28فروری 2002 کوسوچے سمجھے منصوبے کے مطابق دو سینئر وزیراحمد آباد اور گاندھی نگر کے پولیس کنٹرول روم میں جا بیٹھے۔ گجرات کا وزیر صحت اشوک بھٹ شاہی باغ کے پولیس دفتر میں تین گھنٹے سے زیادہ بیٹھا رہا۔ ایک اور وزیر آئی کے جاڈیجا جو وزیراعلیٰ مودی کا دست راست سمجھا جاتا تھا، گاندھی نگر کے پولیس کنٹرول روم میں گیارہ بجے جا کر بیٹھ گیا۔ ان سب کا کام یہ تھا کہ جب مسلمانوں پر حملہ شروع ہو تو پولیس کو ایکشن لینے سے روکیں، کوئی ٹیلی فون کال نہ سنے، کوئی شکایت رجسٹرڈ نہ کی جائے اور پندرہ ہزار بلوائیوں کو اپنا کام پورا کرنے کی مہلت دی جائے۔ صوبائی کابینہ کے وزیر نیتن پٹیل اور نرائو لالو پٹیل (مودی کابینہ کا وزیر) نے بہ نفسِ نفیس قتل وغارت گری، لوٹ مار، آتش زنی اور آبروریزی میں حصہ لیا۔ یہ تمام وزراء اور احمد آباد، بڑودہ (ودودرا) ، محسانہ اور نڑیاد کے پولیس کمشنر اس انتہائی سفاکانہ قتل وغارت گردی کے ذمے دار ہیں۔ گجرات کے 24 سپرنٹنڈنٹ پولیس میں سے 16 نے اس مسلم قتل عام میں صراحتاً حصہ لیا۔ نرودا پولیس سٹیشن کے ایک انسپکٹر کے کے میسور والا (جو کئی گواہوں کی موجودگی میں خود اس قتل عام میں ملوث تھا) نے 2مارچ 2002 کو ’’آج تک‘‘ ٹیلی ویژن چینل پر بتایا ’’صبح گیارہ بجے سے لے کر شام سات آٹھ بجے تک پورا دنگا جاری رہا۔ پندرہ بیس ہزار کی تعداد میں یہ آدمی لوگ یہاں آئے تھے۔ فائرنگ بھی ہوئی ہے۔ آنسو گیس بھی چھوڑی ہے یہ بڑا مجمع تھا۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ پولیس ہندو بلوائیوں کی اس قدر طرفداری کر رہی تھی کہ ملک کے معزز ترین مسلمان شہریوں کی مدد کرنے کو تیار نہ تھی۔ حتیٰ کہ احمد آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اکبر اور جسٹس قادری بھی پولیس کی مدد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ گجرات ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے صاف صاف بتا دیا تھا کہ پولیس پر اعتبار نہ کریں۔ یہ کوئی انوکھی بات نہ تھی اس لئے کہ وزیر داخلہ ہارین پانڈے نے بہت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پولیس کے تمام اہم عہدوں پر ایسے افسران تعینات کردیئے تھے جو RSS کے ممبر یا ہمدرد تھے اور مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے۔ مثال کے طور پر احمد آباد کرائم برانچ کے انسپکٹر وی پی راول نے خود بابری مسجد کو مسمار کرنے میں حصہ لیا تھا۔ اگر کسی ایک آدھ افسر نے اس بہیمانہ قتل عام میں حصہ لینے سے انکار کیا تو فوراً اس کی تبدیلی کردی گئی اور اس کی جگہ دوسرا متعصب ہندو تعینات کردیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ پولیس نے بھارت کو مسلمانوں کے ’’ملیچھ‘‘ وجود سے پاک کرنے میں پورا پورا حصہ لیا۔ ودودرا کی میمن کالونی کے ایک شخص نے بتایا کہ پولیس قاتل جتھوں کو ہدایت دے رہی تھی کہ کوئی مسلمان بچ کر جانے نہ پائے۔ خود پولیس کے سپاہیوں نے کئی مسلمانوں کو گولیاں ماریں۔ دودھیا اور کسان واڑی دیہات میں پولیس کے سپاہی چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو گولیاں مارتے دیکھے گئے۔ گاندھی نگر کے فسادات میں ایک زندہ بچ جانے والے مسلمانوں عرفان شیخ نے بتایا کہ قاتلوں نے عورتوں اور بچوں کے منہ میں انگلیاں ٹھونس کر اور گلے گھونٹ کر ہلاک کیا اور پولیس یہ تماشہ دیکھتی رہی۔ پھر اس قتل عام کے نشانات کو مٹانے کے لئے ہمیں مجبور کیا کہ لاشوں کو فوراً دفن کردیا جائے۔ احمد آباد کی ممتاز بانو نے بتایا کہ پولیس ہمارے گھروں میں گھس آئی اور گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ شیربانو بخاری کے سینے میں گولی لگی ہوئی تھی۔ اس نے سسکیاں بھرتے ہوئے بتایا کہ پولیس والا اس سے صرف پانچ میٹر کے فاصلے پر تھا۔ اس نے نشانہ باندھ کر اس کے سینے میں گولی ماری۔ پولیس نے بلوائیوں کے ساتھ مل کر جس طرح مسلمانوں کے قتل میں بھرپور حصہ لیا اس کا دوسرا ثبوت وہ منہ بولتی تحریریں ہیں جو بلوائی گجرات کے مکانوں کے درودیوار پر چھوڑ گئے۔ ملاحظہ فرمایئے:
’’یہ اندر کی بات ہے پولیس ہمارے ساتھ ہے‘‘
(Times of India 1st & 2nd March 2002, The Hindustan Times 5th March, Indian Express 5th & 22nd March) بھارت کی این جی اوز کی خواتین کے ایک چھ رکنی پینل نے گجرات کا دورہ کر کے جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی عورتوں اور قتل ہونے سے بچ جانے والوں کا انٹرویو لے کر ایک رپورٹ تیار کی جس سے بھارت کے مسلم کش کردار اور سیکولر نظام کا ڈھونگ طشت ازبام ہو جاتا ہے۔ یاد رہے کہ اس چھ رکنی پینل میں دو کے علاوہ باقی سب خواتین غیر مسلم تھیں۔ پینل کی تمام خواتین کا تعلق دہلی، بنگلور، احمد آباد اور تامل ناڈو سے تھا۔ اس ٹیم کو احمد آباد کے لوگوں کی سرپرستی اور تعاون حاصل تھا۔ تعاون کرنے والوں میں بھی زیادہ تر ہندو ہی تھے۔ یہ تفصیل اس لئے لکھی جا رہی ہے تاکہ کوئی قاری یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ یہ رپورٹ کسی مسلمان ذہن کی خیالی اختراع ہے۔ یہ سروے رپورٹ حقائق پر مبنی ہے اور اسے لکھنے والے اور منظر عام پر لانے والے بھی اکثر ہندو ہی تھے۔ اس ٹیم نے 27 مارچ سے 31 مارچ 2002ء تک گجرات کا دورہ کیا اور سات پناہ گزین کیمپوں میں جا کر مظلوم و مجبور، بے کس و بے آسرا مسلمانوں بالخصوص مسلمان عورتوں کے انٹرویو لئے۔ یہ کیمپ احمدآباد، کھیڈا، وڈوڈا اور پنچ محل کے اضلاع تھے۔ اس ٹیم نے مایا کڈوانی (ممبر نیشنل اسمبلی) کے ساتھ بھی تبادلہ خیال کیا۔ مایا کڈوانی نے خود بھی نروڈاپیٹا کے مسلم قتل عام میں حصہ لیا تھا اور اس کے خلاف ایف آئی آر بھی موجود تھی۔
شاہ عالم کی کلثوم بی بی نے 27 مارچ 2002ء کے روز پینل کے سامنے یہ بیان دیا، ’’ہجوم نے ہمارا پیچھا کرنا شروع کیا۔ وہ ٹائر جلا رہا تھا۔ ہمیں گنگوتری سوسائٹی چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ یہاں غنڈوں نے بہت سی لڑکیوں کی بے حرمتی کی۔ ہم نے بے حرمتی کی آٹھ دس وارداتیں دیکھیں۔ ہم نے انہیں سولہ سالہ مہر النساء کی بے حرمتی کرتے دیکھا۔ وہ لڑکیوں کی طرف اشارے کر رہے تھے۔ پھر انہوں نے لڑکیوں کو سڑک پر لٹا کر ان کی بے حرمتی کی۔ ہم نے ایک لڑکی کو دیکھا جس کی جائے مخصوصہ کو چیر ڈالا گیا تھا۔ بعد ازاں ان لڑکیوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ اب کوئی ثبوت موجود نہ رہا۔‘‘ (بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام صفحہ 31) … (جاری)
گجرات کا مسلم قتلِ عام
Dec 06, 2015