اسلام آباد (وقائع نگار + ایجنسیاں) چیئرمین سینٹ نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار، رضا ربانی اور سینیٹر زاہد خان کو دھمکی آمیز خطوط ملنے کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر داخلہ کو معاملے کی تحقیقات کی ہدایت کرتے ہوئے بدھ تک رپورٹ طلب کر لی۔ وزارت داخلہ کی ر پورٹ کے بعد معاملہ متعلقہ کمیٹی کو ریفر کیا جائے گا۔ گذشتہ روز قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن نے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے بتایا پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی، سینیٹر زاہد خان کو کچھ ایسے خطوط ملے ہیں جن میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی ہیں، انہیں ان کی آرٹیکل 6 کے حوالے سے تقریروں اور مؤقف کے باعث یہ دھمکی آمیز خطوط ارسال کئے۔ خطوط کی تحریر ہاتھ سے لکھی گئی ہے تحریر لغو ہے اور سینیٹر حضرات کو متنبہ کیا گیا ہے ان کا جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا مطالبہ درست نہیں۔ انہوں نے کہا یہ خطوط پرویز مشرف سے ہمدردی رکھنے والوں نے ارسال کئے ہیں۔ انہوں نے حکومت س ے مطالبہ کیا حکومت اس معاملے کا فوری نوٹس لے اور اس کی تحقیقات کرائی جائیں۔ رضا ربانی نے ایوان کو بتایا انہیں یہ دھمکی آمیز خط دس دن قبل موصول ہوا جس میں انتہائی نازیبا زبان استعمال کی گئی ہے اور مجھے اور سینیٹر زاہد خان کو آرٹیکل 6 کے حوالے سے مشرف کے خلاف مؤقف کے حوالے سے سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا خط میں انہیں غوا کئے جانے قتل کرنے اور دیگر نتائج کا خمیازہ بھگتنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا مجھے اور سینیٹر زاہد خان کو ایک دن قبل قومی اسمبلی میں ایک مرتبہ پھر یہ خطوط ارسال کئے گئے ہیں اور اس مرتبہ اس خط میں وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کا نام بھی شامل کیا گیا ہے۔ رضا ربانی نے کہا میں یہ سب ریکارڈ پر رکھنے کے لئے کہہ رہا ہوں، مجھے وفاقی یا صوبائی حکومت سے سکیورٹی کی ضرورت نہیں، میری جماعت کا جمہوریت کے لئے جان دینے کا فلسفہ ہے اور یہ بھی میرے لئے قابل فخر ہو گا۔ قائد ایوان سینیٹر ظفر الحق نے کہا یہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے، اس پر فوری نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے دونوں سینیٹرز سے انہیں لکھے گئے خطوط کی نقول فراہم کرنے کی درخواست کی تاکہ معاملے کی تحقیقات کرائی جا سکیں۔ اپوزیشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ملک میں بلدیاتی انتخابات کا آئین کے مطابق انعقاد کرانے کے لئے پرانی حلقہ بندیاں برقرار رکھی جائیں۔ پیپلز پارٹی کی سینیٹر صغریٰ امام نے توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کرتے ہوئے کہا پاکستان میں 1998ء کے بعد مردم شماری نہیں کرائی جا سکی، عدالت نے الیکشن کمشن کو بلدیاتی انتخابات کا انعقاد آئین کے مطابق کرانے کی ہدایات جاری کی تھیں تاہم صوبوں نے نئی حلقہ بندیاں شروع کر دی ہیں جو غیر آئینی اقدام ہے، یہ مردم شماری کے بعد ہونا تھا۔ اس پر وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے کہا یہ بالکل درست ہے، مردم شماری کے بغیر نئی حلقہ بندیاں متنازعہ ہیں تاہم اب یہ معاملہ چونکہ صوبوں کا ہے لہٰذا وفاق اس میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ ڈپٹی چیئرمین سینٹ سینٹر صابر بلوچ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا بی بی اب چند ہفتوں میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں، اب کون آدم شناسی کرائے گا جس پر پورا ایوان قہقہوں سے گونج اٹھا۔ این این آئی کے مطابق وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا ملک میں فوری مردم شماری کی ضرورت ہے۔ الیکشن کمشن نے وزیراعظم کو خط بھی لکھا ہے اس پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔ چیئرمین سینٹ نے قائد ایوان کو ہدایت کی وہ وزیراعظم کے ساتھ معاملے کو اٹھائیں۔ اعتزاز احسن نے کہا خطوط کو پڑھا بھی نہیں جا سکتا۔ مشرف کے کسی ہمدرد، ساتھی یا چاہنے والے کارکن نے خط لکھا ہے۔ رضا ربانی نے کہا خط دس دن پہلے موصول ہوا تھا۔ آج پھر ایک لفافہ ملا جس میں دو خط تھے پھر وہی دھمکیاں دی گئیں۔ پیپلز پارٹی نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے بینظیر بھٹو کی تصاویر غائب کرنے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ سینیٹر مختار احمد نے کہا مسلم لیگ (ن) جب اپوزیشن میں بھی تو ان کی طرف سے آوازیں آتی تھیں بینظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کو گرفتار کریں گے لیکن چھ ماہ گزرنے کے باوجو کوئی عملی اقدام سامنے نہیں آیا۔ اب بینظیر انکم سپورٹ کا جو چیئرمین ہے وہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بن رہا ہے۔ اس پر قائد ایوان ظفر الحق نے یقین دہانی کرائی اس معاملے کا جائزہ لیا جائے۔ سینٹ میں ارکان نے ملک میں مہنگائی کا ذمہ دار گورننس کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے حکومت نے عوام کی فلاح و بہبود کا نعرہ صرف انتخابات میں ووصل حاصل کرنے کے لئے لگایا ہے، ایک سال میں ڈالر کی قیمت میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔ حکمران غریبوں تک نہ پہنچے تو غریب ان تک پہنچ جائیں گے، پھر نہ ہم ہوں گے نہ پارلیمنٹ۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا ملک میں مہنگائی کا سونامی ہے۔ حکومت تصدیق شدہ نرخ نامہ ہر جگہ لگائے۔ عبدالرؤف خان نے کہا ملک کی ساٹھ فیصد آبادی غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ سینیٹر الیاس بلور نے کہا حکومت کہتی تھی ہمارے پاس ٹیم ہے لیکن اس ٹیم نے ملک کی تباہی کر دی۔ عمران خان نے لوگوں کو تنگ کرنے کے لئے نیٹو سپلائی بند کی، امریکہ نے دوسرے راستوں سے سپلائی شروع کر دی، بجلی چوری کے بڑے مگرچھ پنجاب میں ہیں، خیبر پی کے میں نہیں۔ سعید الحسن مندوخیل نے کہا مہنگائی کا ایسا عذاب نازل کیا گیا ہے پہاڑ پر بھی چڑ جائیں تو نہیں بچ سکتے، عوام بچے فروخت کر رہے ہیں۔ محسن لغاری نے کہا مہنگائی کی وجہ گورننس ہے جس پر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ سینیٹر عبدالحسیب خان نے کہا عوام کی فلاح و بہبود کا نعرہ صرف انتخابات تک رہا۔ سینیٹر کریم احمد خواجہ نے کہا حکومت کھانے پینے کی اشیا، بجلی، گیس پر سبسڈی دے۔ ڈالر کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جائے، حکومت صرف وہی پالیسی بنائے جس سے عوام کو فائدہ ہو نہ کہ سرمایہ کاروں کو فائدہ پہنچے۔ اے پی پی کے مطابق وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد کی طرف سے پیپلز پارٹی کو سندھ کی نمائندہ جماعت کہنے پر پیپلز پارٹی کے ارکان نے احتجاج کیا۔ پیپلز پارٹی کے ارکان نے کہا پیپلز پارٹی سندھ کی نہیں وفاق کی جماعت ہے، یہاں یہ امر دلچسپ ہے احتجاج کرنے والے تینوں ارکان سعید غنی، مختار عاز دھامرا اور مولا بخش چانڈیو کا تعلق بھی سندھ سے تھا اور کسی دوسرے صوبے کے رکن نے احتجاج نہیں کیا۔ ثناء نیوز کے مطابق سینٹ میں تشویشناک مہنگائی کے حوالے سے عوام کو ریلیف دینے کے لئے اقدامات تجویز کرنے سے متعلق غیر جانبدار پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کر دیا گیا ہے۔ ایوان بالا میں اپوزیشن نے کابینہ کے اختیار ات وزیر اعظم کے استعمال کرنے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے قرار دیا حکومت کے ایسے اقدامات شہنشاہیت کی روشن دلیل ہے، 1973کا آئین اور رولز آف بزنس آپس میں متصادم ہیں، کابینہ کمیٹیوں کے معاملات کو کابینہ اور ایوان میں زیر بحث لانا ناقابل فہم ہے، ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ غیر ملکی میڈیا میں لیک کرنیوالے عناصر کی نشاندہی کرکے کارروائی کی جائے۔ شاہی سید کے سوال پر وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور آفتاب شیخ نے بتایا وزیر اعظم کابینہ کے سربراہ ہیں لہذا آئینی طور پر وہ کسی بھی اقدام کے معاملے میں کابینہ سے مشاورت کرنے کے پابند نہیں۔ سینیٹر زاہد خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا خط میں اغوا کرکے تشدد کرنے‘ مارنے اور ذبح کرنے کا ذکر کیا گیا تھا۔