مسئلہ انتخابات اور بھارتی دہشتگردی کا!!!!

حکومت کی مدت پوری ہونے والی ہے یعنی یہ حکومت جانے والی ہے، نگران حکومت آنے والی ہے لگتا ہے کہ وہ ایسی حکومت ہو گی جو وقت پر نہیں جائے گی۔ یعنی جتنا وقت اس کا ہے آنے والی حکومت اس سے زیادہ وقت گذارے گی۔ ملکی معیشت کے جو حالات ہیں انہیں دیکھتے ہوئے تو کسی قسم کے انتخابات کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ملک میں انتخابات کی وجہ سے ہمیشہ مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انتخابات کے نتیجے میں ملک میں استحکام آیا ہو، معیشت نے ترقی کی ہو اور امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہو، لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوا ہو اور انتخابات کے نتیجے میں مجموعی طور پر اچھے اثرات چھوڑے ہوں۔ بالخصوص گذشتہ بیس پچیس برس کے دوران بھی دیکھ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ملک میں انتخابات کے بعد سیاسی حالات خراب ہوئے، عدم برداشت کی فضا قائم ہوئی، لوگوں نے ایک دوسرے کو قبول کرنے سے انکار کیا، عوامی سطح پر درجہ حرارت میں اضافہ ہوا۔ اس لیے میں نے پہلے بھی موجودہ حالات میں انتخابات کے التوا کی تجویز پیش کی تھی۔ ایک مرتبہ پھر دہراتا ہوں کہ ملک کو انتخابات سے زیادہ معاشی استحکام کی ضرورت ہے۔ ملک کے مالی معاملات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ملک میں انڈسٹری کی ضرورت ہے، سرکاری اداروں کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، معاشی نظام کی اوور ہالنگ کے بغیر آگے بڑھنا اور دنیا کا مقابلہ کرنا ہمارے بس میں نہیں ہو گا۔ اس لیے انتخابات پر وقت، سرمایہ اور توانائیاں خرچ کرنے کے بجائے ملک کے بنیادی مسائل کو حل کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہم بے پناہ مسائل کا شکار ہیں۔ توانائی بحران ہے ہمیں نگلنے کو ہے۔ مہنگائی نے عام آدمی کا قیمہ کر دیا ہے، روپیہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ ڈالر مہنگا ہوتا رہا تو مالی مسائل حل نہیں ہوں گے۔ امپورٹ بل کم نہیں ہو گا۔ ادارے تباہ ہوئے پڑے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اداروں کا جو حال کیا ہے وہ کوئی دشمن بھی نہیں کر سکتا۔ خواجہ سعد رفیق کا بیان ناصرف آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ خود تمام سیاسی جماعتوں کے لیے چارج شیٹ بھی ہے۔ وفاقی وزیر برائے ہوا بازی و ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ "قومی ائیرلائنز پی آئی اے تقریباً ڈوب چکی، اب پی آئی اے کا کام روایتی سرکاری طریقے سے نہیں چل سکتا۔ میں نجکاری کا حامی نہیں، پی آئی اے کا سالانہ خسارہ ایک سو دس ارب ہے، پی آئی اے کا سات سو بیالیس ارب کا قرضہ ہے، آمدن ساری قرض ادائیگی میں لگ رہی ہے۔
سابق وزیر کے بیان سے اکہتر ارب روپے کا سالانہ نقصان ہو رہا ہے۔ بل سے پی آئی اے ایک ہولڈنگ کمپنی بنے گی، آنے والی حکومت فیصلہ کرے گی کہ پی آئی اے کے کتنے فیصد شیئرز بیچنے ہیں۔ اربوں روپے کی غیر ملکی سرمایہ کاری کا انجیکشن نہیں لگا تو پی آئی اے بھی ڈوب جائے گی، پی آئی اے کا کنٹرول نجی شعبے کو دینا پڑے گا، پاکستانی غیر ملکی ائیر لائنز کے یرغمال بنے ہوئے ہیں۔" 
خواجہ سعد رفیق نے پی آئی اے کی مکمل تباہی کا اعلان تو کر دیا ہے۔ سابق وزیر یعنی غلام سرور خان کے بیان کا بھی حوالہ دیا ہے اور اس بیان سے سالانہ اکہتر ارب روپے کا نقصان بھی بتا دیا ہے۔ یقینا اس تباہی میں غلام سرور خان کے بیوقوفی شامل ہے لیکن اس میں حصہ مسلم لیگ ن کا بھی ہے۔ برسوں ملک پر انہوں نے بھی حکومت کی ہے۔ اس لیے نون لیگ کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پانچ سال قبل بھی ملک پر مسلم لیگ نون کی ہی حکومت تھی۔ ہم خود اداروں کو ٹھیک کرنے کے بجائے نجی شعبے کی طرف بھاگتے ہیں۔ کون کہتا ہے کمائی سے زیادہ اخراجات کریں، کون کہتا ہے مراعات کے نام پر عیاشیاں کریں۔ قرضے لے کر عیاشیاں کرتے ہیں۔ قب خواجہ صاحب اور ان کے ساتھی نئے انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ ملک مشکلات سے کیسے نکلے گا۔ آخر دو ہزار سات سے دو ہزار تیئیس تک تو تین مختلف سیاسی جماعتیں ہی حکومت کرتی رہی ہیں۔ آج اگر ملک معاشی طور پر کمزور ہے تو اس میں ان سب جماعتوں کا حصہ ہے۔ اب مردم شماری والا معاملہ بھی سامنے ہے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ سیاست دانوں کو عوام کے ساتھ سچ بول کر آگے بڑھنا چاہیے۔ قانون سازی ملک و قوم کی بہتری کے لیے ہونی چاہیے نہ کہ ایک دوسرے کو پھنسانے کے لیے۔ انتخابات سے کہیں اہم ملک اور چوبیس کروڑ سے زائد انسانوں کا مستقبل ہے۔ 
