بے نظیر انکم سپورٹ کے ثمرات 93لاکھ گھرانوں تک پہنچنے لگے

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی  چیئر پرسن سینٹر روبینہ خالد پاکستان پیپلزپارٹی کی متحرک رہنما ہیں ، ان کو پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سربراہی کے لیے نامزد کیا  اور اپنے تقرر سے اب تک وہ متحرک انداز میں اس پروگرام کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں ۔گزشتہ دنوں  ان سے  بات چیت کی ایک نشست ہوئی جس کا احوال  ذیل کی سطور میں بیان کیا جا رہا ہے، محترمہ سینٹر روبینہ خالد نے مختلف سوالات کے جواب میں بتایا کہ انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز جولائی 2008 میں کیا گیا تھا، ملک کی غریب آبادی کیلئے اس سپورٹ پروگرام کی ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے منظوری دی گئی تھی اور اس کا نفاذ 2010 میں کیا گیا،، اس کے پیٹرن ان چیف صدر پاکستان ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ایک بورڈ ہے جس کے 10 ممبران ہیں، یہ بورڈ اوورسائٹ اور پروگرام کے مختلف مراحل کی نگرانی کرتا ہے ۔رواں مالی سال کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 598 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، اس پروگرام کی ایک خاص بات یہ  ہے کہ اس کے کل بجٹ کا محض ایک فیصد حصہ ملازمین یا عمومی اخراجات پر صرف ہوتا ہے۔ اس پروگرام کے تحت بے نظیر کفالت پروگرام چل رہا ہے، یہ پروگرام کا فلیگ شپ پروگرام ہے، اس کے مستحق افراد کو 10500 روپے، ہر سہ ماہی میں دیے جاتے ہیں، مالی 2024-25 میں ہے اس پروگرام کے تحت 461 ارب روپے تقسیم کیے گئے، یہ رقم ایک کروڑ فیملیز کو دی گئی، اس پروگرام کے تحت دوسرا پروگرام بے نظیر تعلیمی وظائف کا پروگرام ہے، اس کے ساتھ پرائمری سکینڈری اور ہائر سکینڈری تعلیم کے لیے وظائف دیے جاتے ہیں، اس پروگرام کے تحت اب تک 9.7 ملین بچے رجسٹرڈ ہیں، روا مالی سال کے لیے اس پروگرام کے تحت 77.18 ارب روپے مختص کیا گیا ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا تیسرا بڑا پروگرام بے نظیر نشو و نما پروگرام ہے، اس کے تحت حاملہ خواتین کی مدد کی جاتی ہے، خواتین کو 25 سو روپے ہر سہ ماہی  میں دیے جاتے ہیں، اور ہر بچے یا بچی کے لیے تین ہزار روپے سہ ماہی کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت دو ملین خواتین رجسٹرڈ ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی بنیاد نیشنل سوشیو اکنامک رجسٹری ہے، اس کے تحت پورے ملک میں 35 ملین ہاؤس ہولڈ کا ایک ڈیٹا بیس موجود ہے، بے نظیر سکالرشپ برائے انڈر گریجویٹس کا پروگرام پر بھی عمل کیا جا رہا ہے، اس کے تحت ضرورت مند طلباء کو مالی مدد دی جاتی ہے۔ جو 40 ہزار روپے سالانہ ہے، اس پروگرام کے تحت اب تک ایک لاکھ سٹوڈنٹس کو مدد فرا ہم کی گئی، روا مالی سال کے لیے اس مد میں 1.3 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ایسے پروگرام میں شروع کیے جا رہے ہیںجن  میں وسیلہ تعلیم کے تحت ، ایسے بچے جو سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں ، ان کو مدد دی جاتی ہے، رمضان ریلیف پیکج ہے، رمضان ریلیف پیکج جو ہے وزیراعظم کے حکم پر شروع کیا گیا ہے اور اس کے لیے وسائل بھی بی آئی ایس پی نے اپنے طور پر فراہم کیے گئے ہیں، اس کے ساتھ 2 ہزار روپے فی خاندان مدد دی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ یوٹیلٹی سٹورز کے لیے بھی غریب خاندانوں کو مدد دی جاتی ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر کفالت کے وظیفہ میں اضافہ کیا گیا جو 7500 روپے، سے بڑھا کر 10 ہزار پانچ سو روپے کیا گیا ہے۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سربراہ سینٹر روبینہ خالد نے کہا  اس پروگرام  کاہم مقصد یہ ہے کہ لوگ خط غربت سے اوپر  لائیں، اور  گنجائش ملنے پر بی آئی ایس پی کے دائرہ میں مزید لوگوں کو شامل کیا جا سکے۔ اس وقت 93 لاکھ خاندان بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے استفادہ کر رہے ہیں۔ ان کی تعداد کو ایک کروڑ تک لے کر جائیں گے ۔ بی آئی ایس پی  بے  نظیر بھٹو شہید کا برین چائلڈ ہے، صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے اس  کو آگے بڑھایا، بی آئی ایس پی کے تحت وسیلہ روزگار پروگرام کو ازسر نو شروع کیا جا رہا ہے، اداروں میں مسائل ہوتے ہیں مگر گزشتہ دور حکومت میں بی آئی ایس پی کی ساکھ کو متاثر کیا گیا، اس ناسمجھی کی وجہ سے برطانوی حکومت سے ملنے والی گرانٹ بند ہوئی، پی ٹی آئی کے وزیر نے پہلے پی آئی اے کے نام کو بھی خراب کیا تھا۔بی آئی ایس پی کے حوالے سے غلط باتوں کو اچھالا گیا،8 لاکھ افراد کو سسٹم سے نکال دیا گیا، یہ کہا گیا کہ سرکاری ملازمین فائدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ملازم جن کی تنخواہ 50 ہزار روپے سے کم ہے وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مدد لے  سکتے ہیں۔ غلط باتوں کی وجہ سے برطانیہ سے ملنے والی دو ملین پاؤنڈ کی گرانٹ بند ہو گئی، پاکستان کی بدنامی الگ ہوئی، سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے  غلط باتیں کرنا اچھی بات نہیں ہے۔
  سینٹر روبینہ خالد نے بتایا کہ بی آئی ایس پی کا مقصد خواتین کو با اختیار بنانا ہے، جب یہ پروگرام شروع کیا جا رہا تھا تو معاشرے کے اندر مزاحمت تھی، کہ خواتین کو  نقد رقم کے لئے کیسے رجسٹر کروایا جا سکتا ہے،جبکہ مسائل پیچیدہ  ہیں۔  اب بھی بعض علاقوں میں اگر کسی مرد سے اس کی اولاد کے بارے میں پوچھا جائے تو بیٹوں کی تعداد بتائے گا لیکن بیٹیوں کا ذکر نہیں کرے گا، مگرمحترمہ بے نظیر بھٹو شہید اورپارٹی کی قیادت کا موقف درست ثابت ہوا،آج یہ سکیم عملی طورپر کام کر رہی ہے۔آئندہ غربت کے خاتمے کیلئے جوپروگرام تیار کیا جا رہا ہے اس میں فنی تربیت دی جائے گی، جن مہارتوں کی ڈیمانڈ زیادہ ہے ان پر زیادہ فوکس کیا جائے گا، تاکہ لوگ غربت کی اس دلدل سے نکل کر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔ یہ بین الاقوامی معیار کا پروگرام ہے تاہم بہتری کی گنجائش موجود ہے۔بی آئی ایس پی کا سسٹم صوبوں کے ڈیٹا بیس کے ساتھ منسلک ہو رہا ہے سندھ میں یہ کام ہو چکا ہے، اس طرح ایکسائز اور دوسرے اداروں کے ساتھ بھی یہ منسلک ہے جس سے رجسٹریشن کے لیے آنے والے ہر فرد کے بارے میں پوری معلومات دستیاب ہوتی ہیں ۔ بلوچستان پر خاص توجہ دی جا رہی ہے ۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے ساتھ مل کر کم خوراکی کے مسئلے کے تدارک کے لیے بھی کام کر رہے ہیں، یہ پورے ملک میں ہے تاہم بلوچستان میں اس کو یونیورسل رکھا گیا ہے، روبینہ خالد نے کہا کہ سکل ٹریننگ کے حوالے سے بل گیٹس فاؤنڈیشن ،ایشائی ڈویلپمنٹ بینک اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ انہوں نے بتایابی  آئی ایس پی ایک نئے ماڈل کی طرف بھی جا رہا ہے جو غریبوں کے لیے سیونگ اکاؤنٹ کی حوصلہ افزائی کرنا ہے، اگر کوئی  سیونگ اکاؤنٹ کھولے اور اس میں رقم رکھے، بی آئی ایس پی اس بچت کی رقم پر کچھ پیسے  ایس پی ادا کرے گا۔کیش مدد کی تقسیم کو مزید شفاف بنانے کے لیے اب ایک بینک کی بجائے چھ بینکوں کو ان بورڈ لیا گیا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن