غوثِ دوراں حضرت سید محمد فضل شاہؒ

رانا دلشاد قادری بھلوال
سید شاہ کمال کیتھلی سادات ساڈھوارا کے سلسلے کے پہلے عظیم لاسار ہیں جو ہندوستان تشریف لائے۔ آپ پاک وہند کے تاریخ ساز فرمانروا شیر شاہ سوری کے پیروپیشوا ہیں۔  ساڈھورا کے سیدوں کی انفرادیت ان کی حق پرستی ہے۔ جب انگریز کا ساتھ نہ دینے اور آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا ساتھ دینے کی سزا موت تھی، سادات ساڈھورا  نے بہادر شاہ ظفر کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ ان کے حق میں فتویٰ تک دے دیا۔ سید محمد فضل شاہ اور سید مہر علی شاہ گولڑوی بھی سادات  ساڈھورا ہی کے گلشن کے پھول ہیں۔  سید محمد فضل شاہ نے اگرچہ آنکھ لدھیانہ کی مردم خیز دھرتی پر کھولی لیکن ایک زمانہ آیا کہ آپ اپنی ارفع  بصیرت اور اعلیٰ صلاحیت  کی بدولت عالم اسلام کی چشم بینا شمار ہونے لگے۔  ابتدائی تعلیم کے بعد آپ حصول علم و حکمت کے لئے ملکوں ملکوں گھومے، تبلیغ  اسلام کی خاطر قریہ قریہ  پیغام ربانی عام کیا۔ آپ کو ورثہ میں کروڑوں  روپے کے اثاثے اور نقدی ملی لیکن یہ سب مستحقین کے لئے وقف کر دیا ۔ اس کام  کے لئے انہیں خون کے دریا کو پار کرنا پڑا۔ آخری مرحلے میں ہندو اور سکھ بلوائیوں نے مسلمانوں کے گھروں اور قافلوں پر مسلح حملے شروع کر دیئے اور ہر طرف قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا۔ لوگ اپنی جان و مال اور عزت و آبرو بچانے کے لئے کوئی سہارا پاتے تھے تو یہ سید محمد فضل شاہ جیسے مردانِ حق تھے۔
 آپ  اپنے والدین کے اکلوتے تھے لیکن پاکستان تشریف لائے تو ننکانہ صاحب  میں فقط  دو کچی کوٹھڑیاں  الاٹ کروائیں اور 7 دسمبر 1964ء تک انہی میں قیام پذیر رہے۔
سید محمد فضل  شاہ نے کسی مقام کو منزل نہ بنایا بلکہ آپ کی ذات سراپا سیرت محمدؐ  اور آپ کی شخصیت اسوہ حسنہ کے عملی پہلوؤں کا اظہار تھی۔ آپ  میزبان کے ہاں سے اچانک چل دیتے کہ نذر نیاز یا تحائف پیش کرنے کا موقع ہی نہ ملتا۔ اپنے ارات مندوں سے ایک روپے سے زائد نذرانہ قبول نہیں فرماتے تھے ۔ خدمت و خیر خواہی، محبت  و شفقت  اور ہمدردی آپ کا طرہ امتیاز تھا جو پاس ہوتا نچھاور  و نثار کرتے اور ایثار و قربانی میں توقف نہ فرماتے۔
سید محمد فضل شاہ کا حلقہ ارادت بے حد وسیع تھا جس میں بڑے بڑے نمایاں اور ممتاز علمائ، فضلائ،  شعرائ، جاگیردار اور سیاسی لوگ بھی شامل تھے لیکن آپ نے جانشینی کے لئے ایسے شخص کا انتخاب کیا جس کے پاس سوائے محبت  کے کچھ نہ تھا۔ سید محمد فضل شاہ نے حضرت میراں بخش تجلی کے دست قدرت پر بیعت کی۔ حضرت میراں بخش تجلی بھی عمر بھر اسلام کی تبیلغ و فروغ کے لئے بھرپور جدوجہد کرتے رہے،  سید محمد فضل شاہ نے بھی برصغیر پاک وہند کے علاوہ سعودی عرب،  ایران، شام اور مصر سمیت  13 مسلم ملکوں میں گھوم پھر کر اس دور کے مسلم اکابرین اور علماء سے علمی استفادہ  کیا۔
