مشیر خارجہ کی سیاچن سے بھارتی افواج واپس بلوانے کی تجویز اور بھارتی وزیراعظم کی بڑھک....کشمیر کے بعد سیاچن! دشمن کو دشمن سمجھ کر ہی اپنی صفیں درست کی جائیں

مشیر خارجہ کی سیاچن سے بھارتی افواج واپس بلوانے کی تجویز اور بھارتی وزیراعظم کی بڑھک....کشمیر کے بعد سیاچن! دشمن کو دشمن سمجھ کر ہی اپنی صفیں درست کی جائیں

وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ماحولیات کے تحفظ کیلئے سیاچن سے اپنی افواج نکال لے۔ گزشتہ روز ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ سیاچن گلیشیئر پر بھارتی فوج کی موجودگی پاکستان کے ماحول کیلئے شدید خطرہ کا باعث بن رہی ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہیں پانی کی قلت کا سامنا ہے‘ سیاچن گلیشیئر پاکستان کے آبی ذرائع میں سے ایک ہے جس کی برف بھارتی فوج روزانہ کی بنیاد پر ضائع کر رہی ہے۔ انہوں نے بھارتی حکومت کو باور کرایا کہ سیاچن میں تعینات ہزاروں بھارتی فوجی روزمرہ استعمال کی چیزیں استعمال کرکے فاضل مواد پھینک دیتے ہیں‘ جو گلیشیئر کیلئے خطرہ کا باعث بن رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک آپس میں پانی کے مسئلہ کو جامع مذاکرات اور سندھ طاس کمیشن سمیت مختلف طریقوں سے حل کرنے میں مصروف ہیں جبکہ پاکستان کو پانی کی قلت کے مسئلہ سے عہدہ برا¿ ہونے کیلئے پانی کے نئے ذخائر کی تعمیر کی ضرورت ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت کے مابین سیاچن کے مسئلہ پر بات چیت کے کئی دور ہو چکے ہیں‘ تاہم ابھی تک کسی حل پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ اب سرتاج عزیز نے سیاچن پر بھارتی فوجوں کی موجودگی کو بڑا مسئلہ قرار دیا ہے اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ گلیشیئر سے اپنے فوجی نکال کر اس مسئلہ کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے۔
جو بھارت قیام پاکستان کے وقت سے ہی اسکی سالمیت ختم کرنے کے درپے ہے جس کیلئے وہ اپنی سازشوں کے جال بچھانے اور جنگی تیاریوں میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے‘ اس سے بھلا کیسے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ہمیں درپیش پانی کی قلت کے بحران کا احساس کرتے ہوئے امور خارجہ کے مشیر کی تجویز پر رضاکارانہ طور پر سیاچن سے اپنی افواج واپس بلوالے گا۔ اسکے برعکس بھارت نے تو سیاچن پر اپنا تسلط مستحکم بنانے کیلئے وہاں اسلام آباد ایئرپورٹ سے بھی بڑا ایئربیس اور چھاﺅنی تعمیر کرلی ہے۔ ماہرین ارضیات نے بھارت کی ان توسیع پسندانہ جنگی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی خطرے کی گھنٹی بجائی ہے جن کے بقول بھارت نے جیوتھرمل انرجی کے لالچ میں سیاچن کے ایک ہزار مقامات پر ڈرلنگ کرکے گلیشیئر کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور یہ صورتحال پاکستان کے آبی ذخائر کی مزید قلت پیدا کرکے یہاں قحط سالی پر منتج ہو سکتی ہے۔ ماہرین ارضیات کے بقول سیاچن گلیشیئر پر بھارتی فوجیوں کی جانب سے پورا سال لاکھوں لٹر ایندھن جلایا جاتا ہے جس سے گلیشیئر پگھل رہا ہے جو خطے میں خطرناک غیرفطری تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے جبکہ بھارت اس سرگرمی سے باز نہ آیا تو پھر پاکستان اور بنگلہ دیش میں سیلاب اور سائیکلون کی تباہ کاریوں اور قحط سالی کا دور دورہ ہو گا۔ اس تناظر میں سیاچن گلیشیئر پاکستان کیلئے لائف لائن کی حیثیت رکھتا ہے جس کی برف کو بھارتی افواج کی موجودگی سے سخت نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت عقل و دانش کی زبان سمجھتے ہوئے سیاچن گلیشیئر پر اپنی افواج کی توسیع پسندانہ سرگرمیوں کے نتیجہ میں اس پورے خطہ پر انسانی بقاءکیخلاف منڈلانے والے خطرات کے تدارک کیلئے ازخود اقدامات اٹھانے پر آمادہ ہو جائیگا؟ جبکہ اس کا تو ایجنڈہ ہی ہر محاذ پر پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کا ہے۔ جب بھارتی وزیراعظم خود پاکستان دشمنی پر مبنی اپنے جذبات کا کھلم کھلا اظہار کر رہے ہوں اور وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کی جانب سے اس خطرے کا احساس دلانا بھی انکی پیشانی کے شکنوں سے آلودہ ہونے کا باعث بن رہا ہو کہ مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو دونوں ممالک کے مابین چوتھی جنگ بھی شروع ہو سکتی ہے‘ ان سے بھلا توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ سیاچن سے اپنی افواج واپس بلوانے پر آمادہ ہو جائینگے جبکہ وہ تو یہ بڑ بھی مار چکے ہیں کہ انکی زندگی میں پاکستان بھارت سے جنگ نہیں جیت سکتا۔ بھارتی لیڈران کی اس ذہنیت کا اندازہ انکی جانب سے ہر قسم کے جدید اور روایتی اسلحہ کے ڈھیر لگانے والی پالیسیوں سے ہی بخوبی لگایا جا سکتا ہے جبکہ بھارت کی ان جنگی تیاریوں کی کوئی حد ہی نظر نہیں آتی۔ ابھی دو ہفتے قبل روسی ساختہ بحری بیڑہ بھارتی بحریہ کے فلیٹ میں شامل کیا گیا جس میں بیک وقت 30 جنگی جہاز لینڈ ہونے اور اڑان بھرنے کی استعداد موجود ہے جبکہ بھارتی نیول چیف کے بقول بھارت اپنے بحری جنگی جہاز اور آبدوزیں خود بنا رہا ہے۔
اس تناظر میں گزشتہ روز وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے مظفرآباد میں آزاد جموں و کشمیر کونسل کے بجٹ اجلاس میں تقریر کے دوران جب کشمیر کو خطے کا فلیش پوائنٹ قرار دیا گیا اور باور کرایا گیا کہ یہ مسئلہ کسی بھی وقت دو ایٹمی طاقتوں کے مابین چوتھی جنگ کا باعث بن سکتا ہے تو کشمیر اور پاکستان کے عوام نے حوصلہ مندی پر مبنی انکے اس بیان کا پرجوش خیرمقدم کیا اور اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ بھارت کے ساتھ یکطرفہ دوستی اور تجارتی مراسم کی خواہش رکھنے والے ہمارے وزیراعظم کو بالآخر ملکی سالمیت کیخلاف بھارتی عزائم کا احساس ہو گیا ہے اور انہوں نے بھارت نوازی پر مبنی اپنی پالیسی پر نظرثانی کرلی ہے مگر وزیراعظم آفس کی گزشتہ روز کی وضاحت کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کے حل کے معاملہ میں وزیراعظم نوازشریف سے وابستہ ہونیوالی امیدوں پر پھر اوس پڑ گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت کواپنی سالمیت کیلئے خطرے کا احساس دلائے بغیر اسکے جنگی جنونی اقدامات کے آگے بند نہیں باندھا جا سکتا اور جس طرح بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان کی جانب سے