کیسا ہی گنہگار اور دنیا دار انسان کیوں نہ ہو ندامت کا عنصر وجود کے کسی کونے کھدرے میں ضرور چھپا رہتا ہے۔ میرے لئے یہ بات ہی سوہان روح تھی کہ بجز ندامت ربِّ کعبہ اور رسالتِ مآب کے حضور کیا لےکر جاو¿ں گا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خود غرضی، منافقت، لالچ، تنگ نظری اور تعصب نے ہماری زندگیوں کو داغدار کر دیا ہے۔ محض نماز پنجگانہ نجات کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ حقوق العباد بھی عبادت کے زمرے میں آتے ہیں اور دین مبین کا یہی وہ اعلیٰ و ارفع تصورِ حیات ہے جو اسے دیگر مذاہب سے منفرد اور ممتاز کرتا ہے۔ دیگر مذاہب میں عبادت بھی ہے لیکن اسلام میں عبادت ہی ہے۔ ہر کام جو اللہ تعالیٰ کی رضا یا اسکے بندوں کی فلاح کیلئے کےا جائے عین عبادت ہے۔
دراصل ہُوا یوں کہ میں لاءاینڈ آرڈرکانفرنس کے سلسلے میں لاہور آیا ہوا تھا۔ بڑی اہم کانفرنس تھی۔ فرقہ وارانہ تشدد اورخونریزی کے واقعات نے انتظامیہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ امام بارگاہوں، مساجد اور دیگر مقامات پر لوگ مذہبی منافرت کا شکار ہو رہے تھے۔ جوان، بزرگ، عورتیں، بچے سب لقمہ اجل بن رہے تھے۔ انسان انسان کو بھون رہا تھا آدمی آدمی کا شیطان بن گیا تھا انسان اس قدر وحشی ہو سکتا ہے۔ گورنر صاحب کے لہجے میں تاسف تھا ایک قلزم خون تھا جسے عبور کر کے ہم آزادی کی منزل تک پہنچے انگریز سے نجات اور ہندوو¿ں سے چھٹکارا حاصل کیا اب اور کتنے دریا ہمیں عبورکرنا ہوں گے؟
حیران کن بات یہ ہے کہ جس دین مبین کے ہم داعی ہیں، جس خدا اور رسول کو مانتے ہیں انہوں نے تو رواداری کا درس دیا۔ آں حضور کی ساری زندگی تحمل، برداشت اور رواداری سے عبارت ہے۔ من حیث القوم ہمیں کیا ہو گیا ہے، ےوم حساب ہم کیا جواب دینگے؟ مَیں انہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ بہاولپور سے میرا پی اے بلال بول رہا تھا۔ حج کیلئے قرعہ اندازی ہو رہی ہے کےا آپ کا نام بھی ڈال دیا جائے ؟
”ہاں“ مَیں نے مختصر سا جواب دیا۔
جب میں بہاولپور واپس پہنچا تو سب سے پہلی خبر جو مجھے سنائی گئی یہ تھی کہ میرا نام قرعہ اندازی میں نکلا ہے۔ خوشی کے ساتھ ساتھ فوراً ایک فکر بھی دامن گیر ہو گئی۔ لوگ کیا کہیں گے کمشنر تھا اس لئے نام تو نکلنا ہی تھا۔ گھبراہٹ میں مَیں نے سارے سٹاف کو طلب کر لیا۔ اس مجسٹریٹ کو بھی بلوایا جس نے قرعہ اندازی کرائی تھی۔ سب نے بیک آواز کہا کہ قرعہ اندازی منصفانہ تھی اور آپ کو اوپر سے بُلاوا آیا ہے۔ اس پر بھی میری تسلی نہ ہوئی اور مَیں نے خفیہ پولیس کے ایک انسپکٹرکی ڈیوٹی لگائی کہ وہ اپنے طور پر تحقیق کرے۔ تحقیق کے بعد اس نے رپورٹ دی کہ قرعہ اندازی ضابطہ کے مطابق اجلاس عام میں ہوئی ہے اور پہلی جماعت کے ایک بچے نے پرچی نکالی تو سب سے پہلے آپ کا نام نکلا۔ میری تسلی تو ہو گئی لیکن ایک بے نام سی خلش مجھے اب بھی بے چین کئے جا رہی تھی جب فائل آخری منظوری کیلئے میرے پاس آئی تو میں نے اس پر نوٹ لکھا کہ میری جگہ کسی اہلکار کو بھیج دیا جائے میں اپنا بندوبست خودکر لوںگا۔ اس پر آفس سپرنٹنڈنٹ نے جو جوابی نوٹ لکھا وہ خاصا سخت تھا۔ اس نے لکھا کہ قواعد و ضوابط سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ آپکی جگہ کسی دیگر شخص کو بھیجا جا سکتا ہے اور نہ آپکو یہ اختیار ہے کہ کسی کو نامزد کر سکیں۔ مَیں نے نوٹ پڑھ کر آسمان کی طرف دیکھا لبیک اللھم لبیک بے اختیار میرے منہ سے نکلا اور میں سجدہ ریز ہو گیا۔
جانے سے پہلے دعوتوں کا سلسلہ شروع ہُوا۔ ہر دعوت میں ہر ملاقات پر احباب، عزیز رشتہ داروں کا صرف ایک ہی مطالبہ ہوتا کہ روضہ رسول پر ان کےلئے دعا کی جائے۔ گڑگڑا کر عجز و انکسار کیساتھ، دست بستہ! یا مظہر العجائب! مَیں نے سوچا تُو نے یہ کیسا انسان کامل بھیج دیا ہے جس نے قلوب کو منورکیا، اذہان کو جلا بخشی، فکرکو آزاد کیا، بُتانِ رنگ و خوں کو پاش پاش کےا۔ زندہ رہنے کا سلیقہ سکھایا، مرنے کے آداب بتائے، آدمیت کو معراج بخشی۔ ثبوت حق بھی پیش کیا اور پیغام حق بھی ذہن نشین کرایا۔ وہ جوکاروان انبیاءکا قافلہ سالار تھا۔ وہ جو افواج دیں کا شہسوار تھا، جو علم و حکمت کا خزانہ تھا، وہ جو جرا¿ت و شجاعت کا سکندر تھا۔ پیکر جودو سخاءمرکز صدق و صفا، کتاب اللہ کی زندہ تفسیر، آسمان رسالت کے بدر منیر۔ چودہ سو برس بیت گئے، چودہ ہزار برس بیت جائینگے، چودہ لاکھ صدیاں گزر جائینگی اتباع رسول میں کمی نہیں آئےگی۔ عجز و عقیدت کے چشمے کبھی خشک نہیں ہونگے۔ کروڑوں اربوں انسان اپنی صبح کا آغاز ذات باری تعالیٰ کے بعد اسکے نام سے کرےنگے، اپنی شامیں اسکی یاد سے مشکبار کرینگے۔ ایک لاکھ احادیث امام بخاری کو زبانی یاد تھیں۔ جو انہوں نے کہا جو انہوں نے کیا، جو دیکھا جو محسوس کیا، جس پر خوش ہوئے، جس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ ماکولات، مشروبات، معمولات زندگی، اگر دو دندان مبارک شہید ہوتے ہیں تو لوگ اپنے جبڑے توڑ دیتے ہیں، اگر خون کا ایک قطرہ گرتا ہے تو لاکھوں اشک پیازی ہو جاتے ہیں ۔ موئے مبارک مرجع خلائق بن جاتا ہے، پاپوش تخت پوش چومتے ہیں۔ دریدہ کالی کملی جو عقیدت کا استعارہ بن گئی، مدینہ جو جذبوں کا نگینہ ہو گیا۔ آدم سے لیکر ایں دم ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر گزرے۔ شاہان پر غرور، سکندر و دار آئے اور پیوند خاک ہو گئے۔
