گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
قارئین! آج سے تقریباً ڈھائی ماہ پہلے ایران کے اس وقت کے صدر جناب ابراہیم رئیسی کو جب وہ آذربائیجان کی سرحد کے قریب ایک پاور ڈیم کا افتتاح کرنے گئے تھے اور تقریب کے بعد جب وہ واپسی کے لیے اپنے ہیلی کاپٹرز قافلے کے ساتھ تہران کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں خراب موسم کی وجہ سے یا پھر ایک ٹیررسٹ اٹیک کرکے انہیں شہید کر دیا گیا تھا۔اس سانحے کے وقت بے شمار تھیوریز اور قصے کہانیوں نے جنم لیا تھا۔عالمی سیاستدانوں ،مفکروں ، صحافیوں اور تبصرہ و تجزیہ نگاروں نے اسرائیل کو ہی اس سانحے کا قصوروار گردانا تھا۔اس سے تقریباً تین ساڑھے سال پہلے ایران کی انٹیلی جنس اور فوج کے اعلیٰ ترین اور سیکنڈ انچیف جنرل قاسم سلیمانی شام میں تعینات اپنے ٹروپس کا وزٹ کرنے کے لیے گئے تھے وہاں انہیں میزائل اٹیک سے شہید کر دیا گیا تھا۔عالمی تبصروں اور تجزیوں میں اس وقت بھی اسرائیل کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔
پچھلے پانچ سال سے ایران کے اندر دورانِ سفر یا فیملی کے ساتھ موجود ایرانی نیوکلیئر پراجیکٹ پر کام کرنے والے اب تک پچیس سے زائد ایٹمی سائنسدانوں کا قتل کر دیا گیا جن میں سے بیشتر میزائل اٹیک اور قاتلانہ حملوں میں مارے گئے۔لیکن آفرین ہے کہ ایران کی قیادت کے کانوں پر جوں تک رینگی ہو۔اگر اوپر بیان کیے گئے سانحات میں سے کوئی ایک سانحہ بھی کسی یورپین یا امریکن ملک کے ساتھ پیش آیا ہوتا تو اس ملک میں تھرتھلی مچ جاتی ،وہ سارا نظام الٹ پلٹ کرکے، آگے بڑھنے سے پہلے ان سانحات کی مکمل انویسٹی گیشن کرواتے ،جب کہ ایرانی قیادت یہ بخوبی جانتی تھی کہ ان بزدلانہ کاروائیوں کے پیچھے کون سے اور کیا محرکات چھپے ہیں ؟ مگر اپنی کمزوری ظاہر نہ کرتے ہوئے ایرانی گورنمنٹ نے ان سانحات کو چھپانے اور دبانے کی مکمل کوشش کی۔قارئین نوائے وقت کو یاد ہوگا کہ کوئی چار پانچ ماہ پہلے ایرانی فضائیہ کی طرف سے پاکستانی علاقوں میں سرپرائز اٹیک کیا گیا تھا جس سے کئی پاکستانی شہری شہید ہوئے۔ جس کے ردعمل میں پاکستان نے فوری جواب دیا تھا اور ایران کو بتایا تھا کہ اسلامی امہ ،بھائی چارہ اور برادرانہ ہمسایہ ہونا یہ ایک علیحدہ بات ہے لیکن اپنے ملک کی سلامتی کو مقدم رکھنا یہ اس سے بھی بڑی اور مقدم ذمہ داری ہوتی ہے۔ پاکستان کے فوری ردعمل کی وجہ سے تیسرے دن ایرانی وزیرِ خارجہ بھاگم بھاگ پاکستان آئے اور ایک ماہ کے اندر اندر اس وقت کے ایرانی پریذیڈنٹ جناب ابراہیم رئیسی بھی چلے آئے تھے۔ انہیں احساس ہوا کہ ایران میں سب ٹھیک نہیں چل رہا کیونکہ ایران نے جب پاکستان پر اٹیک کی تحقیقات کی تو انہیں پتا چلا کہ یہ اٹیک کرنے سے پہلے وزیراعظم یا متعلقہ فورم پر منظوری نہیں لی گئی تھی۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایران کے اندر کچھ لوگ ایران کے اپنے دوست ممالک کے ساتھ برادرانہ اسلامی اور دوستی کے تعلقات کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ یقیناً ان قوتوں کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل کے علاوہ کون ہو سکتا ہے؟
مگر ایران نے ابھی تک ان تمام حادثات اور سانحات کو اپنی کمزوری سمجھ کر دبانے کی ناکام کوششیں کیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ایرانی انقلاب جہاں بے شمار مغربی ممالک اور امریکہ وغیرہ کو ہضم اور برداشت نہیں ہو رہا وہیں پر ایران کے اندر کچھ ایسی قوتیں، طبقات، گروپس اور نظریات موجود ہیں جو ایران کے انقلاب کے ثمرات کو ضائع کرنے کے لیے پچھلے پچاس سال سے سرگرم عمل ہیں۔مگر ایرانی حکومت اور مذہبی طاقتور رجیم اپنی اس کمزوری پر غالب آنے کی بجائے کبوتر کی طرح بلّی سے نظریں چ±را رہے ہیں۔یقینا ایران نے پچھلے پینتالیس سال سے امریکی اور اسرائیلی و یورپی سازشوں کا مقابلہ کیا ہے مگر وہ یہ امر بھول رہے ہیں کہ وہ اب 2024ءمیں ان سامراجی قوتوں کا بہت دیر تک مقابلہ نہیں کر سکتے۔جس کے تدارک کے لیے انہیں مکمل عوامی سپورٹ درکار ہوگی۔