ڈیجیٹل دہشتگردی

سبط حسن نے ”نوید فکر“ میں لکھا ہے کہ سقراط جب زہر کا پیالہ پی چکا تو اس کے شاگرد کریٹو نے پوچھا کہ ”اے استاد بتا ہم تیری تجہیزو تکفین کن رسموں کے مطابق کریں“ اس پر سقراط ایک غمگین سی ہنسی ہنسا اور سوالیہ انداز میں دہرایا کہ ”میری تجہیز و تکفین"؟۔ کریٹو میں نے تم لوگوں کو تمام عمر سمجھایا کہ لفظوں کو ان کے صحیح معنوں میں استعمال کیا کرو مگر معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے“۔
 وطن عزیز اپنے قیام سے ہی مشکل دور سے گزرتا چلا آرہا ہے گویا یہ معمول کا جملہ ہے لیکن آج کل تو وطن عزیز مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ یعنی مشکل میں ترین کا اضافہ ہو گیا ہے سبھی مسکراہٹیں فکر زندگی کی دبیز تہوں کے نیچے کہیں دب کر رہ گئی ہیں۔
ملک میں یوں تو زندگی کرنے کیلئے ”محبت کے سوا تقریباً ہر غم موجود ہے لیکن ایک مشکل جو دکھوں پر سب سے زیادہ نمک پاشی کر رہی ہے وہ ہے ڈیجیٹل یا سوشل میڈیا کا بدلتا ہوا مزاج ....کچھ پوسٹیں ایسی تندوتیز ہوتی ہیں کہ خود غالب کو کہنا پڑ جائے ”تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے“ سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا قابل مذمت لیکن جذباتی ہوکر کر اس طرف مائل ہونے والے مظلوم عوام کیلئے بھی تو کچھ کرنا ہوگا۔
محدود عوامی وسائل اور اشرافیہ کے ٹھاٹھ باٹھ والے پاکستان جیسے ملکوں میں ایسا ہونا بعدازقیاس نہیں۔ جہاں انفارمیشن تک رسائی کے قوانین تو موجود ہوں لیکن ان پر عملدرآمد ایک خواب بن جائے اور سونے پر سہاگہ کہ عوام کو بھی پڑھنے لکھنے سے کوسوں دور رکھا جائے وہاں سچائیوں سے کہیں زیادہ افواہیں اور پراپیگنڈے اس طرح پھوٹتے ہیں جس طرح برسات میں خودرو گھاس نشوونما پاتی ہے۔ 
یادش بخیر! محترمہ بینظیر کے دور حکومت میں کراچی کے امن و امان کے حالات کنٹرول سے باہر ہوئے تو محترمہ نے اس کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی کہ ”بھارت کے تربیت یافتہ بھی ایم کیو ایم کی لڑائی میں شامل ہوگئے ہیں“ ایسا اکثر ہو جاتا ہے اور دشمن بھی ایسے نازک اور مشکل حالات سے فائدہ اٹھانے پہنچ جاتا ہے اور بڑھ چڑھ کر اپنا کام دکھاتا ہے، جھوٹ سچ سے بھی مہنگا ہو جاتا ہے اور حالات کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں۔
 ڈیجیٹل پراپیگنڈے کو روکنے کیلئے موثر قوانین اور ان پر عملدرآمد تو ضروری ہے اور بڑے بڑے جمہوری ملکوں میں بھی کئی سخت قوانین لاگو ہیں کہ کوئی بھی معاشرہ شتر بے مہار نہیں ہونا چاہئے، ادارے یا عوام، سب کو اپنی حدود و قیود میں رہنا چاہئے تاکہ نظام اور کام دونوں چلتے رہیں۔موثر قوانین کے ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وطن عزیز میں اظہار رائے کی عملی طور پر کتنی آزادی ہے، ریگولر میڈیا کتنا آزاد اور کتنا ذمہ دار ہے؟ اگر آزادی اور ذمہ داری کی مقدار بہت کم ہے تو پھر برتن بھرے گا تو کہیں نہ کہیں سے چھلکے گا بھی۔ 
غالباً چرچل نے کہا تھا کہ جس طرح خون کی کمی کا موثر علاج مزید خون کی فراہمی ہے، اسی طرح جمہوریت کی کمی کا علاج مزید جمہوریت ہے، بالکل ایسے ہی سوشل میڈیا پراپیگنڈے کا تیر بہدف علاج معاشرے کو خون کی بوتلوں کی طرح سچ کی بوتلوں کی فراہمی ہے۔ جن ملکوں میں یہ تجربہ کامیاب چل رہا ہے ان کی مثال ہی لے لیں کہ وہاں ڈیجیٹل ایپس ہمارے معاشرے سے زیادہ استعمال ہوتی ہیں لیکن ہلچل کی یہ کیفیت اس لئے نہیں کہ معلومات تک رسائی کے قوانین بڑے اچھے انداز میں چل رہے ہیں۔ ایک بات اور مد نظر رکھنی چاہئے کہ سب کچھ اپنے اصل کی طرف لوٹتا ہے یا لوٹنے کو بے چین رہتا ہے کھوجنا اور اپنے اصل کو تلاش کرنا انسانی فطرت ہے جس کے آگے بند نہیں باندھا جا سکتا۔