بھی ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد جنگی جنونی میں مبتلا بھارتی لیڈروں کے ہوش ٹھکانے آئے تھے اور پھر بھارت اپنی جنگی تیاریوں کے باوجود اب تک ہم پر پہلے کی طرح جنگ مسلط کرنے کی جرا¿ت نہیں کر سکا‘ اسی طرح وزیراعظم نوازشریف کی گزشتہ روز کی وارننگ سے بھی بھارتی لیڈران کے حواس خطا ہوئے مگر وزیراعظم کے بیان کی اگلے ہی روز یہ وضاحت کرکے کہ انہوں نے مسئلہ کشمیر پر جنگ چھڑنے کے امکانات کی کوئی بات نہیں کی‘ سہمے بیٹھے بھارتی لیڈران میں پھر پاکستان کی سالمیت کیخلاف گیدڑ بھبکیاں لگانے کی جرا¿ت پیدا کردی گئی ہے۔ اس وقت بھارتی میڈیا نے ہی پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو عروج تک نہیں پہنچایا بلکہ مقبوضہ کشمیر کے سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ بھی یہ بڑھک لگانے کے قابل ہو گئے ہیں کہ وہ اپنے خون سے لکھ دیتے ہیں‘ پاکستان کبھی کشمیر حاصل نہیں کر سکتا۔ اس صورتحال میں وزیراعظم نوازشریف کو خود ہی بخوبی اندازہ لگا لینا چاہیے کہ اپنی شہ رگ کو دشمن کے خونی پنجے سے چھڑوانے کیلئے اپنی ایٹمی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے کے سوا ہمارے پاس کیا چارہ کار ہے۔ اس تناظر میں وزیراعظم کو تو اپنے گزشتہ روز والے مو¿قف پر ڈٹ جانا چاہیے تھا جبکہ مشیر امور خارجہ نے سیاچن گلیشیئر پر بھاریت افواج کی موجودگی سے پاکستان کی بقاءکیلئے لاحق ہونیوالے جن خطرات کی نشاندہی کی ہے‘ اسے ہر عالمی فورم پر اٹھا کر بھارتی توسیع پسندانہ جنگی جنونی اقدامات کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے تاکہ ان اقدامات کو رکوانے کیلئے اس پر عالمی دباﺅ ڈلوایا جا سکے۔
یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ دو سال قبل سیاچن گلیشیئر پر لینڈ سلائیڈنگ کے سانحہ میں پاکستان کے درجنوں جوانوں اور افسران کے شہید ہونے کے بعد میاں نوازشریف نے سیاچن گلیشیئر سے دونوں ممالک کی افواج واپس بلوانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے حکومت پاکستان کو لگے ہاتھوں یہ مشورہ بھی دے ڈالا کہ وہ پاکستان کی افواج واپس بلوانے میں پہل کرے۔ اسکے بعد میاں نوازشریف بھارت کے ساتھ ہر معاملے میں ریشہ خطمی نظر آئے اور اقتدار میں آکر انہوں نے پاکستان اور بھارت کے مابین ویزے کی پابندی ختم کرنے تک کی تجویز پیش کر دی۔ تاہم اب انہیں اندازہ ہو جانا چاہیے کہ جو بھارت مسئلہ کشمیر کے معاملہ میں جنگ کے خطرے کی نشاندہی کرنے والے انکے ایک رسمی بیان کو بھی گوارا نہیں کر سکا اور اسکے لیڈران اور میڈیا نے پاکستان دشمنی کا ماحول گرما دیا ہے‘ وہ انکی ویزا فری تعلقات کی خواہش کا بھی بھلا اسی جذبے کے ساتھ جواب دینے کا روادار ہو سکتا ہے؟ میاں نوازشریف کو اب اپنی دوستی کی خواہش کے باوجود جارحانہ بھارتی رویے سے ملک کی سالمیت کو لاحق خطرات کا ادراک کرنا چاہیے اور اسی بنیاد پر بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں اپنی سوچ کا اظہار کرنا چاہیے۔ دشمن کے عزائم کو بھانپ کر بھی اپنی صفیں درست نہ کرنا ملک کی سلامتی کو دانستہ طور پر خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن