سلام اس پر

ربیع الاول کا مبارک مہینہ کیا آیا عاشقوں کے مرجھائے ہوئے چہروں پر بہار آ گئی۔ محبوب کی آمد کے مہینے نے ہر طرف رنگ و نور کی محفل سجا دی۔ ہمارے آقاؐ تشریف لائے تو انسانیت کی لوحِ تقدیر پہ لکھی ہوئی تحریر بدل گئی۔ کراہتی ہوئی انسانیت کو سکون مل گیا۔ ڈوبتوں کو کنارا مل گیا۔ یتیموں کو ملجا مل گیا۔ ضعیفوں کو ماوا مل گیا۔ مسجد نبویؐ کو منارہ مل گیا۔ بھٹکے ہوئوں کو سیدھا راستہ مل گیا۔ بی بی حلیمہؓ کو راج دلارہ مل گیا۔ بی بی آمنہؓ کو آنکھ کا تارا مل گیا اور ذروں نے کہا ہمیں ستارہ مل گیا۔

سلام اس پر جس کے آنے سے نماز کو سرور مل گیا۔ جبینوں کو سجدہ مل گیا۔ سجدے کو تقدس مل گیا۔ بے قراروں کو قرار مل گیا، بے سہاروں کو سہارا مل گیا۔ عاصیوں کو اکرا ممل گیا اور متقیوں کو انعام مل گیا۔ آپ یوں کہہ لیں نبیوں کو امام مل گیا۔ امت کو شریعت مل گئی۔ انسانیت کو سایہ رحمت مل گیا۔ سخیوں کو سخاوت مل گئی، عابدوں کو عبادت مل گئی، ولیوں کو ولایت مل گئی۔ بے نوائوں کو نوا مل گئی، مظلوموں کو حمایت مل گئی، کمزوروں کو طاقت مل گئی غلاموں کو حکومت مل گئی
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا
گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں
سلام اس پر ان کی تشریف آوری پر کسی نے کہا پیغمبرؐ آ گئے کوئی بولا رسولؐ آئے۔ سلام اس پر ان کی آمد فقط ایک نبی کی آمد نہیں ختم نبوت کی تنویر آئی۔ لوح و قلم کی تحریر آئی۔ رحمت کی تدبیر آئی۔ عبدالمطلب کے خوابوں کی تعبیر آئی اور قرآن مجید کی تفسیر آئی۔ سلام اس پر جس کی آمد سے ہم جیسے عاصیوں کو بخشش کی نوید آئی۔
ربیع الاول کی بارہ تاریخ عاشقوں کی خوشی کا دن ہے۔ چودہ سو سال سے یہ دن عقیدت، محبت اور وافتگی کی مرکز ہے یہ دن انسانیت کی معراج کا دن ہے۔ اسی دن کی مناسبت سے عشاق اپنے محبوب اپنے قائد اپنے آقا کی محافل سجاتے ہیں۔ آقا کی سیرت بیان کی جاتی ہے۔ درود پاک کروڑوں کی تعداد میں پڑھا جاتا ہے اور نعت نبویؐ کا اہتمام ہوتا ہے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری نے کیا خوب نعت کہی ہے۔
سلام اے آمنہ کے لال اے محبوبِ سبحانی
سلام اے فخر موجودات فخرِ نوع انسانی
سلام اے ظل رحمانی، سلام اے نور یزدانی
ترا نقش قدم ہے زندگی کی لوحِ پیشانی
خدا کے جتنے احسان اولاد آدم پر ہیں ان میں سب سے بڑا احسان ظہور محمدیؐ ہے اور اولاد آدم پر ہی کیا یہ احسان ساری کائنات پر ہے۔ لولاک لما خلقت الافلاک۔ محمد بن عبداللہ محسن اعظم ہی نہیں خود احسان اعظم بھی ہیں۔ ذات محمدیؐ کا ظہور کون و مکاں کی تخلیق کا نقطہ عروج ہی نہیں بلکہ منتہائے مقصود بھی ہے۔ ذات محمدیؐ الطاف ایزدی کی سب سے بڑی مظہر ہے۔ وہ بجائے خود ایک رحمت ہے، سب سے بڑی رحمت، جس کے بغیر زندگی اور کائنات کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ غالب کیا خوب کہہ گئے ہیں
ہر کجا ہنگامہ عالم بود…رحمتہ للعالمینی ہم بود
آج ہم مسلمانوں کی سب سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ ہم نے سیرت رسولؐ کو بالائے طاق رکھ دیا ہے اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اس مثالی سیرت کی رہنمائی سے محروم ہو گئے ہیں۔ غور فرمائیے کہ صداقت اور امانت وہ صفات ہیں جو رسالت مآب میں بعثت سے قبل موجود تھیں اور جن کے دوست دشمن سب قائل تھے اردو نعت میں مولانا الطاف حسین حالی کی مسدس کے حرف سونے سے لکھنے چاہئیں۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولا
ان اشعار میں کوئی تکلف، کوئی مبالغہ آرائی، کوئی طباعی، کوئی صنعت گری نہیں۔ مگر جو تاثر ان میں موجود ہے ان کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ حضور اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ ساری مخلوق خدا کا کنبہ اور خدا کو سب سے عزیز وہ انسان ہے جو خلق خدا کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچائے۔ حالی کا یہ شعر اسی حدیث اور صاحب حدیث کی تصویر ہیں اور اس قدر پراثر ہیں کہ انسان کی ساری زندگی کا رخ بدل سکتی ہیں۔ میرے والد گرامی حضرت محمد امین بٹ القادری کو یہ اشعار بہت پسند تھے پسند کیوں نہ ہوتے وہ عاشق رسولؐ تھے۔ ان اشعار کی پسندیدگی ان کی روحانی پاکیزگی کی آئینہ دار ہے۔ ان کی زندگی سراپا خلوص تھی اور جب تک کسی انسان کی زندگی سراپا خلوص نہ ہو حضور رسالت مآب سے کسی قسم کے قلبی تعلق کا پیدا ہونا ناممکن ہے۔
سلام اس پر جس کے عاشق میرے ماں باپ تھے انہوں نے ہی مجھے یہ بتایا کہ اگر آقاؐ غریبوں کی مدد کرنے والے تھے تو غلام کو بھی غریبوں کی مدد کرنے والا بنانا پڑے گا۔ اپنے آقاؐ کے لقب ’’رحمت‘‘ کی لاج رکھتے ہوئے انسانیت کے لئے رحمت ہی رحمت بنانا پڑے گا۔ مصیبت میں اپنوں ہی نہیں غیروں کے کام آنے والے کی سنت پر عمل کرنا پڑے گا۔ فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ، یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰ، صدقے اپنے آقا پر سلام اپنے آقا پر ان کی سنت پر عمل کرنا دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے۔ میں غلام ابن غلام سنت پر عمل تو نہ کر سکا لیکن نقل اتارنے کی پوری کوشش کی۔ مجھے یقین ہے ہم میں ہر انسان اگر نقل کرنا شروع کر دے تو تمام مسائل خود ہی حل ہو جائیں اور دنیا جنت بن جائے۔ سلام اس پر جن کی غلامی ہمارے لئے باعث فخر ہے۔!!!

ای پیپر دی نیشن