وکلا ہاوسنگ سوسائٹی ڈی ایچ اے کے ساتھ مفاہمتی یاداشت

ٹی ٹاک ....طلعت عباس خان ایڈووکیٹ 
takhan_column@hotmail.com 

سپریم کورٹ وکلا ہاوسنگ سوسائٹی کی شروعات دو ہزار چودہ میں ہوئی اور آج تک وکلا کو قبضے کی چھتری نصیب نہیں ہوئی، اس کی بہت سی وجوہ ہیں
 کچھ شہر دے لوگ وی ظالم سن 
کچھ سانوں وی مرن دا شوق وی سی!
وکلا کے نمائندہ بھی اس تاخیرکے ذمہ دار ہیں۔ کمپوٹر نے بھی غلط کام کئے۔ ہم چپ رہے کہ ہماری وجہ سے دیر نہ ہو بحرحال اس سوسائٹی کو بنتے دیکھا ہے۔ پیسوں پر بعض وکلا کے نمائدوں سمیت سب کو مرتے دیکھا ہے، پیسے بناتے دیکھا ہے سوچتا ہوں یہ پیسے بنانے والے معصوم ہیں یا سنگدل۔کیا انہیں نہیں معلوم کہ زمین کے ہی نیچھے جانا ہے اور اپنے اعمال کے سوا کچھ نہیں ساتھ لے کر جانا ہے۔ حرام کا پیسہ دلوں کو سیاہ کر دیتا ہے پھر انسان حیوان بن جاتا ہے رشتے ناتے سب بھول جاتا ہے۔وکلا سوسائٹی پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں لیکن قمیض اٹھاتے ہیں تو اپنا ہی پیٹ برہنہ ہوتا ہے۔ سوسائٹی بنانے میں سب سے مشکل کام زمینوں کا قبضہ لینا ہوتا ہے جس پر ہم نا کام رہے لہذا اب جنھوں نے یہ نیا معاہدہ کیا ہے بہت سمجھداری کا ثبوت دیا ہے۔وکلا سوسائٹی ، ہاوسنگ سوسائٹی اور ڈی ایچ اے کے ساتھ ایم او یو پر دستخط یکم اگست دوہزار چوبیس کو سپریم کورٹ بار ہوسٹل کے ہال میں پروقار تقریب میں ہو ئے۔ تقریب میں وفاقی وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ ، وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی، وفاقی وزیر ہاوسنگ، میاں ریاض حسین پیرزادہ سابق صدور سپریم کورٹ بار، احسن بھون، قلب احسن صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت ، سیکٹری بار علی عمران اور موجودہ سپریم کورٹ کی کابینہ، پاکستان بار کونسل کے نمائندوں اور سپریم کورٹ بار کے وکلا نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر سپریم کورٹ ہاوسنگ سوسائٹی، ہاوسنگ اتھارٹی اور ڈی ایچ اے نے ایم او یو پر دستخط کئے۔ سپریم کورٹ بار کے جنرل سیکرٹری سید علی عمران جعفر نے سٹیج سیکٹری کے فرائض سرانجام دیے، اس تقریب کے پہلے مقرر سابق صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون نے سچ بول کر اس تقریب کو چار چاند لگا دیے۔ پروگرام سے پہلے میرے سمیت ہر کوئی یہی سمجھ رہا تھا کہ اس سال بھی ماضی کی طرح الیکشن کی کامیابی کے لیے وکلا سوسائٹی کا یہ سٹیج سجایا ہے۔ لیکن اس کے پیچھے جو کہانی جو واقعات سامنے آئے۔ جس سے ہم سب کی غیر یقینی کی کیفیت اب ختم ہو چکی ہے۔اس غیر یقینی کو ختم کرنے کا کریڈٹ احسن بھون اعظم نذیرتارڑ ،محسن نقوی کو جاتا ہے۔ جنھوں نے ڈی ایچ اے کے ساتھ ایم او یو کی ضرورت کو سمجھا۔ احسن بون نے کہا اس کا کریڈٹ وزیر داخلہ محسن نقوی کو جاتا ہے جن کی سوچ اور کوششوں سے اج ڈی ایچ اے کے ساتھ ملکر سوسائٹی کا کام کرنے جا رہے ہیں۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو بھی اس کا کریڈٹ جاتا ہے جنھوں نے اپنے پارٹی قائد کے قریب ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیراعظم میاں شہباز شریف ، آرمی چیف عاصم منیر ، وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر ہاوسنگ میاں ریاض حسین پیرزادہ سمیت سب کو آن بورڈ لیا اور سابق صدر احسن بھون کی انتھک کوششوں سے یہ تقریب کرنے میں کامیاب ہوئے۔ تقریب کے بعد اب امید ہو چلی ہے کہ اسی سال سڑکیں، سیوریج کا کام مکمل ہو جائے گا اور وکلا کو پلاٹوں کا قبضہ دے دیا جائے گا۔اب مزید اس کام میں تاخیر نہیں ہو گی۔ اگر وکلا کے نمائدے وکلا کی ویلفیئر کے لیے کام کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں مگر کرتے نہیں اپنے ذاتی کاموں میں یہ زیادہ مصروف رہتے ہیں یا اپنی سیاسی جماعت کے کام کرتے یہ تھکتے نہیں۔جس جگہ پر وکلا ہوسٹل بنا ہے اس کے درمیان اور الیکشن کمیشن کی بلڈنگ کے درمیان ایک نالہ تھا جس پر سی ڈی اے کے تعاون سے میڈیم عاصمہ جہانگیر اور ارشد کیانی سابق فنانس سیکریٹری ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کی دن رات کی کاوشوں سے ہوسٹل اور یہ راستہ بنا لیکن کئی عرصے سے اس راستے کو بند رکھا ہوا ہے ہمیں یہی بتایا جاتا رہا ہے کہ سیکورٹی کے حوالے سے یہ بند ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی بار کے نمائندے نے اس راستے کو کھلوانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اب اس تقریب میں وزیر داخلہ محسن نقوی سے راولپنڈی ہائی کورٹ بار کے صدر ملک جواد خالد کی موجودگی میں راستے کے حوالے سے راقم نے بات کی جس پر نقوی صاحب نے وعدہ کیا کہ ابھی افس جاتے ہی اسے کھلوا دونگا۔اسی راستے کے حوالے سے معلوم ہوا کہ ہمارے سینیر سپریم کورٹ بار کے ممبر و سیاسی شخصیت سید منظور گیلانی نے بھی اس راستے کے حوالے سے محسن نقوی سے کھل کر بات کی۔انہیں بھی نقوی صاحب نے یقین دلایا ہے کہ اس پر عمل ہو گا۔اگر بار کی موجودہ انتطامیہ اپنی ذمہ داریاں نباتی تو وکلا کو سپریم کورٹ کا دس کلومیٹر کا سفر اج طے نہ کرنا پڑتا۔ سپریم کورٹ سے پیدل آتے۔آج تو حالت یہ تھی کہ پیدل بھی اس راستے سے گزر نہیں سکتے تھے۔اس کا علم اس وقت ہوا جب راقم اور پیر سید منظور گیلانی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کے ساتھ سپریم کورٹ سے واک کرتے ہوئے الیکشن کمیشن پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ پیدل جانے کا راستہ بھی بند ہے جس کے بعد واپس آ کر کار سے دس کلومیٹر کا سفر تہ کرنے کے بعد پہنچے جس کی وجہ سے اس تقریب سے پہلے موڈ ہمارا سخت خراب تھا کہ تمام منسٹر اپ کے اپنے اور راستہ پھر بھی بند کیوں ہے اس لیے کہ اس پر کسی بار کے نمائندے نے توجہ نہیں دی کوشش نہیں کی۔ایسا ہی حال سپریم کورٹ پارکنگ کے داخلے کا کچھ عرصہ قبل تک تھا ایک ہی گیڈ سے ان اور اوٹ کر رکھا تھا۔جب کہ وہاں دو گیڈ موجود تھے۔ بھلا یو سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا جو سپریم کورٹ گھر سے پیدل اور سپریم کورٹ کے مختلف راستوں سے عدالت پہنچتے ہیں۔آپ نے اس جانب توجہ دلانے پر فوری ایکشن لیا اور اج سپریم کورٹ پارکنگ کا ان اور اوٹ کا راست الگ الگ ہو چکا ہے۔ وکلا سے گزارش ہے کہ اپنے نمائدوں کو ووٹ کے بعد بھی ان کے ساتھ رابطے میں رہا کریں۔ اج کی تقریب سے لگتا ہے یہ سپریم کورٹ بار کے حوالے سے ہر سال کی طرح الیکشن سٹنٹ ڈرامہ نہیں تھا۔ اب امید ہو چلی ہے کہ تین ماہ بعد اچھا رزلٹ دیکھنے کو ملے گا۔ محسن نقوی صاحب کا پہلا ٹیسٹ ہوسٹل کا راستہ کھلوانے کا شروع ہے کیونکہ یہ کاموں میں کوئی کام نہیں صرف کنٹینر ہٹانے ہیں۔ راستہ کلیر کرنا ہے۔اگر ہو سکے تو اس راستے کو الیکشن کمیشن سے الگ کر کے سیدھا کنزیشوشن ایونیو، سے ملا دیا جائے۔ اب ذرا ملکی حالات پر بات ہو جا?۔اس وقت نیشنل اور انٹرنیشنل معملات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ تیسری عالم جنگ کے خطرات بھی منڈلا رہے ہیں۔ لگتا ہے تیل گرا ہوا ہے صرف تیلی جلانے کی دیر ہے۔ملک میں معاشی سیاسی اور قانونی زلزلے کے جٹکے محسوس ہو رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ خاص کر بجلی کے بلوں اور غیر ضروری ٹیکس لگانے سے پرہیز کرے ،مہنگائی کو کم کرنے کے اقدامات فوری کریں۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ حالات واقعات جو ملک کے اندر اور باہر کے ہیں ان کو مد نظر رکھ فیصلے کریں۔ دھرنے جلسے جلوسوں کا موسم نہیں ہے۔ اس سے مشکلات سب کے لے ہونگی، بہتر ہے اس وقت پریس کانفرنس سے کام چلائیں۔ سپریم کورٹ بجلی کے بلوں پر سو موٹو لے۔ قومی اسمبلی کے نمائندے قانون سازی کریں۔ عدالتیں، آئین اور قانون کے مطابق فیصلے جلد کیا کریں۔ جیلوں میں بے سہارا قیدیوں کی اپیلوں کو سن کر جلد فیصلے کریں۔ ہر ادارہ اپنے اپنے کام کرے۔ پاک فوج پر بے جا تنقید بند کی جائے۔ یہ بھی سیاست سے دور رہیں اسی میں ہم سب کی بہتری ہے۔ سیاسی جماعتیں سلجھے انداز سے ملک و قوم کی خدمت کریں۔ یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔''پاکستان زندہ باد''

ای پیپر دی نیشن