الیکشن 2013ءپاکستان کی تاریخ کا منفرد الیکشن ہے جو امریکہ اور زرداری یو این ڈی پی (اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام) کے ذریعے کرا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان الیکشن کمشن کے جملہ اخراجات و انتظامات یو این ڈی پی کی مدّ سے پورے ہوتے ہیں۔ یو این ڈی پی فلسطین، لبنان، عراق اور افغانستان میں الیکشن کرانے کی شہرت اور مہارت رکھتا ہے جبکہ پاکستان میں 2008ءکا الیکشن بھی یو این ڈی پی نے کرایا تھا۔ امریکہ نے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے وقت اعلان کیا تھا کہ پاکستان کے اندر سی آئی اے کا آپریشنل نیٹ ورک مکمل ہو چکا ہے اب امریکہ کو پاکستان کے اندر اہداف کے حصول کیلئے فوج اور آئی ایس آئی کے تعاون کی ضرورت نہیں رہی، نیز امریکہ اپنے اہداف اور حکمت عملی کی پیشگی اطلاع فراہم کرنے ضرورت بھی محسوس نہیں کرتا۔ کراچی نیول مہران بیس اور ایبٹ آباد آپریشن امریکہ کی آزادانہ سرگرمیوں کا نمونہ ہیں۔ جی ایچ کیو، کامرہ اور سلالہ چیک پوسٹ پر حملے فوج اور آئی ایس آئی کے مزاحمتی دم خم دیکھنے کیلئے کئے تھے۔ کراچی اور بلوچستان کی صورتحال فامریکی نیٹ ورک کی کارستانی ہے۔ ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کیلئے سوالیہ نشان ہیں۔ امریکہ پاکستانی اقتدار اعلیٰ کا موثر حصہ دار بن چکا ہے۔ یہ حصہ داری شرکت داری سے شروع ہوئی اور اب بلاشرکت غیرے بنتی جا رہی ہے۔ امریکہ پاک فوج اور آئی ایس آئی کی مدد سے خطے کی طاقت بنا مگر آج فوج اور آئی ایس آئی امریکہ کی آنکھ کا کانٹا بن گئی ہیں۔ ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ اب امریکہ، پاک فوج اور آئی ایس آئی اکٹھے نہیں چل سکتے۔ عرب شاعر کہتا ہے کہ میں اسے ہر روز تیراندازی سکھاتا تھا اور جب وہ ماہر ہو گیا تو اس نے مجھ پر ہی تیر چلا دیا۔ گو ریمنڈ کی رہائی اور منصور اعجاز غداری کیس امریکہ، فوج اور آئی ایس آئی کی مشترکہ سرگرمی تھی مگر امریکہ نے دونوں معاملات میں فوج اور آئی ایس آئی کو نیچا دکھانے کیلئے ترغیب، دباﺅ، دھمکی اور دغا سے کام لیا۔ منصور اعجاز مقدمہ زرداری کو پرویز مشرف کی طرح محفوظ راہداری فراہم کر کے دیس بدر کرنا تھا۔ زرداری بیگ بستہ سمیت دبئی بھیج دیئے گئے جہاں وہ چند دن امریکی ہسپتال کی مہمانی کا مزہ لے کر نئے ایجنڈے کے ساتھ واپس آگئے۔ امریکہ کا نیا ایجنڈہ ہے ”آﺅ الیکشن، الیکشن کھیلیں“۔ پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل امریکہ، فوج اور آئی ایس آئی کی متفقہ پالیسی کا حصہ ہے۔ فوج اور آئی ایس آئی کا موقف تھا اور تاحال کسی حد تک ہے کہ جمہوریت اور زرداری اکٹھے نہیں چل سکتے، لہٰذا کم از کم دو سال کیلئے قومی/ ٹیکنوکریٹ حکومت کا قیام زیر بحث رہا۔ مذکورہ قومی حکومت امریکہ، فوج اور آئی ایس آئی کی مشترکہ سرگرمی تھی مگر امریکہ نے وفا نہ کی۔ فی الحال فضا میں یہ افواہ بھی چل رہی ہے کہ جنوری تک زرداری صاحب صدارت یا پی پی پی کی سربراہی میں سے ایک عہدہ چھوڑ دیں گے جس سے الیکشن کا منظر یکسر بدلنے کا امکان ہے۔ گو نواز شریف کے بیان کے بعد مذکورہ افواہی غبارے کی ہوا نکال دی گئی ہے کہ زرداری منتخب صدر ہیں، انہیں زرداری کی صدارت میں وزیراعظم بننے میں کوئی اعتراض نہیں۔ نیز وہ شہباز شریف کو منتخب صدر کے خلاف سخت بیانی سے روکیں گے۔ علاوہ ازیں چیف الیکشن کمشن سابق جیالے جج فخر الدین ابراہیم جی کی متفقہ تعیناتی بھی شریف برادران اور زرداری صاحبان کے درمیان غیر تحریری عملی مفاہمت کا نمونہ ہے لہٰذا الیکشن 2013ءنواز زرداری بھائی چارہ ہے جو امریکی سی آئی اے کی نگرانی میں منعقد ہو رہا ہے جس میں فی الحال روایتی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کا متبادل عدالتی اسٹیبلشمنٹ کو بنایا جا رہا ہے جس کی اہمیت و افادیت عملی کم اور کاغذی زیادہ ہے جو معاملات کو مہلک التواءمیں ڈال سکتے ہیں، حل یا سلجھا نہیں سکتے۔ الیکشن 2013ءزرداری اقتدار کو طول اور استحکام کیلئے ہو رہے ہیں جو بالآخر نواز شریف اور چودھری برادران کو مطمئن نہیں کر سکیں گے۔ امریکہ کی آئندہ پالیسی میں زرداری ناگزیر عنصر بنتے نظر آرہے ہیں۔ امریکی ہدایت نامے کے مطابق زرداری پالیسی کے اہداف دوٹوک ہیں۔ الیکشن نتائج کے بعد بھی وفاقی اقتدار کا مرکز زرداری رہیں گے۔ شریف برادران کو وزارت عظمیٰ کا جھانسہ دے کر پنجاب سرکار سے محروم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ وزارت عظمیٰ زرداری کی میوزیکل چیئر ہوگی جو زرداری کی مفاہمتی اور غیر مفاہمتی پالیسی کے اصول پر قائم ہوگی۔ نئی منتخب پارلیمان سے زرداری نے اپنی اگلی صدارتی مدت کی توثیق کرانا ہے۔ صدر بحیثیت عہدہ افواج پاکستان، آئی ایس آئی اور عدالتی نظام کا اہم حصہ اور سربراہ ہے۔ امریکہ فوج اور آئی ایس آئی کو دباﺅ میں رکھ کر مزید غیر موثر بنانے کی کوشش کرے گا۔ الیکشن 2013ءکا ٹریجک فلاءہے کہ نواز شریف بھی قومی اسٹیبلشمنٹ کو لگام ڈالنے کے شوق میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کا کسی حد تک حصہ بنتے نظر آرہے ہیں۔ در ایں تناظر سے آئندہ الیکشن جمہوری اور ریاستی استحکام عدم استحکام کی تصویر پیش کر رہا ہے جس کا حتمی اور مثبت ردعمل کچھ بھی ہو سکتا ہے۔