مقبوضہ کشمیر  کے بہادر عوام کے ساتھ کھڑے ہیں : 9مئی کے موقف پر قائم ، ڈیجیٹل دہشت گرد بے ضمیر : ڈی جی آئی ایس پی آر

اسلام آباد(خبرنگارخصوصی) ترجمان پاک فوج نے کہا ہے کہ نو مئی کے متعلق فوج کے موقف کوئی تبدیلی آئی ہے نہ آئے گی، پاک فوج عوامی فلاح کے منصوبوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے گی، بلوچ یکجہتی کمیٹی دہشتگردوں اور جرائم پیشہ عناصر کی پراکسی ہے جس کے تحت غیرملکی فنڈنگ سے پاکستان کے عدم استحکام کی تحریک چلائی جا رہی ہے، سرحد پار سے سمگلنگ کی روک تھام کے لئے صوبائی حکومتوں کو اقدامات اٹھانے چاہیئں۔  پیر کو ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے راولپنڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یوم استحصال کے موقع پر میں پیغام دینا چاہتا ہوں کہ افواج پاکستان حق خود ارادیت کی منصفانہ جد وجہد میں مقبوضہ کشمیر کے بہادر عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈان، بھارتی اقدامات اور انسانی حقوق کی سنگین پامالی سب بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے اور خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ خطے میں پائیدار امن و استحکام کے لیے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنا ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دن افواج پاکستان مقبوضہ کشمیر کے ان شہدا کو ان کی عظیم قربانیوں پر خراج تحسین پیش کرتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ظلم اور غیر قانونی تسلط کے خلاف کشمیریوں کی منصفانہ جد وجہد میں پاکستان کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ سال 2024 کے پہلے 7 ماہ میں کانٹر ٹیررزم  آپریشن کے دوران139 بہادر افسران اور جوانوں نے جام شہات نوش کیا، افواج پاکستان سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے مکمل طور پر فوکسڈ ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری کامیاب جنگ آخری دہشت گرد اور اس سے جڑی دہشتگردی کے خاتمے تک جاری رہے گی۔ پاکستان آرمی عوام کے لیے سماجی، اکنامک پروجیکٹس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ خصوصی توجہ خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع اور بلوچستان کے متاثرہ علاقوں پر ہے، آزاد جموں کشمیر، گلگت بلتستان سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں بھی جاری ہیں یا  مکمل ہو چکے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری کامیاب جنگ آخری دہشت گرد اور اس سے جڑی دہشتگردی کے خاتمے تک جاری رہے گی۔افواج پاکستان کی جانب سے خیبرپختونخوا اور نئے ضم اضلاع میں4 سکول12 کیڈٹ کالجز،10  ٹیکینکل اور ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ تقریبا 80 ہزار بچے تعلیم کی روشنی سے مستفید ہو رہے ہیں، چیف آف آرمی سٹاف کی یوتھ ایمپلائمنٹ سکیم کے تحت ان اضلاع میں1500مقامی بچوں بشمول ملٹری کالجز میں مفت تعلیم دی جاری ہے، دوسرا منصوبہ علم ٹولو دا پارا یعنی تعلیم سب کے لیے، اس منصوبے کے تحت خیبرپختونخوا 7 لاکھ46 ہزار768 طالب علموں کو انرول کیا گیا ہے، 94 ہزار سے زائد کا تعلق نئے ضم شدہ سے ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ اسی طرح بلوچستان کے حوالے سے بات کی جائے تو 60 ہزار طالب علموں کو160سکول اور کالجز،12 کیڈٹ کالجز، یونیورسٹیز اور3 ٹیکینکل انسٹی ٹیوشن کا قیام وفاقی اور صوبائی کے تعاون سے عمل میں لایا گیا ہے، طلبہ کے لیے ایک جامع سکالرشپ شروع کیا گیا ہے، اس پروگرام کے تحت8 ہزار سے زائد بلوچستان کے طلبہ مستفید ہو چکے ہیں۔ بلوچستان میں ایف سی اور پاک فوج کی جانب سے مختلف علاقوں میں بچوں کے لیے92 سکول چلائے جا رہے ہیں، جن میں19ہزار طالب علم زیر تعلیم ہیں، افواج پاکستان کے تعاون سے بلوچستان کے 253 طالب علموں کو متحدہ عرب امارات کی یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم بھی دی گئی ہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی افواج پاکستان کی جانب سے171 سکول اور2 کیڈٹ کالجز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جس میں علاقے کے50 ہزار سے زائد طالب علم مستفید ہو رہے ہیں، اسی طرح سندھ کے دور افتادہ علاقوں میں بھی ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز اور 100 سے زائد سرکاری سکولوں کی اپ گریڈیشن کی گئی ہے۔ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے کہا کہ صحت کے شعبے میں پاک فوج نے پاکستان کے مختلف اضلاع میں میڈیکل کیمپس میں ایک لاکھ 15 ہزار مریضوں کا مفت علاج کیا گیا، میڈیکل کیمپس کا فوکس خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہے، جہاں سیکڑوں اور ہزاروں مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ صوبہ بلوچستان میں 2024 میں 87میڈیکل کیمپس لگائے گئے،66ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکار پولیو ٹیموں کے ساتھ پورے پاکستان میں تعینات کیے گئے۔ خیبرپختونخوا میں انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے 3293 منصوبے مکمل کیے گئے، شیوا گیس فیلڈ اسپن وام ، ایک 150 کلومیٹر لمبی پائپ لائن بھی جو شیوا گیس فیلڈ کو مین گیس اسٹیشن سے ملائے گی۔ محمد خیل کاپر مائن پروجیکٹ، زرملان میں ایک ہزار ایک ایکٹر زمین کو قابل کاشت کیا جا چکا ہے۔ بلوچستان میں انفراسٹرکچر کی بحالی کے 912 منصوبوں کی تکمیل کو یقینی بنایا جاچکا ہے۔ سڑکوں اور پلوں کے حوالے سے اہم منصوبے مکمل کیے جا چکے ہیں، آرمی چیف کی طرف سے گوادر کے عوام کے لیے تعلیم، صحت، پانی اور روزگار کی فراہمی کے لیے 104 مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے ۔چمن ماسٹر پلان کے تحت 94 ایکڑ زمین پر مختلف تعمیراتی منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔افواج پاکستان گرین انیشیٹو کے حوالے سے فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے حکومت پاکستان کی طرف سے دیے گئے مینڈیٹ کے مطابق اپنا بھر پور کردار ادا کر رہی ہے۔ اس منصوبے کے تحت 8 لاکھ بنجر زمین کو زیر کاشت لایا جا رہا ہے،  پانی کی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے سسٹم درآمد کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لائیو اسٹاک کی ترقی کے لیے ملک کے 24 اضلاع میں پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چیف آف آرمی اسٹاف کی ہدایت پر ملک کی نوجوان نسل کی فلاح و بہبود یقینی بنانے اور انہیں روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی حب کا قیام اہم منصوبہ ہے، اس سلسلے میں ڈی ایچ اے کوئٹہ، پشاور ملتان اور اسلام آباد میں 3 ہزار سے زائد نوجوانوں کو ان آئی حب میں رجسٹرڈ کیا جا چکا ہے۔  افواج پاکستان اور سول آرمز فورسز کے ہزاروں اہلکار پورے ملک میں اہم منصوبوں کی سکیوورٹی پر تعینات ہیں، اس کے علاوہ سی پیک کے منصوبوں پر بھی اہلکار تعینات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ افواج پاکستان ٹیکس کی مد میں بھی 23 ارب روپے جمع کرا رہی ہے، اس طرح سے پاک فوج اور اس کے زیر انتظام اداروں نے 2022، 23 میں مجموعی طور پر 360 ارب روپے قومی خزانے میں ٹیکس اور ڈیوٹیز کی مد میں جمع کرائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی ہے، افسران اور جونوانوں نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں، شہدا ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں، شہدا کے خاندانوں، آپریشنز میں زخمی ہونے والے غازیوں کے لیے جامع پیکجز مختص ہیں، اس وقت افواج پاکستان 2 لاکھ 40 ہزار افراد کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔ایس آئی ایف سی کے ذریعے فوج کے بڑھتے کردار پر تنقید سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج قومی فوج ہے، اسکے جوان و افسرملک کے ہر حصے، مذہب و مسلک سے آتے ہیں۔ متوسط اور غریب خاندانوں سے آتے ہیں، پاک فوج کے افسر اور جوان ملک کے اشرافیہ نہیں ہیں، یہ جانیں دینے کا تسلسل 1947 سے چلتا آرہا ہے اور چلتا رہیگا، یہ آپ کی فوج کسی خاص سیاسی سوچ،زاویے، ایک گروپ، ایک پارٹی، مذہب اور ایک مسلک کو لے کر نہیں چل رہی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ  ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے سیاسی مقاصد کے لئے ، اپنے مضمون نیرو انٹرسٹ کے لئے اس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے یہاں پر مافیا ہے وہ نہیں چاہتا پاکستان کی عوام ترقی کرے اور اس کی فلاح و بہبود ہو۔جس اشرافیہ کی ذمہ داری ہے وہ ان پر سوال نہیں کریں گے۔ اس کو تکلیف اس بات پر ہے کہ فوج کیوں عوام کی ترقی و فلاح و بہبود کے لئے آگے بڑھ کر کام کررہی ہے۔یہ مافیا سمجھتا ہے کہ اس کی کامیابی عوام کو مجبور اور غریب رکھنے میں ہے تاکہ اس کا استحصال کرسکے۔  لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے یہ مافیا سمجھتا ہے کہ اس کی کامیابی عوام کو مجبور اور غریب رکھنے میں ہے تاکہ اس کا استحصال کرسکے ۔جس نے یہ آگ لگائی ہے یا جس کو اس آگ لگانے کا فائدہ ہے، ضروری یہ بات ہے کہ سوال کرنے والے کو اور اس آگ کو لگانے والے کو پہنچانیں۔بد قسمتی سے وہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی تباہی میں اس کی کامیابی ہے اور ہمیں یہ چاہیے ہمیں اسے پہنچانیں ، اس مافیا کو پہچانیے اور اس کو یک زبان ہو کر ایک جواب دیں کہ تم جو کچھ کرلو ، جو ہم کر رہے ہیں، کوئی چیز بھی ہمیں وہ کرنے سے روک نہ روک سکتی، نہ روکے گی۔ ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا دیکھیں ایرانی تیل کیوں آتا ہے، جو بلوچستان کے علاقے ہیں جو متصل ہیں اس کے ساتھ ایران کے ساتھ، سہولیات کے اعتبار سے وہ اس طرح نہیں ہیں وہاں پر بنیادی سہولیات کی کمی ہے، چاہے وہ تیل ہو یا صاف پانی ہو یا تعلیم ہو ، صحت ہو، ان کے پاس معاشی سسٹم میں ان کی آزادی وہ سرحدی تجارت ہے۔ بارڈر سیل کردیں،  بلکل بند کردیں تو پھر تو یہ مافیا مزید خوش ہوگا کہ اچھا جی یہ مقامی لوگ اور فوج ہم نے آمنے سامنے کھڑی کردی ہے۔ وہاں سے جو چیزیں آتی ہیں جو تیل آتا ہے، اس کے پرمٹ فوج یا آرمی یا ایف سی تو نہیں جاری کرتی۔  پاکستان کا جو مغربی بارڈر ہے تقریبا 3500 کلومیٹر سے اوپر ہے اس میں جو افغانستان کا حصہ ہے وہ 2600 کچھ کلومیٹر ہے اور جو ایران کے ساتھ ہمارا ہے وہ میرے خیال سے 950 کلومیٹر کے قریب ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جب باڑ لگائی توغیر قانونی آمدورفت میں کمی آئی،  دنیا میں کوئی بھی سرحد واٹر ٹائپ کنٹرول نہیں ہوتی، یہ کہنا ہاں جی باڑ لگ گئی، کوئی چیز باہر جارہی تو سرپرستی فوج کررہی ہے، امریکا میں کیوں ان کی عوام نہیں کہتی کیونکہ وہاں کوئی جھوٹا پراپیگنڈا  کوئی فیک نیوز پراپینگینڈا کیا جارہا ہے نہ وہ اس کی اجازت دیتے ہیں۔  یہ جو بیانیہ بناتے ہیں کہ یہ جو باڑ ہے اور سیکیوڑٹی لگ گئی ہے اور اب تو کوئی چیز اگر آرہی ہے وہ تو فوج کی سرپرستی میں آرہی ہے اور وہ جان کر یہ کررہے ہیں تو اس بیانیے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں یا تو یہ بیانیہ بنانے والے زمینی حقائق سے بلکل بے خبر ہیں، یا پھر انہیں مکمل پتا ہے اور وہ صرف ایجنڈے پر ہیں کہ ہمیں اس بیانیے کو بنانا ہے اور لوگوں کو بے وقوف بنانا ہے فوج کے اور عوام کے درمیان بد اعتمادی پیدا کرنی ہے ہم نے لوگوں کے ذہن میں زہر گھولنا ہے۔  میرا یہ خیال ہے کہ زیادہ یہ بیانیہ بنانے والے لوگ بے خبر نہیں ہیں، بلکل باخبر ہیں اور جان کر بناتے ہیں، وہ چاہتے ہیں یہ جو مسئلہ ہے اس کو اتنا متنازع کردو، اتنا کنفیوز کردو تاکہ جو اصل مسائل ہیں ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ڈیجیٹل دہشت گردی کے خلاف جو پہلا دفاع ہے جس سے اس کو قابو کرنا ہے، وہ قانون ہے، اگر قوانین موجود ہوں تو فیک نیوز کے خلاف کارروائی کے نتیجے میں اس مسئلہ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن