حسینیت ، یزیدیت اور علمائے سو، کو بہ کو!(1)

معزز قارئین۔ 10 محرم الحرام کو یوم عاشور کے دِن امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ اور ان کے 72 ساتھیوں نے ثابت کردِیا تھا کہ ” حق کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا اور یہ کہ ”حسینیت“ ہمیشہ ”یزیدیت “ پر غالب آتی ہے۔ حضرت امام حسینؓ کی جنگ ملوکیت، ج±ورو جبر ، خیانت ، نجاست ، بربریت اور جہالت کے خلاف تھی لیکن اس جنگ میں حضرت امام حسینؓ کے قبیلے کے لوگ اور چند عقیدت مند ہی تھے۔ ان میں پردہ دار خواتین ، کم سن اور شیر خوار بچے بھی شامل تھے۔ سب کو شہید کردیا گیا۔ اس کے بعد چشم فلک نے قبیلہ امام حسینؓ اور عقیدت مندانِ اہل بیتؓ کا خون بہانے والوں کا برا حشر بھی دیکھا۔ حضرت امام حسینؓ، ان کے رشتہ داروں اور عقیدت مندوں کی قربانیوں نے فی الحقیقت اسلام کو زندہ کردِیا۔
”فرمانِ امام عالی مقامؓ!“
 معرکہ کربلا سے پہلے امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ” بعض لوگ دنیا کے غلام اور دین کو اپنی زندگی کے وسائل فراہم کرنے کے لیے ایک لعاب کے طور پر استعمال کرتے ہیں جو ان کی زبانوں سے چمٹا رہتا ہے!“۔ سانحہ کربلا کے بعد یہی ہوا ؟ اکثرعلماءیزید کے غلام بن گئے اور پھر مسلمان بادشاہوں کے۔ وہ دین کو اپنی زندگی کے وسائل فراہم کرنے کے لیے ایک لعاب کے طور پر استعمال کرتے رہے۔یہ علماءہی تھے کہ جنھوں نے ’بادشاہوں کو خدا وندی یا کلی ‘اختیار حاصل کرنے کا عقیدہ یعنی ’بادشاہوں کی نیابتِ الٰہی کا نظریہ‘ ( Divine Rite of Kings) پیش کِیا۔ دراصل ’حسینیت‘ اور ’ یزیدیت‘ اب بھی دو مختلف ”نظریات “ (Theories) ہیں۔ 
’ خواجہ غریب نوازؒ!‘
معزز قارئین۔ سانحہ کربلا کے بعد مختلف زبانوں میں دنیا بھر کے عظیم الشان علمائے کرام اور شعراءنے ’ حسینیت‘ اور ’ یزیدیت‘ کی دو مختلف قوتوں کو اہلِ اسلام کے لیے تا قیامت ظاہر رکھنے کا فریضہ انجام دیا تھا۔ نائب رسول فی الہند خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتیؒ نے ہندوستان میں اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے سانحہ کربلا کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ 
شاہ ہست حسینؓ، پادشاہ ہست حسینؓ
دیں ہست حسینؓ، دیں پناہ ہست حسینؓ
سرداد ، نداد دست ، در دستِ یزید
حقا کہ بِنائے لا الہ ہست حسینؓ
یعنی، ہمارے ( اصل) شاہ اور بادشاہ حضرت امام حسینؓ ہیں۔ دینِ اسلام اور دین کی پناہ بھی امام ؓ ہی ہیں ، (آپؓ نے دین کی بقا کے لیے اپنا سر قلم کروالیا لیکن خلافت کے نام پر یزید کی ملوکیت اور خاندانی بادشاہت کو قبول نہیں کیا! معزز قارئین۔ حقیقت یہ ہے کہ لا الہ الااللہ کی بنیاد ہی امام حسینؓ ہیں۔ 
’ حضرت سلطان باہوؒ‘
معزز قارئین! قادریہ سلسلے کے ولی ( فارسی اور ) پنجابی کے نامور شاعر حضرت سلطان باہوؒ (1629ئ۔ 1690ئ) نے سانحہ کربلا کو اپنے انداز میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ
جے کر دین علم وچ ہوندا ،
 تاں سر نیزے کیوں چڑھدے ہو!
اٹّھاراں ہزار جے عالم آہا ،
 اوہ اگے حسینؓ دے مردے ہو!
