احتساب میں بڑی رکاوٹ ہمارا نظام

Dec 06, 2016

ایم اے سلہری

پاکستان کے سنجیدہ حلقوں میں اس حوالے سے شدید اضطراب پایا جاتا ہے کہ جس ملک کی نصف سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اس ملک کی اشرافیہ میں ایسے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو نہ صرف قاتل، ٹیکس چور اور بھتہ خور ہیں بلکہ بڑے بڑے مناصب پر فائز رہنے کے باوجود ملکی خزانے اور ٹیکس گزار عوام کو اربوں روپے کا چونا لگا کر دوبئی اور لندن میں بیش قیمت جائیدادیں بنا لیتے ہیں مگر انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سوال لامحالہ ذہن میں بے چینی پیدا کرتا ہے کہ آخر ان کرپٹ عناصر کا محاسبہ کیوں ممکن نہیں۔ بغور دیکھا جائے تو ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ کہ نہ صرف نظام کرپٹ ہے اور احتساب کا ادارہ ان لوگوں کے ماتحت ہے جو خود قابل احتساب ہوتے ہیں بلکہ لگتا ہے کہ ہر کوئی اس فرسودہ نظام کی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور یہ نظر نہیں آتا کہ سیاست سے وابستہ طبقہ کرپشن کے خاتمے میں مخلص ہے ملک میں جو نظام حکومت رائج ہے اسے پارلیمانی نظام کہا جاتا ہے حالانکہ یہ کسی صورت بھی پارلیمانی نظام نہیں بلکہ یہ پرائم منسٹریل سسٹم ہے۔ ہمارے ہاں پارلیمان میں جو قانون سازی ہوتی ہے وہ ملک کے انتظامی سربراہ کی مرضی و منشا کے مطابق ہوتی ہے جبکہ پارلیمانی نظام کیلئے لازم ہے کہ پارلیمان انتظامیہ کی ڈکٹیٹوریل اتھارٹی سے آزاد ہو۔ بہرحال یہ الگ بحث ہے، آج کے کالم میں یہ دیکھنا ہے کہ اس نظام میں احتساب کیوں ممکن نہیں۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں امیدواروں کو کتنی خطیر رقوم خرچ کرنا پڑتی ہیں اور ووٹر کو ساتھ رکھنے کیلئے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں اور ان کی ماہانہ تنخواہوں سے اس نقصان کی تلافی ممکن نہیں ہوتی جبکہ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کیلئے ہائوس میں اکثریت برقرار رکھنا لازم ہوتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ کسی بھی مرحلے پر اراکین اسمبلی کی ناراضگی کے متحمل نہیں ہو سکتے بلکہ اراکین کو خوش رکھنا انکی مجبوری ہے کیونکہ اگر انہیں ہائوس میں اکثریت حاصل ہے تو وہ محفوظ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئین کی روح سے متصادم اور بدنیتی پر مبنی قانون سازی کوعدلیہ کالعدم قرار دے سکتی ہے مگر جب مقننہ انتظامیہ کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے آئین کی روح کے منافی قوانین بناتی رہے تو ایسے حالات میں عدلیہ کس کس قانون کا ازخود جائزہ لے سکتی ہے اور ویسے بھی آئینی ترامیم کے ذریعے جس انداز سے ججوں کے تقرر سے متعلق جوڈیشل کمیشن میںسیاسی اور انتظامی عہدیداروں کو انسٹال کر کے آٹھ اراکین پارلیمان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کو ججوں کے تقرر میں مخل ہونے کا موقع فراہم کیا گیا ہے یہ عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی کوشش کے مترادف ہے حالانکہ اصولی طور پر عدلیہ کو سیاست کے سائے سے بھی محفوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ سیاست اور عدالت دو مختلف شعبے ہیں۔ عدالت عدل کرتی ہے اور عدل بے لوث ہوتا ہے جبکہ سیاست میں ’’کچھ دو اور کچھ لو،، ہوتا ہے۔ لہٰذا سب کا احتساب یقینی بنانے کیلئے نہ صرف عدلیہ کی آزادی آئین کی روح کیمطابق ضروری ہے بلکہ مجلس قانون ساز کا بھی انتظامیہ کے چنگل سے آزاد ہونا لازمی ہے۔ اس تناظر میں اگر پانامہ ایشو اور ڈان نیوز کے حوالے سے سیاسی حلقوں کے رویوں پر غور کیا جائے تو عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ احتساب کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارا نظام ہے۔ اب جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان پانامہ لیکس کا معاملہ ٹیک اپ کر چکی ہے حکومت نے اپوزیشن کے بل کو نظر انداز کر کے اپنی اکثریت کی بنا پر قومی اسمبلی سے پاکستان کمیشن آف انکوائریز بل 2016ء منظور کروا لیا ہے۔ حکومت اب سپریم کورٹ کے آئینی اختیارکو محدود کرنے کی غرض سے آئینی ترمیم کے ذریعے انٹراکورٹ اپیل متعارف کروانے پر بھی غور کر رہی ہے۔ چونکہ چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت پیپلز پارٹی سے ’’کچھ دو اور کچھ لو،، کی بنیاد پر معاملات طے شدہ ہیںلہٰذا یہ دستاویز خود پیپلز پارٹی کیلئے اپوزیشن کے کردار کی نسبت زیادہ اہم ہے یہی وجہ ہے کہ انکے قائد نے یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ معاملہ سپریم کورٹ ٹیک اپ کر چکی ہے جمہوری احتساب کا شوشہ چھوڑ دیا ہے اور ساتھ ہی انکے مرکزی رہنما احتساب براستہ پارلیمان کی بات کر رہے ہیں حالانکہ جانتے ہیں کہ عددی اکثریت حکومت کے پاس ہے۔ جمہوری احتساب کا مطلب ہے کہ معاملہ عوام پر چھوڑ دیا جائے آئندہ انتخابات میں وہ خود احتساب کر لیں گے جبکہ احتساب براستہ پارلیمان کا مطلب اسکے سوا کچھ نہیں کہ معاملہ اس منتخب پارلیمان پر چھوڑ دیا جائے جہاں اپوزیشن کی نہیں حکومت کی اکثریت ہے۔ اور یہ سب کچھ اس لئے کیا جا رہا ہے کہ اگر حکمران خاندان کا احتساب ہوتا ہے تو کسی اور کے بچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ مگر ساتھ ساتھ چار مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے گو نواز گو تحریک کی دھمکی دے رکھی ہے۔ صاف ظاہر ہے عوام کو بھی کوئی منہ دکھانا ہے اور اس دھمکی کا مقصد فیس سیونگ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ جہاں تک ڈان نیوز گیٹ کا تعلق ہے تو اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ خود حکومت کے مطابق خبر من گھڑت تھی یہی وجہ ہے کہ کسی حد تک کوتاہی برتنے پر حکومت اپنے وفاقی وزیر اطلاعات کو وزارت سے علیحدہ کر چکی ہے اور اس میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں کہ خبر کے متن کے پیش نظر معاملہ آرمی ایکٹ کے دائرہ کار میں آتا ہے مگر ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل بھی حکومت نے غیر معمولی تاخیر سے خود ہی کی حالانکہ انصاف وہ ہے جو ہوتا ہوا نظر بھی آئے اور یہ قومی اداروں کی آزادی کے بغیر ممکن نہیں۔ ایک مفلوج اور ماتحت پارلیمان عوام کی کوئی خدمت نہیں کر سکتی یہی وجہ ہے کہ ہماری منتخب پارلیمان عوام کی امنگوں کی بجائے انتظامیہ کے اشاروںکی پابندی پر مجبور ہے۔ اور موجودہ پارلیمانی نظام پارلیمان کو انتظامیہ کی گرفت سے آزاد کرنے میں بُری طرح ناکام ہے۔اگر چاہتے ہیں کہ لوٹ کھسوٹ، اقربا پروری، غربت ، بیروزگاری اور بدامنی کی بجائے امن و خوشحالی ہو تو بے رحم انصاف اور احتساب ضروری ہے جس کیلئے اس فرسودہ نظام کو بدلنا ہو گا۔

مزیدخبریں