ہوائوں پر ٹیکس کیوں نہیں…؟

ذرا غور فرمایئے اور داد دیجئے اس منطق کی، ولایتی بابوجی نے کہا چاکلیٹ پنیر کھانے والوں کو کچھ تو دینا چاہئے۔ ہمارا خیال ہے بابوجی خزانے والے کافی عرصہ سے ملک میں نہیں رہتے۔ اس لئے انہیں معلوم ہی نہیں کہ ان کے زیر سایہ کتنے لوگ پنیر اور چاکلیٹ اور اس قسم کی دیگر اشیاء کھا سکتے ہیں۔ ہم بابوجی کو بتاتے ہیں کہ چاکلیٹ کینڈی، مکھن پنیر، فروٹ وغیرہ وغیرہ بڑے ملکوں کے چھوٹے چھوٹے لوگ کھاتے ہیں یاچھوٹے ملکوں کے بڑے بڑے لوگ کھاتے انگلیوں پر گن لیجئے۔
زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ بدھ کے روز میں کپڑے کی ایک دکان پر گئی۔ پچھلے ہفتے میں نے یہاں سے ایک زنانہ ریشمی سوٹ پانچ سو روپے میں خریدا تھا۔ اب جو قیمت پوچھی تو بولا آٹھ سو کا ہے۔ میں نے یاد دلایا کہ اتنی جلدی آپ نے قیمت بڑھا دی۔ دکاندار بولا آپ اخبار نہیں دیکھتیں، منی بجٹ آیا ہے، چیزیں مہنگی ہوگئی ہیں۔ بھئی اشیائے خوردنی کا کپڑوں سے کیا تعلق اور پھر تمہارے پاس تو یہ پہلے کا سٹاک پڑا ہے۔ بولا جی آپ کو کیا پتہ جب بجٹ آتا ہے تو ہر چیز پر فرق پڑتا ہے۔ مہنگائی نیچے سے اوپر تک جاتی ہے۔ رنگریز نے دوپٹے کی رنگائی بڑھا رکھی تھی۔ سبزی والے نے ہر سبزی اور خصوصیت سے آلوئوں کی قیمت بڑھائی ہوئی تھی۔ ریڑھی پر پھل بیچنے والا منی بجٹ کا عذر دے کر سارا پھل مہنگا بیچ رہا تھا۔ آپ مارکیٹ میں جاکر کسی سے بات کرلیں، منی بجٹ ایک ’’ہوا‘‘ ہے۔ اس کا ذکر سنتے ہی تمام تاجر اور دکاندار ہر چیز کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔
بابوجی ولایتی فرماتے ہیں مہنگائی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی… مہنگائی روزانہ ترقیاتی سکیموں کی طرح بڑھ رہی ہے۔ گوشت، اشیائے خوردنی، اشیائے ضرورت سب… ہر مارکیٹ میں یہی حال ہے۔ آپ چھوٹے یا بڑے دکاندار سے جرح نہیں کرسکتے۔ خود ان کا رویہ جارحانہ اور ظالمانہ ہوتا ہے۔ صاف کہتے ہیں ’’نہ لو‘‘ جہاں سے یہ چیز سستی ملتی ہے وہاں چلے جائو… گزشتہ تین سالوں میں ہمارے ہاں ہر منڈی میں چیزوں کی قیمتیں بغیر کسی چیک کے بڑھی ہیں۔
بابوجی اپنے عملے سے کہیں کہ کسی عام گھریلو عورت سے جاکر پوچھ لیں، پیاز سے لے کر دودھ تک وہ آپ کو بتا دے گی کہ شہر میں کیا ہورہا ہے اور کیسے ہورہا ہے… دودھ کی کتنی قسمیں آگئی ہیں، ان قسموں میں کیا بکتا ہے۔ کیا دودھ ہر گھر کی ضرورت نہیں۔ ہم اپنے بچوں اور بزرگوں کو کیا دے رہے ہیں۔
ایک عام صارف پانی کی بوتل سے لے کر ہر کھانے والی چیز پر پہلے ہی ٹیکس دے رہا ہے۔ چاکلیٹ اور پنیر کھانے والا سارا طبقہ بھی چور نہیں ہے۔ اس طبقے میں سے 90 فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔
اور پھر آپ کو چاکلیٹ اور پنیر کھانے والوں سے چڑ کیوں ہے؟ اگر یہ خوشحال نظر آرہے ہیں تو ان کے آباء و اجداد نے محنت کرکے ان کو اس مقام پر پہنچایا اور وہ بھی اپنی خوشحالی کے لئے دن رات محنت کررہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ کیا آپ ان کو محنت کرنے کی سزا دینا چاہتے ہیں۔ ٹیکس چور جو آپ کے پہلو میں بیٹھے ہیں، وہ تو آج تک آپ سے پکڑے نہیں گئے…
