6 دسمبر 1992ءبھارت کی ہزاروں سال پرانی تاریخ کا وہ شرمناک اور المناک ترین دن تھا جب ایودھیامیں 478 سال پرانی تاریخی بابری مسجد کو لاکھوں مذہبی جنونی ہندوﺅں نے شہید کر کے بھارت کی نام نہاد سیکولر جمہوریت کا نقاب اسکے چہرے سے نوچ ڈالا۔ تین لاکھ سے زائد ہتھوڑوں‘ ڈنڈوں اور تلواروں سے مسلح جنونی ہندو 16 ویں صدی کی تاریخی عبادت گاہ بابری مسجد پر پل پڑے اور صرف چار گھنٹے میں مسجد کو زمین دوز راستے سمیت مکمل شہید کر دیا۔ مسجد شہید کرنے سے قبل بڑی تعداد میں سنتوں اور سادھوﺅں نے مسجد کے سامنے بیٹھ کر بھجن گائے اور عبادت کی اور مسجد کے گنبد پر گیرو رنگ کا جھنڈا لہرایا۔ مذہبی جنونیوں نے پہلے ایک گنبد‘ پھر دوسرا اور تیسرا گنبد اور بعد ازاں ڈھانچہ شہید کر کے تمام ملبہ صاف کر دیا۔ اس عظیم سانحہ کے وقت سیکولر بھارت کے تین بڑے لیڈر ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی‘ ایل کے ایڈوانی اور اٹل بہاری واجپائی ایودھیا میں مذہبی جنونیوں کی حوصلہ افزائی کیلئے موجود تھے جو ”رام چندر جی کی جے“ کے نعرے لگا رہے تھے۔ ان میں بعض پولیس اہلکار بھی شامل تھے جبکہ بھارتی سپریم کورٹ نے صرف چار روز قبل مرکزی کانگریس اور اتر پردیش کی صوبائی حکومت وشوا ہندو پریشد آر ایس ایس اور دیگر ہندو جماعتوں کو حکم دیا تھا کہ مندر کی تعمیر دوبارہ شروع نہ کی جائے ا ور کار سیوا پروگرام کے دوران مسجد کو کوئی گزند نہیں پہنچنا چاہیے۔ بھارتی حکومت نے نیم فوجی دستوں کو مداخلت کیلئے کہا تو انہوں نے یہ جواز پیش کر دیا کہ خوشی کے شادیانے بجانے والے جنونی ہندوﺅں نے تمام راستے بند کر رکھے تھے۔ کارسیوا کے اہلکاروں نے صحافیوں کو خبروں کیلئے فون کرنے کی اجازت نہیں دی۔
بابری مسجد کی شہادت کے المناک سانحہ کے بعد تمام عالم اسلام میں غم و غصہ کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ صرف بھارت میں ہزاروں مسلمانوں کو تہہ تیغ اور انکی جائیدادیں نذر آتش اور لوٹ لی گئیں۔ درجنوں مسلمان زندہ جلائے گئے۔ ٹرینیں لوٹ لی گئیں۔ سعودی عرب‘ ایران‘ افغانستان‘ بنگلہ دیش‘ عراق‘ اردن‘ اومان اور متحدہ عرب امارات میں شدید ردعمل سامنے آیا۔ پاکستان سے ہجرت کر کے ہندوستان جانے والے معروف سینئر صحافی اور تجزیہ نگا رکلدیپ نیئر نے کہا تھا بابری مسجد کا شہید کرنا اتنا ہی حیرت انگیز ہے جتنا گاندھی کا قتل تھا۔ رام جنم بھومی اور بابری مسجد تنازعہ مکار فرنگیوں کی ذہنی اختراع کا شاخسانہ ہے اور انہوں نے ہندوﺅں کی مذہبی جذباتیت کی کمزوری کا پوری طرح فائدہ اٹھاتے ہوئے اسکا خاکہ کمال ہنر مندی سے تیار کیا اور اس کیلئے ایک جوتشی کی خدمات لی گئیں جس نے زائچہ کی مدد سے رام کی جنم استھان (جائے پیدائش) اور سیتا کی رسوئی (سیتا دیوی کا باورچی خانہ) کا بابری مسجد کے احاطہ میں تعین کر کے نشاندہی کی۔ رنگیلے نواب واجد علی شاہ کا زمانہ تھا اور نواب کا وزیر نقی علی خان انگریزوں سے ملا ہوا تھا۔ وزیر کے دباﺅ اور اصرارپر نواب واجد علی شاہ نے بابری مسجد میں دونوں استھان (جگہیں) ہندوﺅں کو دلوا دئیے۔ ہندوﺅں کی اپنی تحقیق کے مطابق رام کا وجود ہی نہیں اور یہ محض ایک افسانوی مذہبی تخلیقی کردار ہے۔ بعد ازاں ہندو محققین نے رام کی مذکورہ جائے پیدائش کیلئے چھ سے زائد مقامات کا تعین کیا کہ ان میں سے کوئی ایک جگہ ہو سکتی ہے اور اگر مذہبی جنونیوں کی یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ رام ایودھیا میں پیدا ہوئے تو خود ہندو مورخین کے مطابق ایودھیا کی آبادی کا وجود رام جی کے زمانے سے تقریباً اٹھارہ سو سال بعد ہوا تو رام جی کی پیدائش وہاں کیسے عمل میں آگئی۔ 1855ءمیں ایودھیا میں بابری مسجد کے تنازعہ پر مسلم فسادات ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد جنونی ہندو موقع کی تاک میں تھے اور 1949ءمیں انہوں نے رات کی تاریکی میں مسجد میں بت نصب کر دیا ۔ تاریخی بابری مسجد میں ایک کی بجائے تین تعمیری کتبے نصب تھے جبکہ داخلی دروازہ پر جلی حروف میں لفظ ”اللہ“ کنندہ تھا۔ تین میں سے دو کتبے تاریخی اعتبار سے خصوصی اہمیت کے حامل تھے۔ ان کتبوں پر بانی کا نام اور مسجد کاسن وضاحت کے ساتھ درج تھا۔ مسجد کے صحن کی وسطی محراب کے اوپر نصب پتھر کا کتبہ دومیٹر لمبا اور 55سینٹی میٹر چوڑا تھا جس پر بسم اللہ الرحمن الرحیم اور تین سطروں میں 8اشعار درج تھے۔ دوسرے کتبے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنائ، پیارے نبی کا نام مبارک، درود شریف درج تھا جبکہ یہاں حضور کو تمام انبیاءکرام کا سردار اور خلاصہ کائنات کہا گیا۔ اس کے بعد تحریر ہے کہ یہ مسجد میرباقی اصفہانی نے 935ھ میں تعمیر کرائی۔ 27مارچ 1934ءکو ایودھیا میں فرقہ وارانہ فسادات میں ہندوﺅں نے مسجد کو نقصان پہنچایا اور تاریخی کتبوں کو اکھاڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ بعدازاں تہوز خان نامی ایک مسلمان نے یہ کتبے ایک مقام سے اٹھا کر دوبارہ نصب کرا دیئے۔ ان تاریخی کتبوں کی فلم ناگپور کے میوزیم میں موجود ہے۔ مذکورہ بالا کتبوں پر درج تاریخ کے مطابق اس وقت بابری مسجد کی تعمیر کو 496 (تقریباً 500) سال مکمل ہو چکے ہیں۔ بابری مسجد کا سنگ بنیاد 1528ءمیں بابر کے جرنیل میرباقی اصفہانی نے رام کوٹ ایودھیا ضلع فیض آباد یوپی میں رکھا تھا۔ اس کا نام شہنشاہ بابر جس نے اسے اودھ کا حاکم مقرر کیا تھا، سے منسوب کیا۔ واضح رہے کہ یہ تقرری پانی پت کی پہلی لڑائی میں ابراہیم لودھی کی شکست کی خوشی میں عمل میں آئی تھی۔ مسجد کی تعمیر کو پانی پت کی دوسری جنگ میں رانا سانگا کی شکست سے منسوب کرانا حقائق کے منافی ہے۔ اعظم گڑھ کے مشہور علمی جریدے ”معارف“ کے مدیر اور مشہور محقق مولانا صباح الدین بھی اپنی کتاب میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”اوّل تو بابر نے ہندوﺅں پر فتح پانے کی خوشی میں یہ مسجد تعمیر نہیں کی۔ یہ یادگار مسجد لودھی سلطان کو شکست دینے کی خوشی میں تعمیر کرائی۔ پھر اس کیلئے مندر گرا کر مسجد تعمیر کرنے کی کیا تُک تھی؟“ بھارت کے متعصب، تنگ نظر اور مذہبی جنونیوں کو بابر کا اپنے لخت جگر ہمایوں کو تحریر کردہ وہ ”وصیت نامہ“ بھی ضرور پڑھنا چاہیے جس میں وہ ہمایوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتا ہے: ”اے فرزند! ہندوستان کی سلطنت مختلف مذاہب سے بھری ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے تمہیں بادشاہت عطا کی۔ تم پر لازم ہے کہ اپنے لوح دل سے تمام مذہبی تعصبات کو مٹا دو اور ہر مذہب کے ساتھ انصاف کرو، تم گائے کا گوشت کھانا چھوڑ دو، اس سے تم ہندوستان کے لوگوں کے دلوں کو مسخر کرلو گے، پھر اس ملک کی رعایا شاہی احسانات سے دبی رہے گی، یہاں کے لوگوں کے مندروں اور عبادتگاہوں کو کبھی منہدم نہ کرنا، عدل و انصاف اس طرح کرو کہ بادشاہ رعایا سے اور رعایا بادشاہ سے خوش رہے“.... بابری مسجد کسی بھی مندر کو مسمار کر کے تعمیر نہیں ہوئی بلکہ میر باقی اصفہانی نے اس کے لئے جگہ کا انتخاب ایک غیر آباد ٹیلے پر کیا تھا۔ سابق کانگریسی لیڈر اور ہندوو¿ں کی بحالی مہم کے سربراہ داو¿د دیال کھنہ نے ”عالمگیر نامہ“ سے جعلی اقتباس کا پمفلٹ شائع کر کے بابری مسجد کو شہید کرنے کی مہم کو تیز کر دیا۔ پمفلٹ کے مطابق ”چار سال کی خاموشی کے بعد شاہی افواج نے ایودھیا میں رام جنم بھومی پر اچانک حملہ کر دیا اور 7 محرم 1684ءکو دس ہزار ہندوو¿ں کو قتل کر کے مندر منہدم کر دیا۔ عالمگیر نامہ کی تمام تاریخیں سن ہجری میں ہیں۔ اقتباس کے سن کے مطابق عالمگیر دکن کی مہم میں مصروف تھا اور بابر 1530 ءمیں فون ہوا یہ اپنی وفات کے 154 سال بعد بابر قبر سے نکل کر ایودھیا میں مندر گرا کر مسجد تعمیر کرانے کیسے آ گیا؟ یہ وہ مسجد ہے جس میں 1528ءکے 22 دسمبر 1949ءتک پانچ وقت کی نماز باقاعدگی سے ہو رہی تھی۔ بابری مسجد کی شہادت بدترین مذہبی تعصب کا نفرت انگیز اقدام تھا اس سانحہ عظیم نے مسلم امہ کو خون کے آنسو رولا دیا۔ سپریم کورٹ نے بھارتی حکومت کو مسجد کے تباہ شدہ حصے دوبارہ تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔اس سانحے کو بیس برس بیت چکے ہیں اس سلسلہ میں انچاس افراد کیخلاف مقدمات درج ہوئے تھے ،بائیس ملزمان پر لکھنواور آٹھ پر رائے بریلی کی عدالتوں میں مقدمات زیر سماعت ہیں جبکہ نو ملزمان کیخلاف کسی بھی عدالت میں مقدمہ نہیںچل رہا۔ان بیس برسوں کے دوران دس ملزمان اور بیس گواہ ہلاک ہو چکے ہیں۔اس مقدمے کے ملزم گواہ اور پیروی کرنے والے بھی اتنے معمر اور کمزور ہو چکے ہیںکہ انہیں لکھنو کی عدالت کی تیسری منزل پر چڑھنے میں بھی دشواری پیش آتی ہے ۔بابری مسجد کے بیسویں یوم شہادت پر بھارتی پارلیمنٹ کے رکن اور مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسدالدین اویسی نے کہا کہ ہم بابری مسجد کی ایک انچ زمین سے بھی دستبردار نہیں ہونگے اور بابری مسجد کیس میں مسلمانوں سے ہر قدم پر دھوکا کیا گیا ہے۔