جو کجھ ملاحظہ سرور دا کر دے،
 تاں خیمے تمبو کیوں سڑدے ہو!
پر صادق دین تنہاں دے باہو ،
 جو سر قربانی کردے ہو!
یعنی اگر دِین اسلام ( محض) علم میں ہوتا تو پھر ( میدانِ کربلا میں اہل بیتؓ) کے سروں کو نیزوں پر کیوں چڑھایا جاتا؟ سانحہ کربلا کے وقت یزید کی سلطنت میں 18 ہزار علمائے دین موجود تھے۔ انھوں نے یزید کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کیوں نہیں کیا؟اور انھوں نے حضرت امام حسینؓ پر اپنی جانیں کیوں نہ قربان کردیں؟ اگر وہ علماءحق پرست ہوتے تو وہ آل رسول کے خیموں کو آگ کی نذر کیوں ہونے دیتے؟ اگر اس وقت مسلمان کہلانے والے لوگ حضور کی اطاعت / تابعداری کرنے والے ہوتے تو وہ اہلِ بیتؓ کا پانی کیوں بند کرتے؟۔ اے باہو! جو لوگ حق پرست لوگوں کے لئے قربانی دے سکیں ، وہی دِین کی حفاظت کرنے والے اور سچے ہیں! ‘
حضرت امام حسین ؓ کی جنگ ملوکیت، ج±ورو جبر ، خیانت ، نجاست ، بربریت اور جہالت کے خلاف تھی لیکن اس جنگ میں حضرت امام حسینؓ کے قبیلے کے لوگ اور چند عقیدت مند ہی تھے۔ ان میں پردہ دار خواتین ، کم سِن اور شیر خوار بچے بھی شامل تھے۔ سب کو شہید کردیا گیا۔ اس کے بعد چشم فلک نے قبیلہ امام حسینؓ اور عقیدت مندانِ اہل بیتؓ کا خون بہانے والوں کا برا حشر بھی دیکھا۔ معزز قارئین! صدیوں سے بھارت کے صوبہ راجستھان کے شہر اجمیر میں آباد میرے آباو¿ اجداد نے خواجہ غریب نواز نائب رسول فی الہند حضرت معین الدین چشتیؒ کے دست مبارک پر اسلام قبول کِیا تھا اور مجھے اپنے والد محترم تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ)کارکن رانا فضل محمد چوہان سے اہلِ بیت ؓ سے عقیدت و محبت اور حسینیت کا سبق ملا تھا۔ 
’ عاشق رسول علامہ اقبال‘
معزز قارئین! عاشق رسول علامہ محمد اقبال (1877ئ۔ 1938ئ) نے مولا علی مرتضیٰؓ اور اہلِ بیتؓ کے سبھی عظیم الشان ارکان کی شان بیان کرتے ہوئے بہت کچھ لکھا ہے۔ علامہ اقبال نے 1918ءمیں شائع ہونے والی اپنی فارسی تصنیف ’رموزِ بے خودی ‘ میں فرمایا کہ 
موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید!
ایں دو قوت از حیات آید پدید!
زندہ حق از قوتِ شبیری است!
باطل آخر داغِ حسرت میری است!
یعنی، موسیٰؑ اور فرعون، شبیرؓ(حضرت امام حسینؓ) اور یزید (باطل قوت)، یہ دو قوتیں ہیں جو زندگی سے ظاہر ہوئیں۔ اِن میں سے حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت امام حسینؓ حق کے علم دار تھے۔ فرعون اور یزید نے باطل کی پاسداری کی۔ دونوں قوتیں ابتداءسے چلی آتی ہیں اور اِن کے درمیان کشمکش بھی ہوتی رہی ہے۔ (تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے ) کہ حق قوتِ شبیری سے زندہ رہتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ اور حضرت حسینؓ جیسے بزرگ اس کی خدمت انجام دیتے ہیں۔ باطل آخر حسرت کی موت کا داغ بن جاتا ہے (حق کا بول بالا قوتِ خیر سے ہوتا ہے جبکہ باطل قوتوں کا انجام ذِلت و خواری ہے )۔
’مولانا محمد علی جوہر‘
ہندوستان میں مسلمانوں کے عظیم راہمنا اور شاعر ، مولانا محمدعلی جوہر(1878ئ۔ 1931ئ) نے اپنے انداز میں کیا خوب کہا تھا کہ 
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
(جاری ہے )

ای پیپر دی نیشن