لئے بڑے بحری جہازوں کے لئے راستے کی توسیع کے علاوہ کینٹینر اسٹوریج ایریا کو بڑھانے کے لئے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرے گا ، جب کہ پاکستانی حکومت کو آلات اور بنیادی ڈھانچے کے لئے 50 ملین ڈالر اور خدمات کے معاوضہ کی مد میں18ڈالر فی کینٹینر ملیں گے ، خلیجی ممالک کی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ ایک کثیر المقاصد کارگو ٹرمینل کی تعمیر کے لئے بھی ایک معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لئے بات چیت جاری ہے، اگر یہ بات چیت باہمی رضا مندی سے طے پا جاتی ہے تو دبئی کو اس معاہدے کے تحت کراچی کی بندرگاہ کی ایک بڑی راہداری کا 85 فیصد کنٹرول حاصل ہوجائے گا۔یہ ایک خاص حکمت ِ عملی کے مقام کو ظاہر کرتی بحیرہ عرب کی پیشانی پر کراچی کی یہ بندرگاہ پاکستان کی تمام سمندری تجارت کو برآمد و درآمد کرنے کی مجاز ہے۔
قیام ِ پاکستان کے وقت جو صنعتیں نوزائیدہ پاکستان کے حصے میں آئیں وہ ملک کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں آٹے میں نمک کے برابر تھیں ، اس کا اندازہ ایسے لگایا جا سکتا ہے کہ آزادی کے پہلے عشرے میں صنعتوں کی پیداوار اس قدر کم تھی کہ روزمرہ کے استعمال آٹا اور چینی کی راشن بندی کرنا پڑی ، ایوب دور میں غیر ملکی سرمایہ کاروں اور مقامی سرمایہ کاروں نے ملک میں صنعتیں تو لگائیں لیکن غریب عوام غربت کی چکی میں ہی پستا چلا گیااور دولت کا ارتکاز صرف 22 خاندانوں تک محدود ہو کر رہ گیاتھا، ان تمام صنعتوں میں ٹریڈ یونین بننے لگی ، سیٹھوں اور مزدوروں کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے گئے ، سرمایا کار سہولتیں دینے سے منکر اور مزدور اپنے فرائض میں غفلت برتنے پر م±صر۔پاکستان کا سرمایا دار طبقہ عوامی استحصال کی تمام حدیں عبور کر چکا تھا بینکوں سے قرضے سرکار ی سرپرستی میں لے کر انہیں سرکارکی آشیر واد سے معاف بھی کر لیا جاتا تھا، قومی املاک اور وسائل کی بندر بانٹ عروج پر تھی غیر ملکی سرمایہ کاری کے لائسنس اپنے مند پسند افراد کو دیئے جاتے ، غربت بڑھتی گئی اور امیر امیر ہوتا گیا ،آمرانہ نظام سے عوام کی نفرت اور ان کے غیض و غضب نے 1970 ءکے انتخابات میں مذہبی اور نظریاتی سیاسی اکائیوں کو مسترد کر دیا اور ذوالفقار علی بھٹو کے ” روٹی ،کپڑا اور مکان “ کے بنیادی ضروریات کے حصول کے لئے بھٹو کی پارٹی کو منتخب کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے 2 ، جنوری 1972 ءکو بحیثیت صدر مملکت ریڈیو اور ٹیلی وڑن پر تقریر کرتے ہوئے ملک کی مختلف بنیادی بھاری صنعتوں کو قومی تحویل میں لینے کا حکم صادر کیا ،یہ ایک اہم اور بڑا فیصلہ تھا جس کی وجہ سے عوام دشمن مافیا ، مفاد پرست افراد کی کرپشن ، ٹیکس چوری ، مزدور طبقہ کا استحصال اور ناجائز کاروبار کرنے والوں کو گرفت میں لے لیاگیا ،سقوطِ ڈھاکہ کے بعد جنگ سے تباہ حال ملکی معیشت کو استحکام دینے کے لئے بھٹو کا یہ فیصلہ پختہ سیاسی بصیرت اور ملک کو مستحکم کرنے کا احسن اقدام تھا ، استحصالی قوتوں سے عوام کو آزاد کروایا، جس کی وجہ سے عوام دشمن عناصر میں بھٹو کے خلاف دشمنی کی حد تک اختلافات پیدا ہو گئے۔
تاحال کم فہمی پر مبنی خیالات کے مالک بھٹو کو پاکستان کی معیشت تباہ کرنے کا الزام دیتے ہیں جو کہ حقیقت کے بر عکس ہے ، بھٹو کو 1971 ءکی جنگ کے بعد ہر شعبہ زندگی میں تباہ حال پاکستان سونپا گیا ، تو اس وقت جی ڈی پی ( GDP )صرف 0.47 فیصد پر تھی ، ملک دو لخت ہو چکا تھا لیکن بھٹو کی سیاسی تدبر اوردور اندیشی سے پاکستا ن کی تعمیر نو ہوئی اور ایک سال کی مدت کے بعدشرح نمو(GDP )7.06 فیصد کی حد تک پہنچ گئی ،بھاری صنعتوں کی تحویل میں میاں نواز شریف کے والد کی اتفاق فاﺅنڈری بھی تھی بھٹو سے نواز شریف کی شدید دشمنی کی وجہ بھی یہی تھی ، نون لیگ کے تین ا د وارِ حکومت میں نج کاری کے نام پر پاکستان کی معیشت کا حشر نشر ہوا ، سرمایہ دار اور مراعات یافتہ طبقہ آج بھی ٹیکس دینے سے گریزاں ہے ، حکومتوں کے بے جا اخراجات کی وجہ سے دنیا میں کشکول لئے پھرنا اور پھر یہ کہنا کہ ” جب کشکول لے کر باہر جاتے ہیں تو ہمیں شرم آتی ہے “۔
سرِ دست ملک میں سیاسی افراتفری ، معاشی بحران اور قومی اداروں کی غیر ممالک کو نج کاری انتہائی تشویشناک ہے ، حالات جس نہج پر چلے گئے ہیں واپسی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ، اربابِ اقتدار عوام کو بتائیں کہ ” اب کیا کیا بیچیں گے“ملک پر مسلط کئے گئے حالات میں وقتی طور پر قرضوں کاانجیکشن یا ڈرپ لگا دینے سے پالیسیاں بدل نہیں جاتیں ، اور نا ہی معاشی حالات میں کوئی تبدیلی آئے گی،قومی تحویل میں ادارے ریاست کا اثاثہ ہوتے ہیں نجکاری کرکے ان اثاثوں کو غیر کے ہاتھوں فروخت کر دینے سے ریاست کمزور ہو گی اور معیشت بھی کمزور ہی رہے گی بیرونی قرضوں اورنجکاری سے حاصل کی گئی رقم ریاست کو معاشی طور پر کھوکھلا کر دینے کے مترادف ہے۔