 ایک بادشاہ کو گداگر کی بیٹی سے محبت ہو گئی(جیسا کہ قصے کہانیوں میں ہو جاتا کرتا ہے)۔ اس سے شادی کر لی۔ فقیر کی بیٹی محل میں آئی تو دنیا ہی بدل گئی۔ جو خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا وہ سچ بن کر سامنے آ موجود ہوا (غریب لوگ بہت ساری چیزیں خواب میں بھی نہیں دیکھ پاتے کہ ان کے خواب بھی ان کی زندگیوں کی طرح محدود ہوتے ہیں، ان کیلئے تو بلوں کی ادائیگی اور ایک وقت کی روٹی ہی بڑی چیز ہوتی ہے)۔ گداگر کی بیٹی کچھ دن تو انواع و اقسام کی نعمتوں سے محظوظ ہوتی رہی پھر اچانک اداس رہنے لگی۔ بادشاہ پریشان ہوا، مزید نعمتوں کے ڈھیر لگا دیئے، عوامی خرچ پر مری، نتھیاگلی، کاغان، جھیل سیف الملوک، برطانیہ، دبئی، سوئٹزرلینڈ کے دورے تک کرا دیئے لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی.... ایک دن ایک سمجھدار آدمی سے ملاقات ہو گئی (کاش ہمارے ارباب اختیار بھی سمجھدار آدمیوں سے مل بیٹھیں اور ان کی باتوں پر عمل کریں) سمجھدار نے مشورہ دیا کہ ملکہ کو اس کی جھونپڑی میں اکیلا چھوڑ کر دیکھو، جھونپڑی کو بھی عوامی ٹیکسوں سے باہر کی طرف سے یادگار میں بدل دیا گیا تھا۔ ملکہ جھونپڑی سے باہرآئی تو بہت خوش تھی۔ پھر تو روٹین بن گئی۔ ملکہ اداس ہوتی تو اسے جھونپڑی میں چھوڑ دیا جاتا۔ تجسس انسان کی گھٹی میں پڑا ہے۔ (اسی تجسس کی وجہ سے عام طور پر بہت سی حقیقتیں گول ہو جانے کے باعث لوگ سوشل میڈیا کے سچ جھوٹ کی طرف مائل ہو جاتے ہیں) چنانچہ بادشاہ نے بھی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایک سوراخ سے دیکھا تو ملکہ گداگروں والا لباس پہن کر کشکول پکڑے اللہ کے نام پر کچھ دینے کی صدائیں بلند کر رہی تھی۔ 
 ہر ذی روح کی طرح پاکستانی اپنے اصل کی طرف لوٹنے کیلئے بے چین اور سچائی کی تلاش میں مارے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں معلوم ہو کہ ان کے ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ وہ جو اپنا اور بچوں کا پیٹ کاٹ کاٹ کر ٹیکس دیتے ہیں اس سے اشرافیہ پر کتنا خرچ ہوتا ہے اور آئی پی پیز کی جھولی میں کتنا ڈال دیا جاتا ہے۔ جو قرض ان کے نام پر لیا جاتا ہے وہ اصل میں کہاں استعمال ہوتا ہے اور جو گندم یوکرائن سے برآمد کی گئی کیا وہ صرف ایک یا دو سرکاری افسروں کا ہی کیا دھرا ہے یا پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیں؟ اور خوراک، علم، صحت، انصاف اور میرٹ کے نام پر مذاق ”مول“ لیکر جو وسائل کا ٹوکرا وہ ریاست کو فراہم کر رہے ہیں وہ ”سیلاب بلا“ کس کے گھر جا رہا ہے!
یہ بات درست کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ”بھارت کے تربیت یافتہ“ کی طرح بہت سے ملک دشمن بھی سوشل میڈیا پر پوری طرح ایکٹو ہو چکے ہیں۔ پھر کہتا ہوں کہ تدارک کیلئے موثر قوانین اور ان پر عملدرآمد ضروری ہے لیکن جب تک عوام کے سامنے حقیقتوں کو کھول کھول کر بیان کرکے اعتراف جرم اور آئندہ نیک نیتی سے آگے بڑھنے کا قصد نہیں کیا جاتا، مصیبت ٹلنے والی نہیں۔ حقائق سے پردہ اٹھانا ہوگا ریاست کسی ایک کی نہیں تو دکھ اور وسائل بھی سانجھے ہونے چاہئیں۔ سوشل میڈیا پر غلط کہنے والوں کے ہاتھ اور زبان کاٹ دیں لیکن اپنا بہت کچھ گنوا کر اس جھوٹ سچ کی طرف مائل ہونے والے مظلوموں کو بھی تو گلے لگا کر دلاسہ دیں۔

ای پیپر دی نیشن