اسلام آباد (اعظم گِل/خصوصی رپورٹر) ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج ہمایوں دلاور نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو3 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی دی ہے۔ توشہ خانہ کیس کا مختصر فیصلہ ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے سنایا۔ فیصلے کے مطابق تین سال قید کے علاوہ عمران خان پر ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے جس کی عدم ادائیگی پر انہیں مزید 6 ماہ قید کی سزا ہوگی۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ملزم کے خلاف الزام ثابت ہوگیا ہے۔ ملزم نے جھوٹا بیان جمع کروایا، ملزم نے جھوٹی ڈیکلریشن دی، ملزم نے الیکشن کمشن میں جھوٹا بیان حلفی دیا۔ عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب قرار دے دیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی بددیانتی ثابت ہو گئی ہے۔ عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی اسلام آباد وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کروائے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے اس کیس کو ناقابل سماعت قراردینے کی درخواست مستردکرتے ہوئے جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس دیے کہ ملزم کیخلاف جرم ثابت ہوتا ہے، انہوں نے الیکشن کمشن میں جھوٹا بیان حلفی جمع کروایا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ملزم کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ سیشن کورٹ نے پی ٹی آئی سربراہ کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد کو وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کی ہدایت کی ہے۔ عمران خان کے وکیل آج بار بارطلبی کے باوجود عدالت کے سامنے پیش ہونے میں ناکام رہے۔ جج نے وارننگ دی کہ وہ فیصلہ سنائیں گے جو دوپہر ساڑھے بارہ بجے تک جاری کیا جائے گا۔ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے جج ہمایوں دلاور نے توشہ خانہ کیس کی سماعت کی جس میں عدالت نے آج چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو ذاتی حیثیت میں طلب کر رکھا تھا۔ عدالت نے خواجہ حارث کو دوپہر بارہ بجے پیش ہونے کیلئے آج کی سماعت میں تیسری اور آخری مہلت دی تھی۔ فیصلہ محفوظ کیے جانے کے بعد خواجہ حارث عدالت پہنچے اور عدالت سے استدعا کی کہ انہیں سن لیا جائے جو مسترد کر دی گئی۔ اس سے قبل صبح ساڑھے8 بجے سماعت کے آغاز پر چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے کوئی عدالت میں پیش نہیں ہوا۔ الیکشن کمشن کے وکیل امجد پرویز اور سعد حسن عدالت میں پیش ہوئے۔ ملزم کے وکیل کی عدم موجودگی پر سماعت9 بجے تک ملتوی کی گئی۔ سماعت دوبارہ شروع ہونے پر بھی چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے کوئی وکیل پیش نہ ہوا۔ عدالت کی جانب سے دوسری بار کیس کال کرانے کی ہدایت کی گئی۔ اس دوران جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ کچھ کہہ دیں، کوئی شعر ہی کہہ دیں۔ جس پر الیکشن کمشن کے وکیل امجد پرویز نے شعر پڑھا،"وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی، میرے لب پہ کوئی گلہ نہ تھا"اسے میری چپ نے رلا دیا جسے گفتگو میں کمال تھا" عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا کو 10:30 تک پیش ہونے کی مہلت دیتے ہوئے سماعت دوسری بار ملتوی کر دی۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں توشہ خانہ کیس کی سماعت کے تیسری بارآغاز پر عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر کے معاون وکیل خالد چوہدری عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ خواجہ حارث نیب کورٹ میں مصروف ہیں۔ معاون وکیل نے بتایا کہ احتساب عدالت میں ضمانت کی درخواستوں پرسماعت ہے، اس پر جج نے استفسار کیا کہ کیا وہ ضمانت کی درخواستوں پر دلائل دے رہے ہیں؟ اس پر الیکشن کمشن کے وکیل نے کہا کہ احتساب عدالت میں ڈھائی بجے سماعت ہے۔ جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس دیے کہ اگر خواجہ حارث پیش نہیں ہوتے توکیا صورتحال ہوگی؟۔ گزشتہ روزکے آرڈر میں پیشی کی واضح ہدایات تھیں اور ایسی صورتحال میں تو ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے جاتے ہیں۔ عدالت نے خواجہ حارث کو 12 بجے تک پیش ہونے کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ کہ ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان کو فیئر ٹرائل کا موقع دیا جائے۔ اس لیے ان کو بار بار مہلت دے رہے ہیں۔12 بجے بھی اگر وکلا پیش نہ ہوئے تو فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی کیس کی سماعت میں12 بجے تک وقفہ کر دیا گیا۔ وقفے کے بعد توشہ خانہ فوجداری کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔ الیکشن کمشن کے وکیل امجد پرویز عدالت میں پیش ہوئے لیکن چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث عدالت نہ آئے۔ جس کے بعد جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔12:30 تک سنایا جائے گا۔ بعد ازاں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس کا30 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ بھی جاری کر دیا گیا۔ فیصلے میں چیئرمین پی ٹی آئی کو کرپٹ پریکٹسز کا مرتکب قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ کسی بھی شک کے بغیر چیئرمین پی ٹی آئی کی بے ایمانی ثابت ہو چکی ہے۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکلا کو گواہان پر جرح کرنے کے لیے متعدد مواقع فراہم کیے گئے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست ناقابل سماعت ہونے پر کسی نے دلائل نہیں دئیے لہذا درخواست خارج کی جاتی ہے۔ فیصلے میں جج نے لکھا ہے کہ عمران خان نے سوال نامے کا جواب دیتے ہوئے کہا کیس سیاسی بنیادوں پر درج کیا گیا۔ عمران خان کے مطابق کیس پی ڈی ایم کے کہنے پر درج کیا گیا۔ دونوں گواہوں کو سرکار نے استعمال کیا، عمران خان کے مطابق پی ڈی ایم انہیں 180 کیسز اور قاتلانہ حملوں کے ذریعے انتخابات سے باہر کرنا چاہتی ہے۔ اپنے30 صفحات پر مشتمل فیصلے میں عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ شکایت کنندہ یعنی الیکشن کمشن نے قائل کرنے سے بھی زیادہ کی حد تک ٹھوس شواہد پیش کر کے چئیرمین پی ٹی آئی پر الزامات کو درست ثابت کر دیا ۔ الیکشن کمشن کے شواہد بہت سادہ اور دستاویزی ہیں۔ توشہ خانہ کے تحائف سے متعلق 19-2018 اور 20-2019 ءمیں جھوٹا ڈیکلریشن جمع کرایا، قومی خزانے سے لیے گئے فوائد کو جان بوجھ کر چھپانا کرپٹ پریکٹس ہے، تحائف سے متعلق معلومات دیتے ہوئے انہوں نے دھوکہ دہی سے کام لیا۔ تحریری فیصلے میں خواجہ آصف کے خلاف عثمان ڈار کیس کا بھی حوالہ دیا گیا اور کہا گیا کہ اعلی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں بھی اثاثوں سے متعلق ڈیکلریشن ضروری ہے، گواہوں کی جانب سے پیش کیے گئے شواہد پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کے اعتراضات مسترد کیے جاتے ہیں۔ ایک طرف وہ دستاویزات پر اعتراض کرتے رہے اور دوسری جانب جرح کے دوران گواہان کو بار بار انہی دستاویزات کا حوالہ دیتے رہے۔ علاوہ ازیں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے توشہ خانہ کیس سے متعلق تیسری بار اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے دائر درخواست میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 4 اگست کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے ٹرائل کیس کے جج کی جانبداری کےخلاف درخواست کی تھی، سپریم کورٹ ہائیکورٹ کے حکم کو کالعدم قرار دے۔ اس کے علاوہ چیئرمین پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے توشہ خانہ ٹرائل پر حکم امتناع دینے کی بھی استدعا کر دی۔ دوسری جانب توشہ خانہ کیس میں چیئرمین تحریک انصاف کی درخواست پرسپریم کورٹ کی جانب سے اعتراض عائد کر کے اپیل واپس کر دی گئی۔
لاہور/اسلام آباد /اٹک (رپورٹنگ ٹیم ) پی ٹی آئی کے چیئرمین، سابق وزیر اعظم عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں سزا ہونے پر پولیس کی بھاری نفری نے انہیں ان کی رہائش گاہ زمان پارک لاہور سے گرفتار کر لیا ہے اور پولیس انہیں لاہور سے گرفتار کر کے اسلام آباد لے گئی ہے جبکہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد پولیس نے لاہورمیں پی ٹی آئی کے رہنماو¿ں اور رہنماو¿ں کے گھروں پر چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع کر دی۔ احتجاج روکنے کے لئے سخت ناکہ بندی اور گشت شروع کر دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کوسزا سنائے جانے پر اسلام آباد اور لاہور پولیس کی بھاری نفری نے عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک لاہور میں چھاپہ مارا اور انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس کے آپریشن سے قبل زمان پارک سے ملحقہ علاقوں کو بھاری نفری اور لوہے کے بیرئیر لگا کر راستے بند کر دئیے گئے تھے۔ پولیس نے دوران آپریشن زمان پارک، مال روڈ، دھرم پورہ انڈر پاس اور ڈیوس روڈ سیل کر کے ادھر کسی کو جانے کی اجازت نہیں دی۔ وزیراطلاعات پنجاب عامر میرکا کہنا ہے کہ عمران خان کو زمان پارک سے گرفتارکرلیا گیا ہے۔ احتجاج کو روکنے کے لئے شہر میں مختلف مقامات پر پولیس نفری تعینات کر کے ناکہ بندی کردی گئی ہے۔ عمران خان کو گرفتاری کے وقت ان کے گھر کے اندر گاڑی میں بٹھایا گیا۔ عمران خان کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔ ان کی گرفتاری کے بعد گاڑی میں ایس ایس پی، سی آئی اے لاہور کیپٹن ریٹائرڈ لیاقت علی ملک بھی ان کے ساتھ بیٹھے تھے۔گرفتار عمران خان کو بائی روڈ اسلام آباد لے جایا گیا۔خصوصی طیارہ پرانے ائیر پورٹ پر پہنچ گیا تھا، مگر موسم خرابی کی وجہ سے پرواز کی اجازت نہیں ملی۔ اسلام آباد روانگی سے قبل عمران خان کا ڈاکٹرز سے میڈیکل بھی کرایا گیا ہے۔ چیئر مین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں تین سال سزا اور پا نچ سال نا اہلی کے بعد گرفتار کر کے ڈسٹرکٹ جیل اٹک منتقل کر دیا گیا، عمران خان کو درجنوں پولیس اور ایلیٹ فو رس کی گاڑیو ں کی سخت سکیورٹی میں ڈسٹرکٹ جیل منتقل کیا گیا، ڈسٹرکٹ جیل کے اطراف میں تقریبا پندرہ سو گز دور تک تمام راستو ں کو بند کر دیا گیا اور جیل کے باہر پولیس اور ایلیٹ فورس کی بھاری نفری تعینا ت کر دی گئی اور عمران خان کے بلاک کو بھی صاف ستھرا کر دیا گیا۔ پی ٹی آئی ضلع اٹک کی قیادت پہلے ہی انڈر گراونڈ اور کوئی ایک کارکن بھی جیل کے باہر موجود نہ تھا اور نہ ہی کسی قسم کا احتجاج دیکھنے کو ملا ، ملک بھر میں سکیورٹی سخت کر دی گئی۔ پشاور میں 5 دن کیلئے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔ علاوہ ازیں ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور عمران کشور نے کہا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف کی قانونی طور پر گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔ چئیرمین تحریک انصاف کی گرفتاری کے دوران کسی قسم کی مین ہنڈلنگ نہیں کی گئی۔ چئیرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری پر مزاحمت کرنے والے 36 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ اگر کوئی انتشار پھیلانے کی کوشش کرے گا تو قانون اس کے خلاف کارروائی کرے گا۔ 9 مئی کے حوالے سے جے آئی ٹی اپنی تحقیقات جاری رکھے گی۔ تحریک انصاف نے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے عمر خان نیازی نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی۔ درخواست میں آئی جی پنجاب، سی سی پی او لاہور سمیت دیگر کو فریق بنایا ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کے خلاف درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پولیس نے انہیں غیرقانونی طور پر حراست میں لیا ہے۔ پولیس کے پاس کوئی فیصلہ نہیں تھا۔ عمران خان کو اغوا کیا گیا ہے۔ عدالت سے درخواست کی سماعت آج مقرر کرنے اور عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ پولیس نے زمان پارک میں تحریک انصاف کے چیئرمین، سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری پراحتجاج کرنے والے 38 کارکنوں کو گرفتارکر لیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پولیس نے تحریک انصاف کے چیئرمین، سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری پر ان کی رہائش گاہ زمان پارک باہر احتجاج کے لئے اکھٹے ہونے اور نعرے بازی کرنے کرنےوالے 38 کارکنوں کو گرفتارکر کے سول لائنز ڈویژن کے مختلف تھانوں میں منتقل کر دیا ہے۔ زمان پارک میں پولیس کی بھاری نفری رات گئے تک موجود رہی۔ گلبرگ اور ڈیفنس کے علاقوں میں پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔ ترجمان اسلام آباد کیپیٹل پولیس کے مطابق تمام افسران کو اپنے علاقوں میں رہنے کی ہدایت، شہر کے تمام علاقوں میں چیکنگ بڑھا دی گئی ہے۔ جڑواں شہروں میں سکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی راولپنڈی میں کمیٹی چوک، لیاقت باغ، چاندنی چوک، مریڑ چوک، کچہری چوک، اولڈ ائرپورٹ روڈ کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی جبکہ راولپنڈی، اسلام آباد کے درمیان فیض آباد کے مقام پر سخت سکیورٹی انتظامات کئے گئے۔ بھاری نفری تعینات کی گئی پولیس ، رینجرز اور آئی ٹی پی کی نفری موقع پر موجود تھے۔ پرزنر وینز، چیئرمین پی ٹی آئی کا ٹرائل کرنے والے جج ہمایوں دلاور کی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق جج ہمایوں دلاور کے ساتھ دو پولیس سکواڈ تعینات کر دیئے گئے۔ ادھر چیئرمین پی ٹی آئی کو سزا کے بعد پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے ممکنہ ردعمل کے خدشے کے پیش نظر راولپنڈی پولیس کو ہائی الرٹ کر دیا گیا۔ پولیس کی اضافی نفری مری روڈ پر تعینات ہے اور اینٹی رائٹ فورس کے دستے بھی الرٹ ہیں۔ ضلع بھر میں دفعہ 144 نافذ ہے اور کسی سیاسی مذہبی جماعت کو گروہ بندی کی اجازت نہیں۔ کراچی میں پولیس کو ہائی الرٹ کر دیا گیا۔ کراچی سے 20 پی ٹی آئی کارکن گرفتار کر لئے گئے۔ مردان سے 7 کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔
اسلام آباد (عترت جعفری) پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان توشہ خانہ کیس میں سزا یاب ہونے کے بعد پارٹی کے صدارت پر برقرار نہیں رہ سکیں گے ، قانون کے ماہرین کی رائے ہے کہ عمران خان کو عین اسی طرح پی ٹی ائی کی چیئرمین شپ سے الگ ہونا پڑے گا جیسے کہ میاں محمد نواز شریف کو چند سال پہلے سپریم کورٹ میں ان کے خلاف دائر ہونے والی پٹیشنز کے فیصلہ کے بعد مسلم لیگ ن کا پارٹی صدارت کا عہدہ چھوڑنا پڑ اتھا۔ پٹیشنز میں سے ایک پٹیشن کے دائر کرنے والے شیخ رشید احمد، جماعت اسلامی اور متعدد دوسرے راہنما شامل تھے جس میں یہ موقف اپنایا گیا تھا کہ میاں نواز شریف ڈس کالیفائی ہونے کے پارٹی ہیڈ نہیں رہ سکتے۔ سپریم کورٹ میں ان درجن بھر پٹیشنز کو عرف عام میں ذوالفقار بھٹہ کیس کہا جاتا ہے، یہ پٹیشن آئین کے آرٹیکل 183 کے تحت دائر ہوئی تھی، پہلی پٹیشن ذوالفقار احمد بھٹہ ایڈووکیٹ نے دائر کی تھی۔ اس میں ان کا موقف تھا کہ کوئی بھی فرد جسے قصور وار ٹھہرایا جا چکا ہو وہ پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے کام کو جاری نہیں رکھ سکتا ہے۔ ان پٹیشن کی سماعت اس وقت کے سپریم کورٹ اف پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار کے سربراہی میں بنچ نے کی تھی اور ان کی سماعت کے بعد قرار دیا گیا تھا کہ قصور وار پایا جانے والا فرد پارٹی کا ہیڈ نہیں ہو سکتا، اس طرح میاں نواز شریف کو پارٹی کی سربراہی سے الگ ہونا پڑا تھا۔ اسی انجام کا پی ٹی آئی کے چئیر مین عمران خان کو سامنا ہے ،ذوالفقار احمد بھٹہ ایڈ ووکیٹ نے رابطہ پر بتایا کہ عمران خان سپریم کورٹ کے اسی فیصلہ کی زد میں آگئے ہیں۔ اب وہ پارٹی کے سربراہ کے طور پر اپنا منصب برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے وکلا کی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل میں جائیں گے، کہ اس کیس میں عمران خان کو سزا 10 سال سے کم ہے، اس لیے کافی امکان ہے اعلی عدلیہ سزا کو معطل کر دے گی۔ تاہم سزا کی معطلی کے باوجود عمران خان اپنے پارٹی منصب کو برقرار نہیں رکھ سکیں گے، تا وقتکہ ان کی اپیل کا فیصلہ ان کے حق میں آئے اور عدلیہ سزا کو کالعدم اور ان کو کیس سے بری کر دے ، دریں اثناحسن صدیقی ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ توشہ خانہ کیس میں سزا ہونے کے بعد عمران خان پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پارٹی کے چیئرمین نہیں رہ سکتے۔ وہ 5 سال کے لیے عوامی عہدے کے لیے نااہل ہو گئے ہیں۔ یہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 63(1)(g) کے مطابق ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اخلاقی گراوٹ میں ملوث کسی جرم کا مرتکب ہوا ہو تو اسے پارلیمنٹ کا رکن منتخب یا منتخب کرنے کے لیے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم سینئر ایڈووکیٹ اکرام چودھری کا کہنا ہے کہ عمران کان کی سزا اعلی عدلیہ سے معطل ہو جائے گی، اس لئے عمران کان کو پارٹی منصب سے ہٹانا قانون سے تجاوز ہو گا، انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف کیس میں آرٹیکل 10اے کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