بنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہرے  ہمارے حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں


بنگلہ دیش میں طلبہ اپنے مطالبات کی عدم منظوری پر ایک بار پھر سڑکوں پر آگئے ہیں اور وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے ملک میں سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کردیا ہے۔ پولیس اور مظاہرین میں جھڑپوں، تصادم کے دوران اب تک 95 افراد ہلاک اور 200 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں‘ہلاکتیں بڑھنے کا خدشہ ہے۔ کومیلا میں مظاہرین نے تشدد کر کے پولیس اہلکار کو مار ڈالا اور سراج گنج پولیس تھانے پر حملے کے نتیجہ میں 13 پولیس اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ اسی طرح متعدد تھانے اور 2 ارکان اسمبلی کے مکانات جلا دیئے گئے۔ بنگلہ دیش میں پاکستانی ہائی کمشنر سید احمد معروف نے بتایا کہ بنگلہ دیش میں تمام پاکستانی محفوظ ہیں۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے کہا کہ احتجاج کرنے والے طالب علم نہیں دہشتگرد ہیں جو ملک کو غیر مستحکم کرنے نکلے ہیں۔ اپنے ہم وطنوں سے اپیل ہے کہ ان دہشتگردوں کو سختی سے کچل دیں۔ بنگلا دیش کے انٹر سروسز پبلک ریلیشن (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف نے فوج کو ہدایت کی کہ عوام کے جان و مال اور اہم سرکاری تنصیبات کا تحفظ ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے۔ 
بنگلہ دیش میں ہونیوالے فسادات کی بڑی وجہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ کی جانب سے 1971ءکی جنگ لڑنے والوں کے بچوں کیلئے سرکاری نوکریوں کا کوٹہ کم کرکے30 فیصد کیا جانا ہے جس کیخلاف عوام کی جانب سے پرتشددمظاہروں کا آغاز ہوا جس میں اب شدت آچکی ہے۔ ان مظاہروں میں سب سے اہم کردار طلبہ ادا کر رہے ہیں جو انصاف ملنے تک احتجاج جاری رکھنے اور سول نافرمانی کی کال دے چکے ہیں۔پرتشدد مظاہروں کی نوبت اسی وقت آتی ہے جب ریاست کی جانب سے عوام کی جان و مال اور انکے بنیادی آئینی حقوق کی ذمہ داری پوری نہ ہو پائے اورحکمران طبقات عوامی مشکلات کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اپنے اقتدار اور مراعات کے تحفظ کیلئے متحد نظر آتے ہوں۔ بدقسمتی سے اس وقت پاکستان میں بھی بدترین مہنگائی اور بجلی کے ہوشربا بلوں نے عوام کو عملاً زندہ درگور کر دیا ہے۔ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں اور اپنے گھروں کا سامان بیچ کر بلوں کی ادائیگی کر رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے بجلی کے نرخوں میں کمی کے اقدامات کے دعوے تو کئے جا رہے ہیں مگر عملی طور پر عوام کو کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ‘ یہی وجہ ہے کہ عوام مایوس ہو کر نہ صرف اتحادی حکومت کیخلاف سڑکوں پر نکلنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی حکومتی پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ چند ہفتے قبل آزاد کشمیر کے عوام نے مہنگی بجلی اور مہنگائی کیخلاف سخت احتجاج کرکے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا‘ اس مو¿ثر احتجاج نے ملک بھر کے عوام کو بھی راستہ دکھا دیا ہے۔ اس لئے اس سے پہلے کہ مہنگائی سے عاجز آئے عوام تنگ آمد بجنگ آمد کے تحت حکومت کیخلاف سخت احتجاج اور مظاہرے کرکے سول نافرمانی کی نوبت لے آئیں حکومت کو آزاد کشمیر اور بنگلہ دیش میں ہونیوالے پرتشدد عوامی احتجاج سے سبق سیکھ لینا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن