آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے کہا ہے کہ فوج کا ملک میں آئینی کردار ہونا چاہئے۔ یوتھ پارلیمنٹ سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم پاکستان کیلئے بہت اہم تھا۔ کالا باغ ڈیم سیاست کی نذر ہو گیا۔ کالا باغ ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا تو ق لیگ نے کہا کہ اگر ڈیم بنا تو ہم گھروں کو نہیں جا سکیں گے۔
پاکستان کے آئین میں فوج کا واضح طور پر کردار متعین ہے اس نے پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنی اور اندرون ملک حکومت جہاں مناسب سمجھے اس کی خدمات حاصل کر سکتی ہے۔ جنرل مشرف نہ جانے فوج کو اور کونسا کردار سونپنا چاہتے ہیں، اگر ان کا مطلب فوج کو اقتدار میں حصہ دار بنانا ہے تو اس کیلئے جنرل مشرف الیکشن میں دو تہائی اکثریت لے کر آئیں اور آئین میں ترمیم کر کے فوج کیلئے جس طرح کا چاہتے ہیں کردار متعین کر دیں۔ ان کو یہ زعم بھی ہے کہ صرف فوجیوں نے معیشت کیلئے کام کیا اگر ایسا ہے تو کیا آمرانہ شب خون کو جائز قرار دیا جائے؟ جمہوریت کو مشرف جیسے فوجی حکمرانوں نے چلنے دیا ہوتا تو ہی اسکی جڑیں مضبوط ہوتیں اور اسکے ثمرات عوام اور ملکی معیشت کو حاصل ہو رہے ہوتے۔ بہرحال موجودہ سیاستدانوں کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہئے کہ مشرف آمریت کے خاتمے کے بعد سیاسی و جمہوری حکومتیں ڈیلیور کرنے میں ناکام رہی ہیں اسی لئے مشرف کو جمہوری حکومتوں کے مقابلے میں فوجی حکومتوں کے دوران معیشت کی مضبوطی کا دعویٰ کرنے کا موقع ملا۔ مشرف کے گناہوں کا شمار کیا جائے تو کالا باغ ڈیم کی عدم تعمیر بھی اس میں شامل ہے اس کی تعمیر کیلئے انہوں نے اپنے اقتدار کے آخری سال بڑے دعوے کئے تھے اب وہ کہتے ہیں کہ ق لیگ نے کالا باغ ڈیم بننے نہیں دیا۔ کیا مشرف نے جمہوری حکومت کے خاتمے اور نائن الیون کے بعد امریکہ کا ساتھ دینے جیسے فیصلے کسی سے پوچھ کر کئے تھے؟ مشرف کا کالا باغ ڈیم تعمیر نہ ہونے کے حوالے سے بیان عذرِ گناہ بدتر از گناہ کے زُمرے میں آتا ہے جس کا نتیجہ وہ عوام میں انتہائی غیر مقبول ہونے کی صورت میں بُھگت رہے ہیں۔
مشرف کے بے بنیاد دعوے بے تکے مشورے
Dec 06, 2014