وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ مہنگائی اور بجلی کے مسائل سے بخوبی واقف ہوں۔ آئی پی پیز کے حوالہ سے ترجیحات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ 200 یونٹس والوں کو ریلیف دیا ہے۔ اگلے کچھ عرصہ میں متعدد چینی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گی۔ وزیراعظم کی زیر صدارت ماڈل ٹاو¿ن میں اہم مشاورتی اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزراءنے شرکت کی۔ اجلاس میں ملک کی موجودہ معاشی اور سیاسی صورتحال پر اہم مشاورت کی گئی۔ اسی طرح وزیراعظم نے ٹریک اینڈ ٹریس کے حوالے سے جائزہ اجلاس کی صدارت کے دوران معاشی ٹیم کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ٹرانسفارمیشن کی رفتار کو تیز کرنے کا ہدف دیتے ہوئے کہا ہے کہ مکمل ڈیجٹلائزیشن اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ری سٹرکچرنگ ایف بی آر کے ٹرانسفارمیشن پلان کا حصہ ہیں، پاکستان کے ٹیکس نظام کی بہتری کے لیے ایف بی آر میں اصلاحات بہت ضروری ہیں، ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے حوالے سے خرابیوں و بے ضابطگیوں کے ذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ وزیراعظم نے وزیرِ مملکت برائے خزانہ کو ایف بی آر ٹرانسفارمیشن منصوبے کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی۔ اجلاس کے دوران وزیراعظم کو ٹریک اینڈ ٹریس کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی۔ وزیراعظم نے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے حوالے سے خرابیوں و بےضابطگیوں کے ذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی کی ہدایت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے ٹیکس نظام کی بہتری کے لیے ایف بی آر کی اصلاحات بہت ضروری ہیں۔ پاکستان کے غریب عوام کی ایک ایک پائی بچانے کے لیے دن رات محنت کریں گے۔ ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن حکومت کی اولین ترجیح ہے جس میں کسی قسم کا تعطل قبول نہیں۔ اجلاس میں وزیراعظم نے ایف بی آر کی ٹریک اینڈ ٹریس کے مکمل نفاذ میں غفلت کے ذمہ داران کو کیفرِ کردار کو پہنچانے کے لیے تمام اقدامات پر جلد عمل درآمد کی ہدایت کی۔
دوسری جانب، امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ وزیراعظم بجلی کے بل کم کر دیں اسی میں نجات ہے، یہ نہ ہو آپ کی حکومت ہی چلی جائے۔ دھرنے کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آئی پی پیز کا دھندا پاکستان پیپلز پارٹی کے دور سے شروع ہوا۔ ایم کیو ایم ہر دور میں حکومت کا حصہ رہی، آج ایم کیو ایم والے کہتے ہیں آئی پی پیز نہیں ہونی چاہئیں۔ وزیراعظم سمیت سب آئی پی پیز سے متعلق جھوٹ بول رہے ہیں، آئی پی پیز کو بچانے کے لیے ہمیں ڈرایا جاتا ہے، لوگ بجلی کا بل ادا کرنے کے لیے گھر کا فرنیچر بیچنے پر مجبور ہیں، ایک ہی راستہ ہے عوام کو ریلیف دو۔ جماعت اسلامی کی تحریک کو یہ ٹولہ نہیں روک سکے گا، یہ دھرنا تنخواہ دار، مزدور، کسانوں کی امید بن گیا ہے، صاف اور سیدھی بات ہے بجلی کی قیمت کم کرو اور جاگیرداروں پر ٹیکس لگاﺅ۔ یہ آئی ایم ایف کے نئے پروگرام میں جا رہے ہیں، پشاور اور لاہور کے لیے دھرنے کا اعلان ایک سے دو روز میں کروں گا، یہ تحریک حق کی بالادستی کی تحریک ہے، یہ خاندان ہم پر فیملی انٹرپرائزز کی صورت میں مسلط ہیں۔ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر ان کا دھندا چلتا ہے، سارا بوجھ تنخواہ دارطبقہ اٹھائے، ایسا نہیں چلے گا۔
