"چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد"

یہ درست ہے کہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے کسی فل بنچ‘ وسیع تر بنچ اور اسی طرح فل کورٹ کے اقلیتی ججوں کی جانب سے تحریر کئے گئے اختلافی نوٹ کو عدالتی فیصلہ کا درجہ حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی اس نوٹ میں دی گئی کسی رولنگ یا رائے کی قانونی‘ آئینی اور عدالتی حیثیت ہوتی ہے مگر سیاسی محاذآرائی اور ادارہ جاتی ٹکراﺅ کے ماحول میں اعلیٰ عدلیہ کے اکثریت رائے سے صادر ہونیوالے کسی فیصلہ کے برعکس اس فیصلہ میں شامل کئے گئے اختلافی نوٹ آئین و قانونی کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کے حوالے سے اکثریت رائے سے صادر ہونیوالے کسی فیصلہ کو بے وقعت بنا کر رکھ دیتے ہیں اور اسی بنیاد پر عدالتوں میں اس فیصلے کو بطور نظیر پیش کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف نواب محمد احمد خان کے قتل کیس میں لاہور ہائیکورٹ کے ٹرائل کورٹ میں تبدیل کئے گئے فل بنچ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ کے 9 ججوں پر مشتمل وسیع تر بنچ نے پانچ، چار کی اکثریت کے ساتھ برقرار رکھا اور پھر سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کیخلاف نظرثانی کی درخواست متفقہ طور پر مسترد کردی چنانچہ ذوالفقار علی بھٹو اس فیصلہ کی بنیاد پر ایف ایس ایف کے چار اہلکاروں سمیت پھانسی کے پھندے پر جھول گئے مگر اسکے بعد ہوا یہ کہ دنیا بھر کے عدالتی‘ قانونی‘ آئینی‘ سیاسی اور عوامی حلقوں میں عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ مذاق بن کر رہ گیا جسے آج تک پاکستان سمیت دنیا کی کسی عدالت میں بھی کسی کیس کو مضبوط بنانے کیلئے بطور حوالہ پیش نہیں کیا گیا چنانچہ عدالت کے کسی فیصلہ کی اس سے زیادہ بے توقیری اور کیا ہو سکتی ہے کہ اسکے مجاز عدالت کے صادر کردہ اور قانونی ہونے کے باوجود اسے آئینی‘ قانونی‘ عدالتی حلقوں میں قبولیت کا درجہ حاصل نہ ہو سکے۔ اسی بنیاد پر بالآخر سپریم کورٹ کو بھی بھٹو قتل کیس کے فیصلہ پر اسکے صادر ہونے کے 45 سال بعد نظرثانی کرنا پڑی اور اس فیصلہ کو ماورائے آئین و قانون قرار دیکر اس فیصلہ کی اتھارٹی ختم کرنا پڑی جبکہ اس کیس میں اختلافی نوٹ لکھنے والے سپریم کورٹ کے چاروں فاضل جج اس وقت قوم اور دنیا کی نگاہ میں سرخرو ہو چکے ہیں جن کے اختلافی نوٹس کی بنیاد پر ہی سری لنکا کے سابق چیف جسٹس راجا رتنم نے بھٹو مرحوم کی پھانسی کی سزا کو عدالتی قتل قرار دیا تھا۔ آج سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے بھی بھٹو کے عدالتی قتل پر مہر تصدیق ثبت ہو چکی ہے اور ایسا صرف 1979ءوالی سپریم کورٹ کے متعلقہ وسیع تر بنچ میں چار فاضل ججوں کے تحریر کئے گئے اختلافی نوٹ کی بنیاد پر ہی ممکن ہوا ہے۔ 
میرا یہ تمہید باندھنے کا مقصد موجودہ سپریم کورٹ کے 13 رکنی فاضل ججوں پر مشتمل فل کورٹ میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں کے کیس میں آٹھ‘ پانچ کی اکثریت کے ساتھ صادر کئے گئے فیصلے کی طرف توجہ دلانا ہے جس میں اس بنچ کے سربراہ چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت پانچ فاضل ججوں نے اکثریتی فیصلہ سے اختلاف کیا اور اپنے اختلافی نوٹ اس فیصلہ میں شامل کئے۔ چونکہ اس کیس میں آٹھ فاضل ججوں کی جانب سے مختصر فیصلہ صادر کرتے ہوئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی خواتین اور اقلیتیوں کی خصوصی نشستیں تکینکی بنیادوں پر اور آئین و قانون کی متعلقہ شقوں کی روح کے مطابق سنی اتحاد کونسل کی بجائے دوسری پارلیمانی پارٹیوں کو الاٹ کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیکر یہ تمام الاٹ شدہ نشستیں پی ٹی آئی کے اس کیس میں فریق نہ ہونے کے باوجود اس کی جھولی میں مفت میں ڈال دی گئی تھیں اور الیکشن کمیشن کو پندرہ دن کے اندر اندر اس فیصلہ پر عملدرآمد کی ہدایت کی تھی جس سے اس فیصلہ کی بنیاد پر ملک میں ایک نیا آئینی بحران پیدا ہوا اور اب تک مفصل اکثریتی فیصلہ جاری نہ ہونے کے باعث الیکشن کمیشن اور دوسرے فریقین اس فیصلہ کیخلاف باضابطہ طور پر نظرثانی کی درخواست دائر نہیں کر سکے، نتیجتاً پندرہ دن کے اندر اندر سپریم کورٹ کے فیصلہ پر مکمل عملدرآمد بھی نہیں ہو پایا جس سے جہاں آئینی بحران مزید سنگین ہوتا نظر آرہا ہے وہیں دو ریاستی ادارے عدلیہ اور الیکشن کمیشن باہم ٹکراﺅ کی کیفیت پیدا کرتے ایک دوسرے کے مدمقابل آچکے ہیں۔ اس لئے اس فیصلہ میں اختلافی نوٹ لکھنے والے پانچ میں سے دو فاضل ججوں جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اپنے تحریر کردہ مفصل اختلافی نوٹ جاری کرکے اس کیس کے فیصلے کو خود ہی نظرثانی کا متقاضی بنا دیا ہے۔ چنانچہ اب انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس فیصلہ پر فوری نظرثانی کا راستہ اختیار کرکے اسے بھٹو کیس کے فیصلہ کی طرح متنازعہ ہونے سے بچالیا جائے ورنہ یہ اکثریتی فیصلہ ہونے کی بنیاد پر اپنے اطلاق کی اتھارٹی رکھنے کے باوجود عدلیہ کی تاریخ میں بے وقعت ہونے والا دوسرا فیصلہ بن جائیگا۔ 
بے شک اس فیصلہ کے ساتھ ہی ارکان پارلیمنٹ کی نااہلیت سے متعلق آئین کی دفعات 62 63, کی متعلقہ شقوں کی تشریح کرنے والا سپریم کورٹ کا 2022ءکا فیصلہ بھی جڑا ہوا ہے اس لئے اگر سپریم کورٹ کے کسی مخصوص بنچ کی جانب سے آئین و قانون کے تقاضوں سے ہٹ کر اور متعلقہ مقصد کے حصول کیلئے آئین کی متعلقہ شقوں کی اپنی مرضی کی توجیہہ و تشریح کرنا ہی اپنا آئینی حق گردانا جائیگا تو معاملہ محض آئینی و قانونی موشگافیوں سے پیدا ہونیوالے الجھاﺅ تک ہی محدود نہیں رہے گا‘ بلکہ یہ اداروں میں گھمسان کا رن پڑنے کی بھی نوبت لا سکتا ہے۔ ایسے حالات کا انجام کیا ہوتا ہے؟ متعلقین خود بھی سمجھ دار ہیں۔ انہیں میں یا کوئی دوسرا ایرا غیرا مشورہ دینے والا کون ہوتا ہے۔ 
مخصوص نشستوں والے کیس میں تو اکثریتی ججوں کا فیصلہ خود ہی بول رہا ہے کہ اسے کس مقصد کے تحت آئین و قانون کے تقاضوں کو یکسر نظرانداز کرکے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان پہنچانے کی خاطر صادر کیا گیا چنانچہ یہی فیصلہ عدالت عظمیٰ کے 2022ءمیں صادر ہونیوالے اس فیصلہ کو بھی بے وقعت بنا دیگا جس کے تحت آئین کی دفعہ 62 کی ان شقوں میں ردوبدل کرکے کسی رکن پارلیمنٹ کی جانب سے اپنی پارلیمانی پارٹی کے فیصلہ کے برعکس کسی قانون سازی کے حق یا مخالفت میں ووٹ ڈالنے سے پہلے ہی اسے اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا گیا اور پھر پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے حمزہ شہباز کے حق میں ووٹ ڈالنے سے پہلے ہی انہیں نااہل بھی قرار دے دیا گیا۔ کسی عدالتی فیصلے کے تحت کیا اس سے بڑا آئینی اور قانونی مذاق کوئی اور ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آئین کی تشریح کے متقاضی ریفرنس میں دی گئی فائنڈنگ کو بھی اب مخصوص نشستوں والے کیس کے فیصلہ میں درخوراعتناءنہیں سمجھا گیا اور اسمبلیوں میں سنی اتحاد کونسل کے ارکان کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس پارلیمانی پارٹی کو چھوڑ کر پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی میں شامل ہو جائیں۔ اس طرح کیا عدالت نے خود ہی سنی اتحاد کونسل کے ارکان کو انکی پارٹی سے منحرف کراکے سپریم کورٹ کے 2022ءوالے فیصلہ کی بنیاد پر انکی نااہلیت کا تکنیکی بنیادوں پر راستہ نہیں کھولا؟ آپ ”چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد“ والا ماحول گرمانا چاہتے ہیں تو پھر نہلے پہ دہلا آتا ہی رہے گا۔ اور یار لوگ منتظر رہیں گے کہ ”کِس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد۔“

ای پیپر دی نیشن