اس بے تکی اور بے اصولی مہنگائی کی وجہ سے لاء اینڈ آرڈر کی صورت خراب ہوئی۔ اپنا پیٹ بھرنے کے لئے متوسط طبقے کے لوگ بھی چوریاں ڈکیتیاں کرنے لگے… کبھی بابوجی ولایت والے باہر نکل کر دیکھا ہے، مارکیٹ میں تین قسم کے چور بیٹھے ہیں۔ ایمان کی پوچھو تو وہ ایمان بیچ رہے ہیں۔ ایک وہ چور ہے جو ٹیکس نہیں دیتا۔ بجلی، گیس اور پانی چوری کرتا ہے۔ دوسرا وہ چور ہے جو ہر روز قیمتیں بڑھاتا ہے، ہم عورتوں کو اس بات کا بہت تجربہ ہوتا ہے۔ اور تیسرا وہ چور ہے جو راہ چلتی عورتوں کے پرس، موبائل اور تھیلے اچک کے لے جاتا ہے۔
عام آدمی نے آپ سے کیا مانگا ہے؟ پیٹ بھر روٹی اور گھر کے اندر اور باہر تحفظ… اور آپ کیا دے رہے ہیں، بھاشن…
میڈیا نے جو بیداری پھیلائی ہے، اس کے تحت آج غریب آدمی کے گھر میں بھی ٹیلی ویژن، کولر، ریفریجریٹر اور بجلی کی استری کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں۔ اب دنیا بھر میں ان چیزوں کو لگژری آئٹم نہیں کہتے۔ بجلی نہیں آتی تو کیا کوئی چھت پر لگا پنکھا دیکھ کر بھی خوش نہ ہو… 350 آئٹمز پر ٹیکس لگانا ایک جرم ہے اور اس جرم کے لئے ایک خوشحال کلاس کو نامزد کرنا مہاجرم ہے۔ امیر ہونے کی سزا کسی معاشرے میں نہیں ہوتی… پہلے ہی پاکستان کے اندر کاروباری حضرات بہت بددل ہوچکے ہیں… وہ نقل مکانی کا سوچ رہے ہیں اور آپ ہیں کہ ان کے اوپر دوہرا ٹیکس لاگو کررہے ہیں۔
یہاں ہر کوئی، ہر کسی کی جیب کاٹ رہا ہے… جس کے ہاتھ میں ترازو ہے، اسی کے ہاتھ میں کلہاڑا ہے۔
پاکستان ایک ایسا خوش نصیب ملک ہے جس میں ہر موسم کے لاتعداد پھل اگتے ہیں۔ ریڑھیوں پر سجے نظر آتے ہیں۔ کیلا، سنگترہ، مالٹا، امرود، آم، تربوز، ہر غریب امیر کی پہنچ میں پہنچتے رہے۔ مگر اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک طبقہ یہ پھل کھانے سے بھی محروم ہوجائے گا…
کیا بابوجی سمجھتے ہیں کہ ڈالر پر اس بجٹ کا اثر نہیں ہوا… ڈالر پھر اسی اپنی پرانی سطح پر چلا گیا ہے۔ آپ جواز پر جواز پیش کرتے جائیں، یہ آپ کی بے حسی اور بددیانتی ہے… عمران پر طنز کرتے ہیں کہ روز روز فیصلے بدلتا ہے۔ آپ خود روز اپنے فیصلے بدلتے ہیں، روز طور طریقے بدلتے ہیں، روز عوام کو بے وقوف بناتے ہیں…
ضرب عضب ماشاء اللہ کامیابی سے جاری و ساری ہے۔ ہماری باوقار افواج اپنے ہر معاملے اور ہر بجٹ میں خودکفیل ہیں۔ دائیں بائیں دیکھ کے بابوجی، پاگل کی طرح تلوار نہ چلائیں۔ جب پاگل کے ہاتھ میں تلوار پکڑا دی جاتی ہے تو وہ چلاتے وقت یہ نہیں دیکھتا کون گنہگار ہے، کون ضعیف ہے، کون بچہ ہے، کون قصوروار ہے، بس وہ تلوار چلاتا رہتا ہے… کیا اب ہمارے معصوم بچے چاکلیٹ نہیں کھائیں گے، پنیر نہیں مانگیں گے جو اپنے ہی ملک میں بنتا ہے اور اپنے ہی ملک میں بکتا ہے…
بابوجی پہلے ہی ولایت میں رہتے ہیں، 40 ارب روپے کمانے کے لئے عام آدمی کا گلا نہ گھونٹیں… بجٹ نہ ہوا مذاق ہوگیا، جب دل چاہا پیش کردیا۔ صد افسوس اس ملک میں پلانرز کی ہمیشہ کمی رہی، نہ تو اچھے ٹائون پلانرز مل سکے، کھمبیوں کی طرح کالونیاں بڑھتی جارہی ہیں، نہ معیشت سازی میں تجربہ کار اور سمجھدار پلانرز ہیں…
گڈگورننس پر اتنا غصہ اور غضب کیوں؟…
کرامت بخاری نے کہا ہے:-
آگئے ہیں کچھ ایسی منزل پر
خیر دریا میں ہے کہ ساحل پر
کتنا خوش ہے میرا دلِ سادہ
ہر فریب نشاط منزل پر!

ای پیپر دی نیشن