کشمیر سے نکاح کیجئے اور گلکت کو اپنا لیجئے

ڈاکٹرعارفہ صبح خان   
تجا ہلِ عا رفانہ  
صدر آصف زرداری نے کہا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا ڈ ھانچہ بدلنا شروع کر دیا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی کہا ہے کہ ہم کشمیریوں کی حمایت جاری رکھیں گے۔ یہ وزیر اعظم کا گھسِا پٹا بیان ہے۔ اگر محض بیانات سے جنگیں جیتی جا سکتیں تو ان 77سالوں میں آپ کشمیر کو آزاد کرا لیتے بلکہ مقبوضہ جموں کشمیر بھی حا صل کر لیتے۔ البتہ صدر مملکت آصف زرداری ذمینی حقا ئق اور سیاسی صورتحال کا ادراک اور فہم رکھتے ہیں۔ وہ اگر ٹھان لیں تو ہر صورت اپنی بات پر نا صرف قا ئم رہتے ہیں بلکہ اُس کا شا فی حل بھی نکال لیتے ہیں۔ مجھے کہنا تو وزیر اعظم کو چا ہیے کیونکہ کُلی اختیارات کے وہی مالک و مختار ہیں لیکن افسوس کہ وہ محض گفتار کے غازی ہیں۔ کردار کے غازی ہمیشہ آصف زرداری ثا بت ہوئے ہیں۔ آصف زرداری کو چا ہیے کہ اٹھارویں ترمیم، ایران اور روس سے مفید منصوبے اور ماضی میں بطور صدرِ مملکت کیئے گئے کئی اہم اور کارآمد اقدامات کے ساتھ وہی اٹھ کر کشمیر کے لیے کچھ کریں۔ وفاق نے تو شریعت کے مطابق چار نکاح چاروں صوبوں سے کر رکھے ہیں۔ جن میں پنجاب اُنکی محبوب، حسین اور مالدار بیوی ہے جبکہ سندھ ایک پریکٹیکل بیوی ہے۔ کے پی کے ماں باپ کی پسند کی گھریلو بیوی ہے اور بلوچستان چچا پھو پھی کی بیٹی ہے جسے رشتہ نبھانے کے لیے بیا ہنا پڑا ہے۔ مطلب چاروں بیویوں کے ساتھ انصاف نہیں ہے لیکن چاروں نکاح میں ہیں اور عزت احترام سے کھا پی رہی ہیں۔ اب آزادکشمیراور گلکت بلتستان رہ گیا۔ یہ و فاق کی محبوبا ئیں ہیں لیکن وفاق بچارے کو چار بیویوں اور ڈھیروں بچوں کے ہوتے محبوبہ اکثر بھول جاتی ہے اور بد قسمتی سے کو ئی محبوبہ اپنے چا ہنے والے سے نہ کو ئی مطالبہ کر سکتی نہ اپنے حقوق منوا سکتی۔ اس لیے میں صدرِ مملکت سے انتہائی سنجیدگی سے کہوں گی کہ کنوارے کشمیر کو آپ ہی اپنے نکاح میں لے لیجئیے تا کہ اس کے حسن و جمال کی حفاظت ہو سکے اور اسکے حقوق ادا ہو سکیں۔ اسکے ماتھے پر بھی جُھومر سج سکے۔ اور گلگت بیچارہ ایک بیوہ کی مانند ہے جسے سب مفت کا مال سمجھتے ہیں اور بیوہ ہونے کی وجہ سے کو ئی اُسے منہ نہیں لگا تا جو زیادتی ہے۔کبھی انڈیا نے اپنی گندی نظر یں گا ڑی ہوتی ہیں تو کبھی چین اسے للچا ئی نظروں سے دیکھتا ہے۔ آصف زرداری صا حب!! یہ دونوں حسین و جمیل وادیاںکسی مردِ آہن کا سہارا ڈھونڈھ رہی ہیں۔ ہمارا کو ئی حکمران بیانات جھاڑنے کے علاوہ کچھ کرنے کے لائق نہیں ہے لیکن آپ سے امید ہے کہ آپ اس وقت صدرِ پاکستان اور موجودہ حکومت کا حصہ ہیں۔ آپکے بغیر موجودہ حکومت سانس بھی نہیں لے سکتی۔ اگر نواز شریف وزیر اعظم ہوتے تو میں اُن سے کشمیر اور گلگت بلتستان کی تقدیر یں بدلوانے کی کو شش کر لیتی اور نواز شریف ایسا کر بھی گزرتے مگر اب وہ آئینی اور قا نونی طور پر طاقت کا سر چشمہ نہیں ہیں۔ آج 5اگست2024 کو میں آزاد کشمیر میں موجود ہوں اور 5اگست 2019 ءکو بھارت نے آئین کی دفعہ 30 کو منسوخ کر کے مسلم اکثریت کی خصوصی حثیت ختم کر کے جو مذموم اقدامات کئےے ہیں اور بین الا قوامی اقدامات کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ کشمیریوں کے حق ِ خود اردیت پر کاری وار کیا ہے۔ محض لچھے دار باتوں سے اُس کا اذالہ ممکن نہیں۔ صدر صاحب میں آپکو اپنے پانچ روزہ دورہ کشمیر کی صورتحال سے آگا ہ کرتی ہوں۔ 
میں پہلی بار آزاد کشمیر آئی ہوں۔ مجھے وا دیءنیلم دیکھنے اور آزاد کشمیر جسے جنت نظیر کہا جاتا ہے، دیکھنے کی عرصے سے تمنا تھی۔ میں لائن آف کنٹرول، کشمیر کے رنگ اور دریائے نیلم کا سحر دیکھنا چا ہتی تھی اور1826 دنوں سے بھارتی غیر قا نونی زیر قبضہ کشمیر پر فوجی محاصرہ دیکھنا اور یو مِ استحصال بھی اپنی آنکھوں سے دیکھنا چا ہتی تھی۔ میں نے آج پانچ اگست کو ٹھیک بارہ بجے لائن آف کنٹرول، نیلم کے کنارے چلانیاں کے مقام پر کھڑے ہو کر فا تحا نہ انداز میں مقبوضہ کشمیر کی طرف دیکھا جو بلاشبہ بہت حسین و جمیل اور منظم ہونے کے علاوہ انتہائی صاف ستھرا، ہرا بھرا اور دلکش و سحر انگیز دکھائی دے رہا تھا لیکن ہمارا آزاد کشمیر میلا کچیلا، گندا، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، غیر منظم، غریب اور ناتواں دکھائی دے رہاتھا۔پھر بھی میں نے دل چھوٹا نہیں کرنا چا ہتی تھی لہذا اپنی پٹھانوں کی خُو سے مجبور ہو کر میں نے فا تحانہ انداز میں اپنے پاکستانی اور کشمیری جھنڈے کے ساتھ تصویریں بنوائیں جو انتہائی بلندی پرلہرا رہے تھے جبکہ انڈیا کا جھنڈا بہت بڑا تھا لیکن وہ انتہائی پست سطح پر لگا ہوا تھا۔ میںنے دُعا مانگی کہ اے خدا تو مجھے اسِ قابل کر دے کہ میں کشمیر کے لےے کو ئی کارنامہ سر انجام دے سکوں۔ کاش بینظیر بھٹو شہید مجھے کشمیر کمیٹی کی چئیر پرسن بنا دیتیں تو خدا کی قسم اگر میں مقبوضہ کشمیر حاصل نہ بھی کر پاتی تو کم از کم آزاد کشمیر کو مستحکم پائیدار اور پُر امن اورزیادہ حسین و جمیل بنا دیتی۔ یہاں کے غریب ترین لوگوں کی زندگیاں بدل دیتی۔ کشمیر میں سیاحت کو فروغ دیتی۔ اگر کشمیر میں صرف سیاحت کو ترقی دیدی جائے تو دنیا کشمیر دیکھنے کے لےے اُمنڈ پڑے۔ یہاں وسائل اور آمدن کے ذرائع بڑھ جائیں۔ محض سیاحت سے کشمیر کی سالانہ آمدن اربوں کھربوں تک ہو سکتی ہے اور کشمیر خو شحال ہو سکتا ہے۔ کشمیر کی زمین بہت سر سبز ہے دریائے نیلم پاکستان کا سحر انگیز دریا ہے۔ اسکا حُسن نا قابل تسخیر ہے۔ ویسے تو یہ دریا انڈیا سے مقبوضہ کشمیر کے ضلع گاندربل سے شروع ہوتا ہے اور آزاد کشمیر میں سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے مظفر آباد کے بعد تک یہ دریا ہمارا ہمسفر بنا رہتا ہے۔دریا کے کنارے آسمانوں کو چھوتے ہو ئے ہزاروں سالوں سے سینکڑوں فٹ بلند ہر ے بھرے لاکھوں کے حساب سے دلکش اورمہبوت کرنیوالے درخت ہیں۔ سورج صبح فجر کی نماز پڑھنے کے لیے دریا میں نہاتا ہے اور پوری آب و تاب سے شام کے سات بجے تک طا قت کے ساتھ روشنی اور دھوپ بکھیرتا ہے۔ درختوں کی سبزی مائل رنگت سے پانی کبھی سبز، کبھی فیروزی کبھی سفید دودھیا ہو جاتی ہے۔ بارش ہو تو یہی پانی مٹیا لا ہو جاتا ہے۔ دریائے نیلم میلوں کے حساب سے چلتا ہے۔ یہ کہیں نہیں رُکتا۔ دریائے نیلم ایک رومان ہے جو انسان کو دنیا و ما فیہا سے بے خبر کر دیتا ہے۔ آزاد کشمیر کی دلکشی اسکے جھرنے آبشاروں اور چشمے ہیں۔ یہاں کے پتھر دھوپ پڑنے سے چاندی کی طرح چمکتے ہیں۔ یہاں کے لوگ شفاف اور نرم مہربان ہیں۔ مہمان نواز ہیں۔ آپ شا پنگ کریں تو وہ پہلے سلام کر کے کشمیری چائے یا ٹھنڈے مشروب کا پو چھتے ہیںاور اصرار کرتے ہیں کہ چائے پئیں۔ میں نے تین چار مختلف جگہوں سے شا پنگ کی۔ تینوں دوکانداروں نے انتہائی عزت اور محبت سے ہمیں کشمیری سامان دکھایا۔ میں نے ایک خو بصورت لڑکے شقراز بلوچ سے کشمیری ملبوسات لیے۔ اُسنے مجھے ایک انتہائی قمتی سری نگر کی ہاتھ کی بُنی ہوئی دیدہ زیب شال جس کی قیمت بارہ ہزار تھی، خوشی سے آٹھ ہزار کی دیدی۔ اسی طرح ایک اور دوکاندار نے مجھے مردانہ شال جو سری نگر سے بنکر آئی تھی ، کافی رعایت سے دی۔ یہی مردانہ شال لاہور یا مری سے لیتی تو کافی مہنگی ملتی جبکہ کچھ اور ملبوسات ایک اور لڑکے سے خریدے جس نے مہمان نوازی کا پورا حق اد ا کیا اور ہمیں تحفہ بھی دیا۔ مطلب غربت کے با وجود انسانیت، اخلاق، تمیز اور مہمان نوازی اُن میں ہے۔ میں نے دریائے نیلم دیکھا۔ ہمارا قیام تینوں مرتبہ نیلم کے کنارے مختلف ہو ٹلوں میں رہا۔ ہم شاردا، ارنگ کیل ٹھہرے اور وہاں ہائکنگ بھی کی۔ اسکے بعد تاﺅبٹ گئے جو کیل سے تقریباً چار پانچ گھنٹے کی جیپ ڈرائیونگ پر نیلم کے کنارے انتہا ئی خطرناک انچے نیچے راستے پر مشتمل تھا۔ یہ اس قدر دشوار تھا کہ ڈرائیور کی معمولی سی غفلت سے آپ ہزاروں فٹ نیچے کھائیوں یا دریا میں گرِ سکتے ہیں۔ اگرچہ ہم نے جیپ میں کافی مہنگا سفر کیا لیکن ہما را مقامی ڈرائیور انتہائی مشاق اور تجربہ کار ہو نے کے با وجود دو مرتبہ اپنی نئی نکور جیپ کا نقصان کرا بیٹھا۔ ایک مرتبہ صرف ایک انچ جگہ کی وجہ سے سامان سے لدا ٹرک گر جاتا لیکن نے اپنی جیپ پہاڑ سے لگا دی لیکن ٹرک گرنے سے بچا دیا۔ یہ راستہ اس قدر خطرناک اور جان لیوا ہے کہ ایک مرتبہ ہماری جیپ اونچائی پر اچا نک بند ہو گئی اور پیچھے نیچے کی طرف گرنے لگی جبکہ ہمارے پیچھے اور تین چارجیپیں تھیں۔ ہماری جیپ ڈھلوان پر پھسلتی جا رہی تھی اور بریک کام نہیں کر رہے تھے اور تقریباً مکمل کنڑول ختم ہو گیا تھا۔ خدانخواستہ چاروں جیپیں نیچے ہزاروں فٹ دریا میں گر جاتیں۔ لیکن ہمارے ڈرائیور نے اپنی جیپ ٹریک کے ایک طرف چٹان سے ٹکرا کر روک دی ۔ جس سے جیپ کے اُ س حصے کا نقصان ہوا لیکن اس طرح ہم سبکی جان بچ گئی۔ تو صدرِ مملکت آصف زرداری صاحب! کشمیر جنت نظیر وادیوں پر مشتمل ہے۔ ہو سکے تو اسے اپنے نکاح میں لیجئیے کیونکہ ایک آپ ہی ہیں جو شاید کچھ کر گزریں۔ 

ای پیپر دی نیشن