 خبر ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں نئی مردم شماری کی متفقہ طور پر منظوری دی گئی ہے۔ اجلاس میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرا اور ادارہ شماریات سمیت دیگر متعلقہ محکموں کے حکام شریک ہوئے۔ وزارت منصوبہ بندی و ترقی نے ڈیجیٹل مردم شماری سے متعلق بریفنگ دی اور ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج پیش کیے۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کہتے ہیں کہ مشترکہ مفادات کونسل کے تمام آٹھ ارکان نے مردم شماری کی متفقہ منظوری دی۔انہوں نے کہا کہ حلقہ بندیوں کا کام ایک سو بیس دن میں ہونا ہے، قومی اسمبلی میں تمام صوبوں کی نشستوں کا حصہ وہی رہے گا۔ان کا کہنا تھاکہ آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت عام انتخابات شائع کی گئی مردم شماری کے مطابق ہوں گے۔ مردم شماری نئی ہو یا پرانی عام آدمی کے حالات کب بدلیں گے اس بارے کوئی نہیں جانتا۔ مخالفین پر مقدمات بنائے جائیں گے وہ اندر ہوں گے، پسندیدہ افراد کے مقدمات ختم ہوں گے انہیں آزادی ملے گی لیکن جس قید میں عام آدمی ہے اس کی آزادی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
عمران خان گرفتار ہوئے ہیں انہوں نے جو بویا ہے وہ کاٹ رہے ہیں۔ ان کے پاس اپنے دفاع کے لیے کچھ نہیں ہے۔ کل تک وہ جیل سے سیاسی مخالفین کے اے سی اترواتے تھے اب خود ان حالات کا سامنا کریں گے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے قریبی سیاسی ساتھی انہیں چھوڑ کر جا چکے ہیں اور تمام تشدد پسند کارروائیوں کی ذمہ داری بھی ان پر ڈال رہے ہیں ساتھ ہی توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ کیس میں ان کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ عین ممکن ہے ان کے خلاف مقدمات میں اہم ترین لوگ بھی چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف گواہی دینے کے لیے تیار ہو جائیں۔ سیاسی عمل میں یہ مناظر بہت بھلے معلوم نہیں ہوتے لیکن سیاست دانوں کو بھی سبق سیکھنا چاہیے۔ 
پاک فوج کی جانب سے یوم استحصال کشمیر کے موقع پر جاری پیغام میں کہا گیا ہے کہ بھارتی جارحیت علاقائی سلامتی کیلئے مستقل خطرہ ہے۔
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، مسلح افواج کے سربراہان اور افواج پاکستان کی جانب سے یوم استحصال کشمیر پر مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام سے اظہار یکجہتی کا اعلان کیا گیا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق "مقبوضہ کشمیر میں فوجی لاک ڈاو¿ن اور آبادیاتی ڈھانچہ تبدیل کرنے کے غیر قانونی اقدامات عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں ہیں۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزیاں ہیں۔ بھارتی حکومت کی بیان بازی، دشمنی پر مبنی اقدامات علاقائی سلامتی کے لیے مستقل خطرہ ہے لیکن پوری پاکستانی قوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ مسلح افواج مقبوضہ کشمیر کے شہداءکو عظیم قربانیوں پر زبردست خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج کشمیریوں کی سیاسی، اخلاقی اور انسانی ہمدردی کی فراہمی کی جدوجہد میں مکمل حمایت کا اظہار کرتی ہے۔"
اس یوم استحصال پر مجھے مغرب کے انسانی حقوق کے وہ نام نہاد علمبردار بہت یاد آئے ہیں جنہیں پاکستان میں شرپسندوں کی گرفتاریوں پر انسانی حقوق یاد آتے رہے لیکن بھارت کی طرف سے تاریخ کا بدترین ظلم اور انسانی حقوق کہ خلاف ورزیاں جاری ہیں لیکن انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ اگر غیر جانبداری سے کوئی جائزہ لے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ بھارت دور موجود میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں نمایاں ہے لیکن مالی مفادات کی وجہ سے یا پھر مذہبی تقسیم کی وجہ سے کوئی بولتا نہیں ہے۔ یاد رکھیں وہ دن ضرور آئے گا جب اس ظلم کا حساب ہو گا۔
آخر میں امجد اسلام امجد کا کلام
یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے
جو زخم تو نے دیے ہیں بھرا نہیں کرتے
ہزار جال  لیے گھومتی پھرے دنیا
ترے اسیر کسی کے ہوا نہیں کرتے
یہ آئنوں کی طرح دیکھ بھال چاہتے ہیں
کہ دل بھی ٹوٹیں تو پھر سے جڑا نہیں کرتے
وفا کی آنچ سخن کا تپاک دو ان کو
دلوں کے چاک رفو سے سلا نہیں کرتے
جہاں ہو پیار غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں
سو بات بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے
ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی
مکالمے کا  اگر  سلسلہ  نہیں کرتے
جو ہم پہ گزری ہے جاناں وہ تم پہ بھی گزرے
جو دل بھی چاہے تو ایسی دعا نہیں کرتے
ہر اک دعا کے مقدر میں کب حضوری ہے
تمام غنچے تو امجد کھلا نہیں کرتے

ای پیپر دی نیشن