اسلام آباد ( نوائے وقت رپورٹ) پاکستان میں وزارت عظمیٰ پر رہنے والے افراد کو گرفتار اور قید کیے جانے کی ایک تاریخ موجود ہے۔ اسلام آباد کی ٹرائل کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم کو ’کرپٹ پریکٹسز‘ میں ملوث ہونے پر مجرم قرار دیا جس کے فوری بعد پنجاب پولیس نے عمران خان کو زمان پارک لاہور میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کرلیا۔یہ گزشتہ 3 ماہ کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کی دوسری گرفتاری ہے۔ حسین شہید سہروردی پاکستان کے پانچویں وزیر اعظم تھے ۔ 31جنوری 1962 میں انہیں 1952ءکے سیکیورٹی آف پاکستان ایکٹ کے تحت ’ریاست مخالف سرگرمیوں‘ کے من گھڑت الزامات کے تحت گرفتار کرکے کسی مقدمے کے بغیر کراچی کی سینٹرل جیل میں قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔ذوالفقار علی بھٹو کو ستمبر 1977ءمیں 1974ءمیں سیاسی مخالف کو قتل کرنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔بے نظیر بھٹو دو مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم رہیں ۔انہیں اگست 1986 کو کراچی میں یوم آزادی کے موقع پر ایک ریلی میں حکومت کی مذمت کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ستمبر 2007کو جنرل پرویز مشرف کی جانب سے جلا وطن کیے جانے کے بعد نواز شریف وطن واپس لوٹے۔ ان کی واپسی پر اسلام آباد ایئرپورٹ کو سیل کردیا گیا تھا۔ واپسی کے چند گھنٹوں کے اندر ہی انہیں گرفتار کرلیا گیا اور 10 سالہ جلاوطنی کے باقی 3 سال پورے کرنے کے لیے سعودی عرب کے شہر جدہ بھیج دیا گیا۔جولائی 2018 میں قومی احتساب بیورو کی جانب سے نواز شریف کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ دسمبر 2018 میں نواز شریف کو ایک بار پھر گرفتار کیا گیا اور ان کے خاندان کی سعودی عرب میں ایک اسٹیل مل کی ملکیت کے حوالے سے مقدمے میں 7 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ جولائی 2019 میں مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی جنوری 2017ءسے مئی 2018ءتک پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔ 19 جولائی کو انہیں 12 رکنی نیب ٹیم نے گرفتار کیا۔ ستمبر 2020 میں منی لانڈرنگ کے حوالے سے نیب کیس میں ہائیکورٹ سے ضمانت منسوخ ہونے پر موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کو 28 ستمبر کو گرفتار کیا گیا۔ مارچ 2023ءمیں جج کو دھمکی دینے اور توشہ خانہ تحائف کے حوالے سے جاری کیسز میں پیش نہ ہونے پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے دو علیحدہ وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے۔ وارنٹ جاری ہونے کے بعد گرفتاری روکنے کے لیے زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر پارٹی کارکان جمع ہوگئے۔