14 فیصد پاکستانی وزیر اعظم کے نام سے لاعلم نکلے۔
امید ہے اب یہ بات ان لوگوں کو بھی سمجھ میں آ گئی ہو گی جو کہتے ہیں کہ ہمارے حکمران عوامی فلاحی کاموں کی تشہیر میں اپنی تصاویر اور نام کیوں لگاتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو سوچ لیں پھر کیا ہو گا۔ اب گیلپ کے اس سروے سے ایک اچھی بات یہ سامنے آئی ہے کہ کم از کم 65 فیصد پاکستانی ایسے ہیں جو اپنے وزیر اعظم کے نام سے باخبر ہیں۔ یوں اس جدید دور میں جہاں لوگ اپنے ہمسائے کے نام سے بھی بے خبر ہوتے ہیں، اگر اشتہارات نہ ہوں تو کیا ہو گا۔ اسی لیے تشہیر کو ایک موثر طاقت کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو سب سے زیادہ سیاست پر ہی زور ہوتا ہے۔ عوامی مسائل ہوں یا موسمی حالات۔ مہنگائی ہو یا بے روزگاری۔ یا پھر کرپشن۔ جہاں بھی جس موضوع پر بات ہو سیاست ضرور داخل ہوتی ہے۔ شاید اس وجہ سے بھی لوگ حکمرانوں اور اپوزیشن والوں کے نام تک سے آگاہ ہوتے ہیں اور نام لے کر انہیں کوستے ہیں۔ ورنہ دنیا کے بڑے ممالک جو پڑھے لکھے بھی ہیں اور وہاں کا میڈیا بھی ہم سے ہزار گنا بہتر ہے۔ وہاں کے سروے دیکھیں تو حالات ہم سے بھی بدتر ہوں گے۔ بہت کم لوگ اپنے صدر یا وزیر اعظم سے واقف نکلتے ہیں۔ وہاں تو طالب علم دنیا کے کئی ممالک کا نام نہیں جانتے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، لوگ امریکہ، چین، بھارت، روس اور کئی اسلامی ممالک کے حکمرانوں سے واقف ہیں۔ صرف واقف ہی نہیں ان کے بارے میں ہر طرح کا تبصرہ کرتے ہوئے گھنٹوں بول سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
پیرس اولمپکس میں میڈل کی آخری امید ، ارشد ندیم۔
پیرس اولمپکس سے جڑی ہماری ساری امیدیں کہ کوئی میڈل شاید ہماری جھولی میں بھی آن گرے، دم توڑ چکی ہیں۔ پیراکی، اتھلیٹکس، شوٹنگ کسی میں بھی تو قسمت نے یاوری نہیں کی۔ حالانکہ ہمارا سات رکنی مختصر دستہ ہی اس میں شریک تھا۔ مگر وہ بھی کوئی اچھی خبر نہ دے سکا۔ کامیابی کے سفر کے پہلے مرحلے میں ہی تھک ہار کر بیٹھ گئے۔ اب معلوم نہیں یہ کھلاڑی کس بنیاد پر اولمپکس کے دستے میں شامل کئے گئے۔ سابقہ کارکردگی دیکھ کر انہیں چنا گیا یا کسی اور وجہ سے۔ اب بلاوجہ تنقید سے ان نئے کھلاڑیوں کی بھی دل شکنی ہو سکتی ہے۔ البتہ محکمہ کھیل والے اس طرف بھی توجہ دیں اور اگر اپنے بل پر یہ آئے ہیں تو ان ہیروں کو مزید تراش کر ان کی تربیت کریں تاکہ وہ آئندہ نام کما سکیں کامیابیاں سمیٹ سکیں اور عالمی میدانوں میں پاکستانی پرچم سربلند ہو۔ اب صرف ارشد ندیم سے ہی امیدیں بندھی ہیں۔ خدا کرے وہ پوری ہوں اور جیولین تھرو کے میدان میں ارشد ندیم کا نیزا مخالفوں کے سینے کو چیرتا ہوا نیا ریکارڈ قائم کرے۔
گزشتہ دنوں انہوں نے ویسے بھی بھارتی عالمی چیمپئن نیراج چوپڑا کا قائم کردہ ریکارڈ بھی توڑا ہے۔ اب اگر وہ فائنل میں بھی اسی طرح کامیاب ہو کر بھارتی غرور کو توڑیں تو یقین کریں پاکستانیوں کو بہت خوشی ہو گی۔ وہ کسی اور ایونٹ میں میڈل حاصل نہ کر پانے کا دکھ بھی بھول جائیں گے۔ دعا ہے قوم کی دعائیں قبول ہوں اور پیرس کی فضاﺅں میں بھی پاکستانی پرچم آن بان شان سے لہرائے۔ ورنہ آج کل ہمارے ہاں خوشی کی خبر کہیں سے نہیں آ رہی ہر جگہ خوشیوں کا کال پڑا لگتا ہے۔ اب اولمپک میں میڈل کی آخری امید خدا کرے بر آئے۔
مری میں دکانداروں کی سیاحوں سے لڑائی، پولیس غائب۔
