فن قوالی کو منفرد انداز بخشنے والے عزیز میاں قوال کو مداحوں سے بچھڑے ہوئے چودہ برس ہو گئے لیکن ان کی قوالیاں آج بھی سننے والوں پر وجد طاری کر دیتی ہیں۔

سترہ اپریل انیس سو بیالیس میں بھارت کے شہر دہلی میں پیدا ہونے والے عزیز میاں قوال نے فن قوالی میں اپنے منفرد انداز سے وہ شہرت حاصل کی جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ دس سال کی عمر میں فن قوالی سیکھنا شروع کیا۔ وہ سولہ سال کی عمر تک قوالی کی تربیت حاصل کرتے رہے۔ عزیز میاں قوال نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو اور عربی میں ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ تصوف اور معرفت کی محفلوں میں وہ اپنا کلام ہی پیش کرتے تھ عزیز میاں قوال کی شہرہ آفاق قوالیوں "میں شرابی"، "تیری صورت"، "اللہ ہی جانے کون بشر ہے" اور دیگر شامل ہیں۔ 115 منٹ طویل قوالی اور "حشر کے روز ہی پوچھوں گا"، انھوں نے خود لکھی،خود کمپوز کی اور خود ہی دنیا کے سامنے پیش کی عزیز میاں قوال کو ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں انیس سو نواسی میں حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیاعزیزمیاں ایران کے شہر تہران میں چھ دسمبر دو ہزار میں بیماری کی حالت میں خالق حقیقی سے جا ملےعزیز میاں بے شک آج ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کی منفرد قوالیاں آج بھی مداحوں کے کانوں میں رس گھولتی ہیں

ای پیپر دی نیشن