باب الاسلام میں راجہ داہر کی یاد کو دہرایا جانے لگا

اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں اسلام سے متصادم قوانین سازی زوروں پر ہے۔ آئین کے مطابق کوئی بھی قانون اسلام سے متصادم بنانے کی اجازت بالکل نہیں مگر ماضی قریب سے وفاق اور صوبوں میں بالخصوص پنجاب اور سندھ میں حکومتوں نے مختلف قوانین بنائے جو قرآن وحدیث کے صریح خلاف اور آئین سے متصادم ہیں۔چند روز پہلے سندھ اسمبلی نے ایک ایسا کالا و شرمناک قانون منظور کیا جو اسلامی تعلیمات اور احکامات کے مکمل منافی ہے۔ جس کے تحت زبردستی مذہب تبدیل کرنے اور شادی کرنے والوں کو7 اور سہولت کار کو5 سال قید ہوگی، بل کے مطابق18 برس سے کم عمر لڑکے اور لڑکی کے زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر پابندی ہوگی، زبردستی مذہب تبدیل کرکے شادی کرنا جرم تصور کیا جائیگا، بالغ شخص کو مذہب تبدیل کرنے کے بعد 21دن تک ”سیف ہاﺅس“ میں رکھا جائے گا، جہاں مذاہب سے متعلق مواد فراہم کیا جائے گا اور متعلقہ شخص کو مذہب تبدیل کرنے سے قبل چند روز سوچنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔اسلام مرضی سے قبول کیایا جبری اس کو طے کرنے کے لیے کیا عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔جب سے کراچی آپریشن میں دہشت گردوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سہولت کار کی اصطلاح متعارف کرائی ہے،سندھ اسمبلی نے بھی مذہب کی تبدیلی کے لئے سہولت کار کو بھی موجب سزا کا حقدار قرار دے دیا ہے اوریہ بھی نہیں بتایا گیا کہ سہولت کار سے کیا مراد ہے؟لگتا ہے قانون کی زد میں مولوی،پولیس اہلکاروں کے علاوہ دوست اورسہیلیاں بھی آنے والی ہیں۔اس بل کی اکثر شقیں ایسی ہیں جو واضح طور پر شریعت سے متصادم ہیں۔ایک اسلامی ریاست کو ہرگز اجازت نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے خلاف قانون سازی کرے. اس طرح کا قانون امریکہ، یورپ حتیٰ کہ انڈیا میں بھی نہیں ہوگا جو سندھ حکومت نے منظور کرلیا۔مذہب کی تبدیلی جیسے معاملات پر سندھ اسمبلی اور سندھ اسمبلی کے اراکین کی جانب سے پاکستان و اسلامی تاریخ کا متنازعہ ترین بل کا پاس کرنا ، ثابت کرتا ہے کہ”جمہوریت واقعی ایک ایسا نظام ہے جہاں بندوں کو گنا جاتا ہے ، تولا نہیں جاتا“۔ میرے عزیزساتھیو! آپ کس ملک کے ، کس صوبے کے ، کس شہر میں بیٹھ کر یہ توقع کررہے ہیں کہ وہ لوگ جنھیں وضو کا طریقہ بھی نہیں آتا ہوگا ، جنھیں سورةالاخلاص بھی پڑھنی نہیں آتی ، وہ اسلام کی قبولیت کیلئے ایسی قانون سازی کریں گے ، سندھ کی اس جماعت کی بات کررہے ہیں جس کے چیئرمین کی خواہش ہے کہ پاکستان کا وزیر اعظم غیر مسلم بننا چاہیے۔ سیکولر ازم اور لبرل ازم جن کا ایمان ہے، اسلام کی تاریخ سے جو واقف تک نہیںہے۔ دنیا کا ایک ایک بچہ جانتا ہے کہ اسلام قبول کرنے کیلئے عمر کی کوئی حد اسلام نے مقرر نہیں کی۔ایسے قوانین کا مقصد صرف اسلام کی ترویج و اشاعت روکنے کی کوشش کرنا ہے کیونکہ اس وقت اسلام واحد مذہب ہے جو تیزی سے دنیا بھر میں پھیل رہاہے۔ بڑی تعداد میں اسلام کی حقانیت سے غیر مسلم متاثر ہو کر اسلام قبول کر رہے ہیں، جس سے غیر مسلم طاقتوں کو کافی تکلیف لاحق ہے۔ان خوفزدہ طاقتوں، این جی اوز اور سندھ اسمبلی میں بیٹھے ہوئے غیر مسلم خصوصاً ہندو ارکان نے نومسلموں کے ساتھ تعاون اور ان کو سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے اداروں اور علماءکو ڈرانے کے لیے مذکورہ قانون پاس کیا ہے۔اگر ہم دوسرے اسلامی ممالک خصوصاً عرب ممالک کو دیکھیں تو وہاں پر اسلام کی تبلیغ اوراسلام قبول کرنے والوں کی راہنمائی اورتحفظ کے لیے باقاعدہ ادارے قائم ہیں، اگر سندھ گورنمنٹ یہ کام نہیں کرسکتی تو کم از کم اسلامی تعلیمات اور آئین پاکستان کا خیال تو رکھے اور اسلام قبول کرنے والوں کی راہ میںرکاوٹیں کھڑی نہ کرے سمجھ نہیں آتا کہ انھوں نے جن تعلیمی اداروں میں علم حاصل کیا ہے وہاں ان کو کلمہ طیبہ بھی پڑھایا گیا تھا کہ نہیں حیرت ہے اس قانون پرجسے سندھ اسمبلی میں بیٹھنے والوں نے منظور کرلیاکہ غیر مسلموں کو تحفظ دینا ریاست کی ذمے داری ہے جی بالکل! مگرجبری مذہب کی تبدیلی کی بھی اسلام اجازت نہیں دیتا،مسئلہ ہندو کا ہو یا عیسائی کا ، اگر ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کا ازالہ کرنا مقصود تھا تو اسلام قبول کرنے کی شرائط کس اسلامی قانون کے تحت عائد کی گئی ہے۔ ”سیف ہاﺅس“ میں21دن رکھنے کے بعد اس کو کونسا لٹریچر فراہم کیا جائے، ہندو مت کا ، عیسائیت کا ، اسلام کا یا پیپلز پارٹی کا منشور؟۔جب جبری تبدیلی کا تصور تک دین اسلام میں نہیں ہے۔ پھر سندھ حکومت کے پاس اس بات کا اختیار صرف اس لئے آگیا کہ وہ سندھ اسمبلی کی اکثریت جماعت ہے، اپنے عددی اضافی قوت سے کوئی بھی قانون منظور کرلے۔ تبدیلی مذہب انسان کا اپنا ذاتی عمل ہے۔ جبری تبدیلی مذہب پر قانون بنایا جاسکتا ہے ، اس کی سزا ، سزا موت بھی رکھی جاسکتی ہے۔ لیکن یہ کونسا قانون بنا دیا گیا ہے کہ جس کی عمر18 سال ہو اوروہ اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرےگا تو21دن اسے سیف ہاﺅس میں رہنا ہوگا اور مذہبی لٹریچر کا مطالعہ کرنا ہوگالیکن قانون میں یہ نہیں بتایاگیا کہ جن لوگوں نے اسلام قبول کرلیا اور ان پر ذات برداری والوں نے جبری تبدیلی کا جھوٹاالزام لگایا،ان کے خلاف کیاکارروائی ہوگی؟ کیونکہ جبری مذہب کے معاملے میں جب نو مسلم کے خاندان والے پولیس ، کورٹ کچہری کرتے ہیں تو اس سے ایک جانب توپوری دنیا میں اسلام کا امیج متاثر ہوتا ہے کیونکہ متعدد ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں کہ نو مسلم کے خاندان ، لڑکی یا لڑکے کے تبدیلی مذہب کو قبول نہیں کرتے اور جھوٹے مقدمات دائر کرکے نام نہاد این جی اوز کی مدد سے اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ان کے دعوے کے برخلاف متعدد نو مسلم جوڑوں نے عدلیہ میں بلا خوف اقرار کیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئے ہیں ، تو کیا اسلام کو بد نام کرنے والوں کے خلاف اور ان کے سہولت کار این جی اوز یا اراکین اسمبلی کے خلاف قانون میں کوئی شق رکھی گئی ہے ہم پاکستان میں رہتے ہیں ، جسے حاصل کیا گیا اسلام کے نام پر ، لیکن اسلامی کے ساتھ جمہوریت کا طوق بھی اس کے گلے میںڈال دیا۔اسلام تو خود ایک مکمل دین ہے اس میں کسی دوسرے نظام کو ضم کرنے کا مطلب اسلام کی اصل روح و قوانین میں شرک کرنے کے مترادف ہے۔

ای پیپر دی نیشن