”جنرل واپس جاﺅ اور اقتدار سنبھال لو“

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں فوج کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ امریکہ جانتا ہے پاک فوج طاقتور ادارہ ہے۔ دفاعی اور خارجہ امور فوجی قیادت کی آشیر باد سے ہی طے پاتے ہیں اس لیے امریکہ اور پاکستان کی افواج کے تعلقات خوشگوار رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد امریکہ کی خواہش رہی کہ پاکستان میں اقتدار فوجی آمر کے پاس رہے تاکہ وہ کسی مشکل کے بغیر جنوبی ایشیاءمیں اپنے قومی مفادات کو آگے بڑھاتا رہے۔ امریکہ افواج پاکستان کے سپہ سالار کو امریکی دورے کی دعوت دیتا رہا ہے۔ میاں نواز شریف کے پہلے دور میں آرمی چیف جنرل آصف نواز نے 1991ءمیں امریکہ کا دورہ کیا۔ ان کی امریکہ کے سیکریٹری ڈیفنس ڈک چینی سے ملاقات طے تھی۔ امریکہ میں پاکستان کے سفیر اور جنرل آصف نواز کے درمیان طے پایا کہ پاکستان کے قومی سلامتی کے مفاد میں دونوں اکٹھے ڈک چینی سے ملاقات کریں گے۔ ڈک چینی نے جنرل آصف نواز سے الگ ملاقات پر اصرار کیا۔ ملاقات کے بعد جنرل آصف نواز نے سفیر کو بتایا کہ ڈک چینی نے ان کو کہا کہ اگر ایٹمی پروگرام منجمند کرسکتے ہوتو پاکستان واپس جاکر اقتدار پر قبضہ کرلو۔ جنرل آصف نواز آئین دوست اور محب الوطن جرنیل تھے انہوں نے امریکی ترغیب پر کان نہ دھرا۔ پاکستان میں پہلا مارشل لاءبھی امریکہ کی ترغیب اور آشیر باد سے لگایا گیا تھا اس ضمن میں مستند دستاویزی ثبوت کتب میں شائع ہوچکے۔ برطانیہ کے پبلک ریکارڈ ریفرنس نمبر DO35/8943 بتاریخ 27دسمبر 1978ءکے مطابق پاکستان میں برطانیہ کے سفیر نے ایک مراسلہ برطانیہ ارسال کیا جس میں تحریر ہے۔
”میں نے اپنے 23 ستمبر کے خط میں چند روز کے اندر صدر کے ساتھ ملاقات کے بارے میں تحریر کیا تھا ۔میں نے کل اور آج صدر سکندر مرزا سے ملاقات کی ہے۔ ہمارا تبادلہ خیال طویل اور پریشان کن رہا۔ ملاقات کا آخری نتیجہ یہ تھا کہ یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ میں نے اپنے سابقہ خط کے آخری پیراگراف میں جس اندیشے کا ذکر کیا تھا وہ بالکل درست تھا۔ صدر کے لیے اگر ممکن ہوسکا تو وہ انتخابات کے انعقاد کی اجازت نہیں دے گا اور اس کے ذہن میں فوج کی مدد سے فوجی انقلاب کا خیال سمایا ہوا ہے۔ اس نے خصوصی طور پر مجھے کہا کہ میں یہ تجویز مسٹر میکمیلن کو بتادوں۔ اس نے اُمید ظاہر کی کہ میکمیلن اس امر کا ادراک کرتے ہوئے اس کے مجوزہ اقدام کی حمایت کرے گا۔“
برطانیہ کے سفیر نے ستمبر 1958ءکے آخری ہفتے میں برطانوی حکومت کو ایک نوٹ ارسال کرکے مطلع کیا۔
”صدر سکندر مرزا نے ہائی کمشنر کو بتایا ہے کہ وہ فوج کے تعاون سے انقلاب کے بارے میں غور کررہا ہے۔ وہ موجودہ حکومت کو برطرف کردے گا۔ انتخابات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردے گا اور 20 یا 30 اچھے آدمیوں کے ساتھ خود حکومت چلائے گا۔ نیا آئین تشکیل دیا جائے گا۔ سوال پیدا ہوگا کہ کیا برطانیہ کو اس طریقے سے وجود میں لائی گئی حکومت کو پاکستان کی قانونی حکومت کے طور پر تسلیم کرنا چاہیئے“۔
قیام پاکستان کے بعد امریکہ پاکستان کے ساتھ حساس نوعیت کے معاملات اپنے اتحادی برطانیہ کے ذریعے طے کرتا رہا۔ جب اس نے پاکستان میں قدم جمالیے تو جنوبی ایشیاءکے تمام امور براہ راست اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ پاکستان میں اگر پہلے عام انتخابات کا انعقاد ہوجاتا تو جمہوری نظام کی بنیاد رکھ دی جاتی مگر چونکہ امریکہ اور برطانیہ کو خوف تھا کہ انتخابات میں جو افراد جیت کر اقتدار سنبھالیں گے وہ امریکہ نواز نہیں ہوں گے اس لیے دونوں سامراجی ملکوں نے صدر سکندر مرزا کو مارشل لاءنافذ کرنے پر اُکسایا۔ 5جولائی 1977ءکو جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءکو امریکہ کی سرپرستی حاصل تھی۔ امریکہ قوم پرست رہنما ذوالفقار علی بھٹو شہید کی پالیسیوں سے خوف زدہ تھا۔ اس نے اپنے وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے ذریعے بھٹو کو ”عبرتناک کی مثال“ بنانے کی دھمکی بھی دی تھی جو کارگر ثابت نہ ہوئی اور بھٹو ایٹمی پالیسی پر ڈٹے رہے۔ امریکہ نے فوج کے ذریعے بھٹو کی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش کی۔ بھٹو نے اپنی آخری کتاب ”اگر مجھے قتل کیا گیا“ میں امریکی مداخلت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے ایک سال کے دوران جس سرگرمی سے پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور ضرب عضب کو کامیاب بنایا اس سے نہ صرف عوام میں افواج پاکستان کی ساکھ میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی جنرل راحیل شریف کی استعداد، عزم اور قائدانہ صلاحیتوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے امریکہ کا پندرہ روزہ مفصل ، غیر معمولی اور حیران کن دورہ کیا۔ ان کی سپہ سالار سے بڑھ کر ایک طاقتور پاکستانی لیڈر کے طور پر پذیرائی کی گئی۔ ڈی جی ملٹری آپریشن اور ڈی جی آئی ایس پی آر بھی سپہ سالار کے ہمراہ تھے۔ جنرل راحیل شریف نے بڑے اعتماد کے ساتھ پینٹا گان، سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، ڈیفنس اور سی آئی اے کے سینئر رہنماﺅں سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے کانگرس کے ارکان سے ملاقات کی اور ماہر سفارتکار کی طرح پاکستان کا مقدمہ پیش کیا۔ افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے ڈان فیلڈمین نے جنرل راحیل شریف کی ہائی پروفائیل ملاقاتوں کے بارے میں کہا ہے۔"General Sharif is an extremly articulate spokesperson for Pakistan's interests".    ترجمہ:۔”جنرل شریف پاکستان کے قومی مفادات کے انتہائی ماہر ترجمان ہیں۔“
امریکی اہلکار جنرل شریف کی بے ساختہ، دوٹوک، مثبت اور دیانتدارانہ گفتگو سے بہت متاثر ہوئے۔ جنرل شریف کی اتوار (تعطیل کا دن ) کو خصوصی طور پر دفتر کھلوا کر سیکریٹری آف سٹیٹ جان کیری سے ملاقات کرائی گئی۔ اس ملاقات کے بعد کہا گیا کہ پاک فوج ملک کو متحد رکھنے والی قوت ہے اور جنرل راحیل شریف مکمل طور پر پروفیشنل جنرل ہیں۔ افواج پاکستان کی اہمیت مسلمہ مگر سوال یہ ہے کہ اگر فوج کو متحد رکھنے والی واحد قوت تسلیم کرلیا جائے تو پھر روس دنیا کی سپر پاور ہونے کے باوجود کیوں ٹوٹ گیا۔ ریاستوں کو متحد رکھنے والی اصل قوت آئین اور جمہوریت ہوتے ہیں جبکہ فوج ریاست کی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع کرتی ہے۔ امریکنوں نے جنرل راحیل شریف کے دورے کو اہم قراردیتے ہوئے سراہا جبکہ وزارت خارجہ، وزارت دفاع اور امریکہ میں پاکستان کے سفارتخانے نے اس دورے پر خاموشی اختیار کر لی بلکہ وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ اور قومی سلامتی جناب سرتاج عزیز اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے پاک امریکہ تعلقات کے بارے ایسے بے موقع اور بے محل بیانات دئیے جس سے یہ تاثر اُبھرا کہ حکومت جنرل شریف کے کامیاب دورے سے فکر مند ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جنرل راحیل شریف اور امریکی اہلکاروں کے درمیان ملاقاتوں میں پاکستان کے سکیورٹی کے امور، آپریشن ضرب عضب اور پاک افغان تعلقات پر تبادلہ خیال ہوا۔ امریکی حکمت عملی کے مطابق سیاسی امور کو خفیہ رکھا جاتا ہے جس کا انکشاف وکی لیکس سے ہوتا ہے۔ پاکستان سیاسی بحران کا شکار ہے اس لیے اس قومی بحران پر بھی ضرور بات ہوئی ہوگی اور کسی نہ کسی سطح پر امریکی روایات کے مطابق جنرل راحیل شریف کو بھی اقتدار سنبھالنے کی ترغیب دی گئی ہوگی اور جنرل شریف نے محب الوطن سپہ سالار کی حیثیت سے امریکنوں کو بتایا ہوگا کہ 1965ءکی پاک بھارت جنگ میں ان کے ماموں راجہ عزیز بھٹی اور 1971ءکی جنگ میں ان کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف نے مادر وطن کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ دونوں کو سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر دیا گیا تھا۔ وہ آئین توڑ کر اپنے خاندان کی عزت اور وقار کو کیسے داﺅ پر لگاسکتے ہیں۔ امریکہ عمران خان کی عوامی مقبولیت سے خوفزدہ ہے اس کی کوشش ہوگی کہ فوجی مداخلت سے عمران خان کا راستہ روک دیا جائے۔ سیاستدان محاذ آرائی کرکے یہ موقع خود ہی فراہم کردیں گے۔

 

ای پیپر دی نیشن