ادھر، پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرنز کے سیکرٹری جنرل نیئر حسین بخاری نے کہا ہے اگر ملک کو خطرہ ہے تو وزیراعظم صدر کو ایڈوائس کریں اور اسمبلی تحلیل کر کے نئے انتخابات کرا لیں۔ حکومت کو خطرہ ہے تو ہم سے شیئر کیوں نہیں کیا، پارلیمنٹ میں حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے تیار ہیں مگر وہ کچھ ڈیلیور تو کرے۔ صدر آصف علی زرداری بار بار کہہ رہے ہیں کہ بیٹھ کر بات کرتے ہیں، صدر زرداری کردار ادا کر سکتے ہیں مگر کوئی بیٹھنے کو تیار تو ہو، پیپلزپارٹی آئینی بالادستی پریقین رکھتی ہے، حل بھی آئین کے مطابق نکلے گا مگر سسٹم ہی ڈی ریل ہوگیا تو نقصان ملک کا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان قابل اعتبار نہیں، وہ بات کر کے پھر جانے والے ہیں، وہ ایک دن کہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کو تیار ہوں، اگلے روز کچھ اور کہتے ہیں، ایک دن کہتے ہیں محمود اچکزئی کو بات کا اختیار دیا، اگلے روز کہتے ہیں نہیں دیا، گفتگو اس سے ہوتی ہے جس پر آپ کو اعتماد ہو، مگر بانی پی ٹی آئی یوٹرن کو اپنی سیاست کی معراج سمجھتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مہنگائی ایک ایسا مستقل مسئلہ ہے جس کا پاکستان کی ہر حکومت کو سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن دوسری جانب اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مہنگائی یکے بعد دیگرے تشکیل پانے والی حکومتوں ہی کی پیدا کردہ ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور عالمی بینک جیسے اداروں سے بھاری قرضے لے کر انھیں اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے مراعات اور سہولیات دینے کے لیے خرچ کیا جاتا ہے اور پھر ان قرضوں کو اتارنے کے لیے مزید قرضے لیے جاتے ہیں۔ پاکستان تقریباً ساڑھے چھے دہائیوں سے آئی ایم ایف سے قرضے لے رہا ہے اور ہر حکومت کی طرف سے کیے جانے والے دعوو¿ں کے باوجود ہم اس دلدل میں دھنستے ہی چلے جارہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات و سہولیات ختم کرنا تو دور کی بات ہے ان میں کمی کرنے پر بھی آمادہ دکھائی نہیں دیتی۔ ان حالات میں نہ تو بیرونی قرضوں کا بوجھ کم ہوسکتا ہے اور نہ ہی معیشت کے سنبھلنے کی کوئی صورت پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ قرضے جتنے بھی لے لیے جائیں یا معیشت جتنی بھی بہتر بنا لی جائے، اربوں ڈالر کی مراعات و سہولیات کا بوجھ اٹھانا ممکن نہیں ہوسکتا۔
مہنگائی اور معیشت کی بگڑتی ہوئی حالت نے ملک بھر میں بسنے والے عوام کو ریاست سے بیزار کردیا ہے، اور حکومتی اتحاد میں پڑنے والی دراڑیں بھی وقت گزرنے کے ساتھ واضح ہورہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے تحفظات درست ہیں، جب وہ حکومت کا حصہ ہے تو حکومتی معاملات اس کے ساتھ شیئر کرنے چاہئیں۔ اگر آپس میں ہی کو آرڈی نیشن نہیں ہوگی تو حکومت کیسے چلائی جاسکے گی۔ اس معاملے کا ایک اہم فریق عوام بھی ہیں جنھیں کوئی بھی حکومت اس قابل نہیں سمجھتی کہ ان کے مسائل پر بھی ٹھیک سے توجہ دے لی جائے۔ اس وقت پورے ملک میں عوام مہنگائی کی وجہ سے جس بے چینی اور اضطراب کا شکار ہیں اس کا سامنا کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں۔ حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ عوام کو مطمئن کر کے ہی وہ اپنی مشکلات میں کمی لا سکتی ہے، لہٰذا اسے چاہیے کہ سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے ورنہ حافظ نعیم الرحمن کی یہ بات درست ثابت ہوسکتی ہے کہ حکومت کا وجود برقرار نہیں رہے گا۔