لاکھوں سالوں میں اربوں انسانوں کے بیچ کیا کوئی ایسا پیدا ہوا ہے؟ چشم فلک حیراں ہے دھرتی نازاں ملائیک انگشت بدنداں ماورائے فہم و ادراک شہنشاہ لولاک دُر یتیم، اُمی جو مدینہ العلم تھا۔ سراسر حلم تھا۔ ماہر فن حرب تھا۔ سیّد المرسلین آں امام اولیں و آخریں۔
حج یقیناً مشکل عمل ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے انکی ہمت، استقامت، حوصلہ، خلوص اور نت کا، احرام، طواف حرم۔ سعی صفا و مروہ، منزل منیٰ عرفات و مزدلفہ، رمی، حلق، عبادات سفر در سفر، مادی فاصلے، روحانی مدارج، ایک بے نام سا خوف جو ہر امتحان کے وقت ذہن پر سوار رہتا ہے روح کانپ اٹھتی ہے، جسم لرزہ براندام ہو جاتے ہےں لیکن جو امتحان اسکے بندے خلق خدا کا لیتے ہیں وہ زیادہ کڑا اور جان گسل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ رحیم ہے رحمٰن ہے۔ درِ بخشش کبھی بند نہ ہوتا لیکن ان لوگوں کی لُغت میں معافی نام کا کوئی لفظ نہیں ہوتا، کوئی خانہ نہیں ہوتا۔ اس کارخیر کا آغاز تو محکمہ حج کرتا ہے اور انجام سراسر منطقی ہوتا ہے کار پردازان حج کی طرف سے ہمیں جو ہدایت نامہ ملا اس کا اگر تفصیلاً ذکرکیا جائے تو پھر شاید پوری کتاب لکھنی پڑے۔
قصہ مختصر ہم 12 فروری 2000 کو جب حج ٹرمینل کے مرکزی لاو¿نج میں پہنچے تو ایسے محسوس ہوا جیسے ایک برقی رو ہے جو چارسُو دوڑ گئی ہے ایک لہر ہے جس نے مکینوں کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے، ایک رعد ہے جس نے آنکھوں کو خیرہ کر دیا ہے جذبوںکو ز بان مل گئی ہے لبیک اللھم لبیک کی روح پرور آواز سے سارا ہال گونج اٹھا۔ فضا میں ایک ارتعاش پیدا ہو گیا۔ رنگ برنگے لباس تبدیل ہونا شروع ہو گئے۔ پھریوں لگا جیسے ایک دم بہت سے راج ہنسوں کے قافلے ہال میں اترگئے ہوں۔ سفید براق لباس ایک ہی رنگ ایک جیسی تراش خراش۔ لوگوں نے احرام باندھ لئے تھے اور خدام لم یزل کے حضور سجدہ ریز ہو رہے تھے دورکعت نفل جس کی تلقین ہدایت نامہ میں کی گئی تھی۔ میں نے بھی احرام باندھ لیا اور سربسجود ہو گیا جب دعا پڑھ کر سر اٹھایا تو ایسے محسوس ہوا جیسے اندر جمی ہوئی صدیوں کی برف کو کوئی آہستہ آہستہ توڑ رہا ہے، کائی کو کھرچ رہا ہے، کثیف شیشے کو صیقل کر رہا ہے۔ مجھے اپنا سارا وجود چٹختا ہوا محسوس ہوا۔ وہ کون تھا؟ کون ہو سکتا تھا جو مجھے اس کیفیت سے گزار رہا تھا وہی جو بادِ صبا کو خرام ناز سکھلاتا ہے۔ پھولوں کو رنگ اور خوشبو بخشتا ہے صبح کو نور عطا کرتا ہے، شام کی زلفیں سنوارتا ہے۔ انسان کی ہر سانس اور ہر حرکت کا حساب رکھتا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے جب چاہے کایا پلٹ دیتا ہے۔
پہنچے ترے حضور!
Dec 06, 2016