اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ آئی این پی) سلمان فاروقی کی بطور وفاقی محتسب تقرری کیخلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ یہ بادشاہت نہیں بلکہ آئین کا دور ہے، آئین کی حکمرانی ہی چلے گی، سپریم کورٹ آئینی اختیار کے تحت کام کرتی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تو سلمان فاروقی کی جانب سے وسیم سجاد اور وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور پیش ہوئے۔ وسیم سجاد نے عدالت کو بتایا کہ سلمان فاروقی ابھی تک امریکہ میں ہیں جہاں ان کی اہلیہ زیر علاج ہیں، ان کی حالت اب کافی بہتر ہے اس لئے دوہفتے تک سماعت ملتوی کی جائے۔ چیف جسٹس نے شاہ خاور سے پوچھا کہ جو لیٹر اسحاق ڈار نے سابقہ حکومت کے دور میں لکھا تھا اور جس کا حوالہ وسیم سجاد نے اپنے جواب میں دیا ہے کیا آپ اس کی تصدیق کر سکتے ہیں تو انہوں نے کہاکہ اس حوالے سے میرے پاس کوئی ہدایات نہیں۔ چیف جسٹس نے وسیم سجاد سے کہا کہ کیس کی کئی سماعتوں کے دوران بہت سے معاملات سامنے آچکے ہیں جیسا کہ ان کی تقرری کے نوٹیفکیشن اور حلف کا کوئی ریکارڈ نہیں، اس لئے کیوں نہ معاملہ حکومت کو بھیج دیا جائے اور وہ تحقیقات کر لے جس پر وسیم سجاد نے کہاکہ عدالت کے پاس اختیار ہے تاہم جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ سپریم کورٹ بادشاہ ہے نہ ہی یہ بادشاہت کا دور ہے یہ آئین کا دور ہے، ہمارا اختیار بھی آئین کے تحت ہی ہے۔ وسیم سجاد نے کہاکہ تحقیقات کیلئے معاملہ حکومت کو نہ بھیجا جائے کیونکہ وہ تو اپنا آدمی تعینات کرنا چاہے گی بندے تیار بیٹھے ہیں۔ وسیم سجاد نے کہاکہ یہ بات تو ثابت ہے کہ تقرری ہوئی ہے باقی معاملات کی تحقیقات کسی ایسے ادارے سے کرا لی جائے جو حکومت کے ماتحت نہ ہو اور آزادانہ فیصلہ کر سکے کیونکہ اس میں حکومت کا مفاد موجود ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایسا تو کوئی ادارہ نہیں بچا۔ عدالت نے سماعت دس روز کیلئے یہ کہہ کر ملتوی کردی کہ ابھی لاپتہ افراد کا کیس بھی سننا ہے۔