اس نے ہمیں بچا لیا 

ہمارے تیراک عالمی مقابلے سے قبل پریکٹس میں مصروف تھے۔ لائن بنا کر آپس میں مقابلے کے لیے تیار تھے کہ ایک دوسرے ملک کا کھلاڑی بھی ان کے ساتھ اس ریس میں شامل ہوگیا اور پھر سب کو پیچھے چھوڑتا ہوا مقابلہ جیت گیا۔ تمام تیراکوں نے اس کو سراہا اور کہا کہ آپ نے زبردست تیراکی کی آپ ضرور میڈل جیتیں گی تو وہ بولا بھائی میں تو والی بال کا کھلاڑی ہوں اپنی پریکٹس کے بعد نہانے کے لیے یہاں آگیا تھا۔ ویسے ایسا کوئی واقعہ شاید ہی ہوا ہو۔ لطیفہ بنا لیا گیا ہے لیکن اگلا جو واقعہ ہے وہ ہوا بھی ہے اور اس کے ٹھٹھے بھی خوب لیے گئے ہیں۔ اولمپکس مقابلوں میں پاکستانی تیراک مقابلے میں آخری نمبر پر آیا پھر کیا تھا ہمیں تو کچھ چاہیے مزاق اڑانے کے لیے، اس تیراک کی تصاویر بنا کچھ سوچے سمجھے دھڑا دھڑ شیئر کرنا شروع کردیں۔ کہا، شکر کریں وہ ڈوبا نہیں۔ اس پر مزید بات کرنے سے پہلے ذرا اولیمپکس مقابلوں کے بارے میں جان لیں ان کھیلوں کا پانچ دائروں والا نشان تو سبھی نے دیکھا ہوگا یہ پانچ دائرے دراصل پانچ براعظموں کو ظاہر کرتے ہیں یعنی ان کھیلوں میں دنیا بھر کے کھلاڑی شریک ہوتے ہیں۔ ان مقابلوں کی تاریخ سو سال سے بھی کئی دہائیاں زیادہ ہوچکی ہے۔ دنیا کے دو سو سے زائد ممالک کے کھلاڑی ان مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ تین درجن کے لگ بھگ مختلف کھیل یہاں کھیلے جاتے ہیں۔ اس بار اولیمپکس میں بتیس کھیلوں میں دنیا کے دو سو سے زائد ملکوں کے ساڑھے دس ہزار سے زائد کھلاڑی شریک ہیں۔اور اس بار کی سب سے منفرد اور قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اس میں خواتین اور مرد کھلاڑیوں کی نمائندگی برابر رکھی گئی ہے۔
اب بات کر لیتے ہیں پاکستان کی جو اب تک بیس اولیمپکس مقابلوں کا حصہ بن چکا ہے اور اس کے جیتے گئے میڈلز ہیں صرف دس، تین سونے، تین چاندی اور چار کانسی کے میڈلز ہماری ساڑھے سات دہائیوں کی مجموعی کامیابیاں ہے۔ ان دس میں سے سات میڈلز ہاکی میں جیتے گئے اور تمام کے تمام تین گولذ میڈلز بھی پاکستان ہاکی ٹیم نے ہی حاصل کیے پاکستان گزشتہ بائیس سال سے اولیمپکس کا کوئی میڈل نہیں جیتا پایا اور ماضی میں ملک کو میڈلز دلانے والی ہاکی ٹیم اب تو اولیمپکس کے لیے کوالیفائی ہی نہیں کر پارہی۔ جی ہاں اولیمپکس کے لیے کوالیفائی کرنا پڑتا ہے اور جو کھلاڑی بھی یہاں شرکت کرتے ہیں انھیں ان مقابلوں کے لیے اپنی اہلیت ثابت کرنا پڑتی ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پچیس کروڑ آبادی کے ساتھ دنیا کے پانچویں بڑے ملک میں ہمارے صرف سات کھلاڑی اولیمپکس میں شرکت کررہے ہیں۔ ان میں سے بھی تین وائلڈ کارڈ اینٹری پر ان مقابلوں میں شریک ہوئے۔ لیکن یہ کھلاڑی کون ہیں؟ آتے کہاں سے ہیں؟ کھیلتے کہاں ہیں؟ کاش ہم ان کی ناکامی کا مزاق اڑانے سے پہلے یہ سب بھی جان لیں۔ سو میٹر دوڑ میں حصہ لینے والی ہماری خاتون کھلاڑی فائقہ ریاض کو کوچ تک کی سہولیات میسر نہیں تھی۔ میڈیا کے چیخنے چلانے پر محض ایک ہفتے کے لیے کوچ مل سکا۔ صرف اپنی محنت کے بل بوتے پر دنیا میں پاکستان کا پرچم اونچا کرنے والے ایتھلیٹ ارشد ندیم جو پیرس اولیمپکس سے دو ہفتے قبل کسی دوسرے مقابلے کے لیے وہاں موجود تھے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ان کے وہاں رہنے کا انتظام کردیا جاتا تاکہ وہ وہاں کے حالات میں پریکٹس کرلیتے اور واپس آنے اور پھر جانے کی سفری تھکاوٹ سے بھی بچے رہتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ جبکہ ان کے بڑے حریف بھارتی ایتھلیٹ نیرج چوپڑا کو کئی ماہ پہلے ہی بیرون ملک ٹریننگ کے لیے بھیج دیا گیا تھا۔
ان عالمی مقابلوں میں حصہ لینے والے قومی کھلاڑی پاکستان کے نمبر ون ہوتے ہیں۔ یہی ہمارے سب سے بہترین کھلاڑی ہوتے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر اس کھیل کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ اکثر اپنے ذاتی اخراجات پر یہ کھیل کھیلتے ہیں اور بیرون ملک مقابلوں میں بھی کچھ تو ادھار لے کر ٹکٹ وغیرہ کا انتظام کرتے ہیں۔ کرکٹ میں ہارنے پر آپ کھلاڑیوں پر جتنی تنقید کریں جتنا مزاق اڑائیں کم ہے ان کو پیسہ اور اہمیت جو اتنی ملتی ہے اگر ہم کرکٹ کے آدھے سے بھی آدھا پیسہ اور آدھی سے بھی آدھی اہمیت باقی کھیلوں اور کھلاڑیوں کو دینا شروع کردیں تو وہ ہمیں کرکٹ سے کہیں زیادہ عزت کما کر دے سکتے ہیں۔ تنقید ہونی چاہیے ہمارے کھیلوں کے نظام پر احتساب ہونا چاہیے ہمارے کھیلوں کی تنظیموں بالخصوص اولیمپکس ایسوسی ایشن کا لیکن ہمارے بیچارے کھلاڑیوں کا تو یہ حال ہے کہ جیسے بچوں کو بڑوں سے مقابلے کے لیے بھیج دیا جائے۔ بچے اور بڑے کا یہ فرق عمر کا انھیں بلکہ وسائل اور سہولیات کا ہے۔ پھر بھی یہ صرف اپنی محنت کے بل بوتے پر اس بڑے کھیلوں کے میلے میں کم از کم پاکستانی پرچم کی موجودگی کو یقینی بنا رہے ہیں اگر آپ کو ان کھلاڑیوں کی جدوجہد کا علم ہوتا آپ یہ جان لیتے کہ وہ کن حالات میں کھیل کر اولیمپکس مقابلوں تک پہنے ہیں تو آپ اپنے کسی کھلاڑی کی شکست کو اپنی شکست سمجھتے کسی تیراک کے بارے میں یہ کبھی نہ کہتے کہ شکر ہے وہ ڈوبا نہیں بلکہ یہ سوچتے کہ شکر ہے دنیا کے سب سے بڑے مقابلے تک پہنچ کر اس نے ہمیں ڈوبنے سے بچا لیا۔

ای پیپر دی نیشن