سید محمد فضل شاہ کا اسلامی تصوف  میں اجتہاد، وقت  کے تقاضوں کی اشد ضرورت کو پورا کر کے فرسودہ رسم ورواج  کو انسانیت کے لئے نہایت  سہل کر دیتا ہے اور انسانیت کو منطقی  راہ دکھاتا ہے۔ آپ  کا فرمان ہے کہ  تصور شیخ تصوف کی پہلی سیڑھی ہے لیکن اس میں وہم پرستی کی گنجائش رکھی گئی ہے کہ یہ لوگ جمادی بتوں کی پوجا سے خیالی بت اور پھر خدائے مطلق تک پہنچنے کی راہ خیال کرتے ہیں حالانکہ تصور شیخ انسان کی خیالی تصویر ہے جس کا خالق و خود  ہوتا ہے اور خالق ہو کر مخلوق کی عبادت کرنا شانِ خالقیت کے خلاف ہے۔ وضو نماز اور ذکر تصوف انتہائی موثر طریقے ہیں  جن کی ہر ادا کو سمجھ کر اور منطقی فلسفے  کو جان کر ادا کریں تو زمانے کے ہنسپاٹزم  ما بعد الطبیعات  اور سیبر ناٹک کے تمام جدید علوم جو اہل جہاں  کی آخری  منزل دکھائی دیتے ہیں ہیچ اور ناکارہ معلوم ہوتے ہیں۔
شرعی  عبادات بے شک مبتدی کے لئے لازم ہیں  اور ان کا ترک کفر ہے لیکن قرب الٰہی  کے عظیم مراتب  تک رسائی کے لئے صرف وہ کچھ کرنا ہوگا جس کی تعلیم نبی کریمؐ  نے خاصان امت کو فرمائی۔ ایک صوفی کے لئے کوئی گنجائش نہیں کہ وہ اپنی ایک ایک حرکت دل کی ہر دھڑکن، سینے کی ہر ہر سانس اور ذہن کا ہر ایک خیال اطاعت الٰہی  میں گزارے بغیر  قربِ الٰہی  سے مدارج حاصل کر سکے۔  لسانی، بدنی، مالی و خیالی جہاد پر صوفی کے لئے ہر وقت لازم ہے لیکن سب سے بڑا جہاد اپنی خواہشوں کے خلاف ہے جو نفسانفسی  پر قابو پایا گیا وہی کامران ٹھہرا۔
 آپ کے نیک اعمال  کا اظہار بالآخر آستانِ فضل  سرگودھا کی بستی کی صورت میں ہو رہا ہے کہ اس جدید بستی  میں آپ کے دست قدرت سے روشن ہونے والے بوالفضل  ظہور احمد قادری ہے جس سے سالانہ اوسطاً  تقریباً دو لاکھ مریض فیض و شفا پاتے ہیں مریضوں کو صرف دوا ہی  نہیں بلکہ انہیں اور ان کے لواحقین یا تیمارداروں کو خوراک اور رہائش بھی بالکل مفت فراہم کی جاتی ہے۔
آستان فضل 49 ٹیل سرگودہا پر قائم القادر ماڈل سکول مختصر مدت میں نام پیدا کر چکا ہے جبکہ القادر طبیہ کالج  اپنی انفرادیت اور نمایاں حیثیت  کے سبب شہرت پا گیا ہے۔ عظیم دروازہ نادر، مسجد  گیارہ دری (جو پیران پیر حضور غوث  الاعظم کی نسبت سے بنائی گئی ہے ) اس بستی کا طرہ امتیاز ہے جبکہ سب پوسٹ آفس، مائیکرو ویو ٹیلی فون، یتیم بچوں اور بچیوں  اور بے سہارا خواتین کی کفالت کے مستقل اسباب پیدا کرنے کے لئے اور انہیں ہنر مند بنانے کی چارہ جوئی، مطالعہ گاہ، مسافروں ، بے کسوں، بے سہاروں اور یتیموں  کے لئے قیام و طعام کا بندوبست اسلامی و ادبی کتب کی تصنیف  و تالیف کا سلسلہ اورطب و طبعیات  پر ریسرچ  کے علاوہ مزید کام اور پروگرام جاری ہیں۔ سید محمد فضل شاہ کا سہ روزہ سالانہ عرس مبارک حسبِ روایت نہایت عقیدت و احترام سے آستان فضل سرگودھا کے مقام پر 7 دسمبر تا 9 دسمبر منعقد ہو رہا ہے  نگرانی ظہور فضل قادری کریں گے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...