ایک بار پھر محسوس ہوتا ہے کہ مری کے لٹیرے جو اب دکانداروں کے بھیس میں شہر پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ دوبارہ اپنی پرانی روش پر لوٹ آئے ہیں اور جتھے بنا کر سیاحوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ یوں ایک معمولی تنازعہ لڑائی کی شکل اختیار کرتا ہے اور یہ سب دکاندار ڈنڈے اٹھا کر سیاحت کیلئے آنے والوں کو مار پیٹ کر ان کی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ شاید یہ دکاندار پہلے والا سبق بھول چکے ہیں جب پاکستان بھر سے سیاحت کے لیے آنے والوں نے مری کا بائیکاٹ کر کے ان کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا تھا۔ مری کی سڑکوں پر جہاں کھوے سے کھوا چھلتا تھا ویرانی نے ڈیرے ڈال دئیے تھے اور صرف کتے اور بلیاں وہاں مٹر گشت کرتی پھرتی تھیں۔ دکانیں بھاں بھاں کرتی منہ کھولے گاہکوں کے انتظار میں بیوہ عورت کی طرح نظر آتی تھیں۔ گزشتہ روز بھی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح دکانداروں کا ٹولہ ایک سیاح کو پھینٹی لگا رہا ہے۔ اسے بچانے کوئی آگے نہیں آتا سب تماشہ دیکھتے ہیں۔ دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ اس موقع پر کسی نے پولیس کو بھی اطلاع نہیں دی نہ ڈولفن کے پاں پیں کرتے موٹر سائیکل سوار وہاں پہنچ سکے۔ مقامی انتظامیہ اور پولیس کی بے نیازی دیکھ کر لگتا ہے وہ بھی ان دکانداروں اور ہوٹل والوں کے ساتھ ہیں۔ اب کیا ان ہتھ چھٹ دکانداروں کو بھولا ہوا سبق ایک بار پھر یاد دلایا جائے۔ پورے ملک میں مری کا بائیکاٹ کر کے لوگ ثابت کر دیں کہ وہ لاکھوں روپے خرچ کر کے مری سیرو تفریح کے لیے آتے ہیں۔ وہاں کے غنڈوں سے مار کھانے ، بے عزت ہونے کے لیے نہیں۔انتظامیہ اس واقعہ کو معمولی نہ لے۔ ان فسادیوں کو سبق سکھایا جائے۔
برطانیہ کے مختلف شہروں میں تارکین کیخلاف نسل پرست تنظیموں کے مظاہرے۔
ویسے تو برطانیہ کو جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب اس ماں کے دامن میں پناہ لینے والے تارکین وطن کو خود برطانوی نسل پرستوں سے جان و مال کا خطرہ ہے جو ان لوگوں کے وجود سے برطانیہ کو پاک کرنا چاہتے ہیں۔ تمام تر جمہوری، مساوات اور انسانی حقوق کے دعوﺅں کے باوجود برطانیہ کے سفیدفام انتہا پسند جہاں موقع ملتا ہے ، ایشیائی اور افریقی تارکین وطن کے خلاف نفرت کا بھرپور اظہار کرتے ہیں۔
اسلامو فوبیا کے حوالے سے خاص طور پر مسلم ممالک کے باشندے ان کا خاص نشانہ ہوتے ہیں۔ گزشتہ روزایک شخص کے چاقو سے حملے میں دوبچے مارے گئے تو افواہ پھیلائی گئی کہ یہ چاقو بردار مسلمان تارکِ وطن ہے۔ بس پھر کیا تھا مختلف شہروں میں مساجد، مسلمانوں کی دکانوں اور گھروں پر حملے شروع ہو گئے۔ نسلی فسادات کا بھوت پوری شدت سے ناچنے لگا۔ ملزم کی بروقت گرفتاری اور پولیس کے اعلان کے باوجود کہ یہ برطانوی شہری ہے۔ مسلم تارک وطن نہیں مگر ملک سے تارکین وطن کو نکالنے کا مطالبہ کرنے والی نسل پرست تنظیم نے طوفان اٹھائے رکھا۔ اس ہنگامہ آرائی پر اس کےسربراہ سمیت 147 ارکان گرفتار کر لئے گئے۔ پولیس سڑکوں پر ہنگاموں اور مظاہروں پر قابو پانے میں مصروف ہے کیونکہ اپنے تحفظ کا ایشیائی تارکین وطن بھی مطالبہ کرتے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
منگل ‘ 30 محرم الحرام 1446ھ ‘ 6 اگست 2024
Aug 06, 2024