انہیں خواتین کے مسائل پر، نوجوانوں کے مسائل پر، نوکریوں اور روزگار کے مسائل پربھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔کیونکہ جب آپ کا میچ یا مقابلہ ایک مکار دشمن سے ہو تو آپ کو بھی اس کے مقابلے میں ہر قسم کی ٹیکنالوجی اور پالیسیاں اپنانا ہوتی ہیں۔جس کے لیے انہیں عوام کو اعتماد میں لینا پڑتا ہے۔پھر ابراہیم رئیسی کی شہادت کے بعد ایران نے دوماہ کے اندر انتخابات کروائے جس میں مسعود پزشکیان دومرتبہ کے انتخابی مراحل طے کرتے ہوئے صدر منتخب ہو گئے۔لیکن اس الیکشن میں کاسٹ ہونے والے ووٹوں کی کل تعداد 18فیصد سے بھی کم ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایران میں رجسٹرڈ ووٹرز 82فیصد عوام نے ان انتخابات کے انعقاد کو تسلیم نہیں کیا اور اس میں دلچسپی تک نہیں لی جو اس بات کا غماز ہے کہ ایران کو اپنی اندرونی پالیسیوں اور انقلابی معجزات پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
جس دن نئے ایرانی صدر کی حلف برداری کی تقریب تھی اس میں 80سے زائد ممالک کے وزراءاور صدور نے شرکت کرنا تھی جب کہ عین اس تقریب سے ایک روز پہلے پاکستان کے وزیراعظم میاں شہبازشریف اور ترکیہ کے صدر جناب طیب اردگان اور دیگر کئی مدعو شخصیات نے مختلف بہانوں سے اس میں شرکت سے معذرت کر لی اور اپنی جگہ اپنے نمائندگان بھجوا دیئے۔پاکستان نے بھی نائب وزیراعظم اسحاق ڈار صاحب کو بھجوایا تھا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ترکیہ، پاکستان اور دیگر ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اپنے ممالک کو یہ خبر دے دی تھی کہ ایران میں ہونے والی اس حلف برداری کی تقریب میں اس کچھ انہونی ہونے جا رہی ہے؟
دوسری بات یہ کہ جب حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایک فوجی رہائش گاہ میں شہید کیا گیا تو امریکی اور اسرائیلی میڈیا نے اسے میزائل اٹیک یا ڈرون حملے سے ملانے کی کوشش کی تھی تاکہ تحقیقات اور تفتیش کارخ اپنی مرضی سے موڑا جا سکے۔اور وہ ایسا کرنے میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکے تھے۔مگر پھر کیا ہوا کہ مشہور میڈیا گروپ ”ڈیلی ٹیلی گراف“ نے ایک بمثل خبر بریک کی کہ اسماعیل ہنیہ شہید کو میزائل یا ڈورن اٹیک سے نہیں بلکہ بارودی مواد اور ڈیوائس لگا کر شہید کیا گیا ہے اور پھر اس کے شواہد بھی سامنے آنے لگے۔ جس کے جواب میں ایرانی خفیہ ادارے بیدار ہوئے اور اب تک چوبیس کے قریب جو واردات کے پیچھے تھے ان کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں سے اکثر نے یہ بات قبول بھی کر لی ہے۔ توقارئین!ان حالات وواقعات کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جس النصرانی عالمی یونٹ نے اسماعیل ہنیہ شہید پر قاتلانہ حملے میں حصہ لیا ان کو فنڈنگ اور مکمل سپورٹ اسرائیل کی طرف سے حاصل تھی۔جب کہ ایک تیسرا اسلامی ملک بھی اس میں ممدومعاون ثابت ہوا۔لیکن جب تک ایران کے خفیہ ادارے بیدار نہیں ہوں گے اور جب تک ایران اپنی ان اندرونی کمزوریوں پر قابو نہیں پائے گا ،تب تک ایران کا نیوکلیئر پروگرام اور اس کی ملکی سلامتی خطرناک حد تک داﺅ پر لگی ہوئی ہے۔میں نے اپنے یوٹیوب چینل پر اسی دن ایک معلوماتی وی لاگ ریکارڈ کرایا تھا جس کا عنوان تھا ”ایران غداروں کے چنگل میں“جس میں میں نے ڈیلی ٹیلی گراف سے پہلے اس خبر کو بریک کر دیا تھا۔ اس وقت نہ صرف ایران کا نیوکلیئر پروگرام بلکہ میڈل ایسٹ اور ایران کی ملکی سلامتی بھی شدید دباﺅ پر لگی ہوئی ہے۔قارئین شاید ایران اپنی خفت مٹانے کے لیے اسرائیل پر ایک ہلکا سا حملہ کر دے۔تاکہ دنیا بھر کے مسلمان اور اس کی عوام اور فلسطینیوں کو ”لالی پاپ“ دیا جا سکے۔لیکن اپنے ہی گھر سے اور اپنی ہی بغلوں میں چھپے ہوئے ان ناسوروں کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ورنہ یہ ستر لاکھ یہودیوں کے ساتھ اسرائیل دنیا کے دو ارب مسلمانوں کی زندگی اجیرن کرتا رہے گا۔کسی نے سچ کہا تھاکہ: ”اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں“