”نابیناﺅں کی ”مُحسن“ پنجاب پولِیس

وفاق اور خیبر پی کے حکومتوں کی جانب سے عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے پر اُن کے خلاف توہینِ عدالت کے کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے دو رُکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہُوئے کہا کہ ”غریبوں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے۔ حکومت عوام سے بھِک منگوں کا سا سلوک نہ کرے۔ کیا وہ یہ چاہتی ہے کہ لوگ اُن کے پاس کشکول لے کر جائیں تب ہی اُن کے کام ہوں گے۔“
”12 کروڑ کشکول!“
بھِیک مانگنے کے لئے بھِکاریوں کے پاس جو پیالہ ہوتا ہے اُسے فارسی اور اُردو میں کشکول اور پنجابی میں ”ٹھُوٹھا“ کہتے ہیں۔ پنجابی کے معرُوف شاعر سیّد وارث شاہ کی تصنِیف ”ہِیر رانجھا“ کے مطابق جب کہانی کا ہیرو ”رانجھا“ اپنی شادی شدہ محبوبہ ”ہِیر“ سے مِلنے کے لئے بھِکاری (فقیر) کے بھیس میں اُس کے سُسرال گیا اور اپنا ”ٹھُوٹھا“ (کشکول) ہِیر کے آگے دراز کِیا تو ہِیر نے رانجھا کو پہچان لِیا اور اُس کے ہاتھ سے ٹکرا کر رانجھا کا ٹھُوٹھا ٹوٹ گیا۔ اِس پر ہِیر نے رانجھا سے مخاطب ہو کر کہا
”گیا بھجّ تقدِیر دے نال ٹھُوٹھا
مَیتھوں قیمت لے جا مٹّ دی وے!“
یعنی اے میرے محبوب! مجھ سے تمہارا کشکول اچانک ٹُوٹ گیا ہے۔ (مجھ سے ناراض نہ ہو اور) تم مجھ سے مٹّی کے ٹھُوٹھے کے بجائے مٹّ ( بڑے گھڑے) کی قیمت لے لو! مسئلہ یہ ہے کہ اگر وفاق، خیبر پی کے اور دوسری صوبائی حکومتیں (جسٹس خواجہ کے سوال کے مطابق) غریبوں پر کشکول کے ذریعے اپنی مُشکلات یا مسائل پیش کرنے کی شرط لگا دیں تو 12 کروڑ کشکول درکار ہوں گے کیونکہ وفاقی وزیرِ خزانہ جناب اسحاق ڈار کئی بار فرما چُکے ہیں کہ ”پیارے پاکستان میں غُربت کی لکیر سے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد اب 60 فی صد ہو گئی ہے۔“ پاکستان کی آبادی 20 کروڑ ہے۔ اِس لئے غریبوں کی تعداد 12 کروڑہو گئی ہے۔ یاد رہے کہ 11 مئی 2013 ءکے عام انتخابات کے بعد وفاق اور صوبوں میں قائم ہونے والی حکومتوں سے پہلے غُربت کی لکِیر کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد 50 فیصد تھی۔
غریبوں پر کشکول کی شرط عائد کئے جانے کے بعد چاروں صوبوں میں کشکول فیکٹریاں کُھل جائیں گی جِن میں بےروزگاروں کو روزگار مِلے گا۔ حکومتی اہلکاروں کے ہاتھوں (دانستہ طور پر) غریبوں کے کشکول بار بار ٹُوٹیں گے لیکن وہ کسی بھی غریب کا کشکول توڑنے پر اُسے ”مٹّ کے برابر قیمت نہیں اداکریں گے۔ اِس لئے کہ کوئی بھی حکومت (ہِیر کی طرح) غریب (رانجھا) کی محبوبہ نہیں ہوتی۔ کشکول فیکٹریوں کا کاروبار اُس وقت تک چلتارہے گا جب تک ¾ پاکستان سے غُربت نہ ختم ہو جائے!
فوج کا ”غیر تحریری آئینی کردار“
سابق صدرِ پاکستان اور آل پاکستان مسلم لیگ کے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا ہے کہ ”استحکامِ پاکستان کے لئے فوج کا آئینی کردار ہونا چاہیے۔“ جنرل ( ر) پرویز مشرف صاحب سے قبل سابق فوجی صدور صاحبان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان ¾ جنرل محمد یحییٰ خان اور جنرل محمد ضیاءالحق کا بھی یہی خیال تھا یعنی”کلام الملوک، ملوک الکلام“ پھر سب فوجی صدور کے مداحِین کی بھی یہی رائے ہو گئی۔ جنرل ضیاءالحق تو یہ بھی کہا کرتے تھے کہ آئِین کیا ہے؟ چند صفحوں کی کتاب۔ جِسے میں جب چاہوں پھاڑ کر پھینک سکتا ہوں۔“
حقیقت تو یہ ہے کہ فوجی صدور سے پہلے اور اُن کے بعد جتنی بھی ”جمہوری حکومتیں“ قائم ہوئیں ¾ انہیں فوج کی سرپرستی اور شفقت حاصل رہی۔ ہر منتخب صدر اور وزیرِاعظم اہم فیصلے کرنے سے پہلے ¾ خاص طور پر خارجہ پالیسی کے خدّوخال تشکیل دیتے وقت چیف آف آرمی سٹاف سے ہدایات لیتا ہے۔ اِس لئے کہ اُس کی پارٹی میں انتخابات نہیں کرائے جاتے۔ پارٹی میں کارکنوں کے بجائے ضرورت مند ہوتے ہیں بلکہ بہت ہی زیادہ ضرورت مند! ¾ جو پارٹی کے سربراہ کے رشتے داروں کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اِس لئے ”برطانیہ کے غیر تحریری آئین“ کی طرح ہر دَور میں فوج کا ”غیر تحریری کردار“ رہا ہے اور اِنشاءاللہ آئندہ بھی رہے گا۔“
”نابِیناﺅں کی ”مُحسن“ پنجاب پولِیس!
معذوروں کے عالمی دِن پر لاہور میں اپنے کوٹے کے مطابق ملازمتوں کا مطالبہ کرنے والے نابِیناﺅں کی ریلی پر پنجاب پولیس نے لاٹھیاں برسا کر ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کر لِیا ہے۔ اِس سانحہ پر وزیرِاعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے کہا کہ ”کاش وزیرِاعظم نواز شریف اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف مُلک سے باہر نہ ہوتے!“ بھلا یہ کیسے ہو سکتا تھا؟ جناب وزیراعظم اور جنابِ وزیرِ اعلیٰ کو کاروبارِ سرکار/ مملکت کو پھیلانے کے لئے بیرونی مُلکوں کے دوروں پر تو جانا ہی پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جناب وزیرِاعظم اور جنابِ وزیرِ اعلیٰ پنجاب جِن صاحبان کو وفاق اور پنجاب میں اپنے قائم مقام بنا کر گئے تھے اُن کی نالائقی تو ثابت ہو گئی۔ کیا محض چند پولیس افسروں اور اہلکاروں کو ٹرانسفر اور معطّل کرنا کافی ہو گا؟ ایک اور سوال کہ جب وزیرِاعظم اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب پاکستان میں ”آن ڈیوٹی“ ہوتے ہیں تو کیا اُن کی موجودگی میں پولیس عام لوگوں پر تشدد نہیں کرتی؟
وزیرِاعظم کے ایک مشیر جناب عرفان صدیقی نے ایک نیوز چینل پر گفتگو کرتے ہُوئے نُکتہ پیدا کِیا ہے کہ ”پولیس کو تربیت کی ضرورت ہے۔“ یہ بھی خُوب رہی؟ کیا کسی ”تربیت“ کے بغیر ہی لوگوں کو پولیس میں بھرتی کر کے افسران اور اہلکار بنا دِیا جاتا ہے؟ عرفان صدیقی نے یہ بھی فرمایا کہ ”جب بھی اِس طرح کا واقعہ ہوتا ہے پولیس کے ساتھ لفظ ”پنجاب“ لگا دِیا جاتا ہے۔“ پنجاب پولیس کو اِس طرح کی بدنامی سے بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ صدرِ مملکت جناب ممنون حسین سے اِس طرح کا آرڈیننس جاری کرا لِیا جائے کہ ”جب بھی پنجاب پولیس اپنے مطالبات منوانے والوں کی دُھلائی کرے تو اُسے ”بلوچستان پولیس ¾ خیبر پی کے پولیس یا سِندھ پولیس کہا جائے!“ بعض سیانے کہتے ہیں کہ ”بُرائی میں بھلائی کا پہلو بھی ہوتا ہے۔ لاہور میں پنجاب پولیس نے نابِیناﺅں کو اپنے اختیارات کا احساس دلایا تو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین نے پولیس کی مذّمت اور نابیناﺅں کی حمایت کی۔ قومی اسمبلی میں نابیناﺅں کے حق میں قرار داد منظور ہو گئی۔ ویرِ اعلیٰ پنجاب نے معافی مانگ لی اور نابیناﺅں کے تمام مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان بھی کر دِیا۔ اِس لحاظ سے نابیناﺅں کی ریلی پر اندھادھند لاٹھیاں برسانے والے پولیس افسران / اہلکار (پنجاب پولیس) اُن کے مُحسن ثابت ہُوئے ہیں۔ اب معطل پولیس افسروں اور اہلکاروں کو بحال کرنے کا مطالبہ کرنے کی ”اخلاقی ذمہ داری“ خود بلائنڈ ایسوسی ایشن کی ہے۔

ای پیپر دی نیشن