سیاستدان اقتدار کی ہوس میں ملک کی تاریخ مسخ نہ کریں

Dec 06, 2017

امیر محمد خان

اس بات سے قطعہ نظرکہ میاں نواز شریف پر لگائے گئے کرپشن کے الزامات کہاں تک ٹھیک ہیں یا غلط، انہیں نا اہل قرار دیا جانا بقول میاں صاحب کسی سازش کا نتیجہ ہے، یا عدالتوںکے فیصلے صحیح ، اس بات سے قطع نظر کہ میاں صاحب نے عوامی حمائت سے تین دفعہ مسند اقتدار سنبھالا یا ان کے سیاسی برادر آصف علی ذرداری کے بقول انہیں اقتدار دیا گیا، اس بات سے قطع نظر کہ ’سی پیک ‘ پی پی پی کی حکومت نے شروع کیا یا میاں صاحب نے اسے پاکستان کے بہتر مستقبل کیلئے پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے محنت کی ، اس بات سے قطعہ نظر کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں ذولفقار علی بھٹو سے لیکر ایٹمی دھماکے ہونے تک آنے والی حکومتیں افواج پاکستان کی مدد سے تمام شامل رہیں، ان کارناموں پر دونوں جانب کی سوچ رکھنے والے کتابیں تحریر کر سکتے ہیں جس میں میاں صاحب کی تینوں حکومتوں پر الزامات بھی لگا سکتے ہیں اور ان کارناموںپر بے شمار کتابیں ان کی تعریف میں بھی لکھی جاسکتی ہیں، مگر پاکستان سے محبت کرنے والوں کو صرف اقتدار کی خاطر ایسے لوگوں سے اتحاد جو پاکستان کی اساس کے خلاف ہی رہے، اس کی ایک تاریخ ہے اس تاریخ کو پس پشت ڈالتے ہوئے انہیں (خدا ناخواستہ) بانی پاکستان حٖضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی پالیسیوں اور جدوجہد سے مماثلت قرار دینا دراصل ایک بڑا جرم ہے جو کسی بدعنوانی، کسی پنامہ، اقامہ کے معاملات سے کہیں سنگین ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ایک طرف خان عبدالغفار خان ، دوسری طرف خان عبدالصمدخان اچکزئی کی کیا پالیسی تھی، دونوںنے اپنے آپکو ’ سرحدی گاندھی ‘ اور ’بلوچی گاندھی‘ کہلانا پسند کیا تاکہ قائد اعظم کے مقابلے پر گاندھی کی منفی مہم، جو یقینا قیام پاکستان کے خلاف تھی کم از کم گاندھی کا نام ہی اپنے ساتھ لگ جائے ۔ ہمارے سیاست دان اور سیاسی جماعتیں اقتدار کی خواہش اور نشے میں اتنے مدہوش ہوچکے ہیں کسی سے بھی اتحاد کرتے وقت اس کا ماضی نہیں دیکھتے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو ہمارے ادارے صرف مالی کرپشن کو روکنے کیلئے روزآنہ مقدمے بازی، بیانات دے سکتے ہیں، تو سرحدوں، اور پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرنے والوں کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے قاصر کیوں ہیں؟ وجہ اسکی یہ نظر آتی ہے ’’حمام تو ایک ہی ہے ‘‘۔ شاباش ہے الیکشن کمیشن کو جو تاریخ کو جانتے ہوئے بھی ایسی سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیتا ہے۔ نیز شاباش ہے تمام سیاسی جماعتوںکو جو کسی ایسی جماعت کی رجسٹریشن پر اعتراض نہیںکرتے جو پاکستان کے وجود کے ہی خلاف ہو، جوکام میاںنواز شریف اقتدار سے علیحدگی کے بعد کر رہے ہیں اپنے بیانات کے ذریعے وہ ان سرحدی گاندھیوں سے تعلق رکھنے والی جماعتیں پہلے سے کررہی ہیں، ان میں سے ایک رہنمانیء تو پاکستان میں دفنایا جانا بھی پسند نہیں کیا اور اپنی تدفین پڑوسی ملک میں کی۔ 

میرے نزدیک ایک سنگین ترین جرم ہے چونکہ ہم اپنی نسل کو ایک غلط تاریخ بتا رہے ہیں صرف قومی اسمبلی کی تین نشستوںکی حمائت حاصل کرنے اور بلوچستان اسمبلی کی دس نشستوں کی خاطر، پاکستان کی تاریخ ، قائد اعظم کے افکار کے دفاع میں تو تمام اسمبلی بھی قربان ہوجائے تو کم ہے چونکہ یہ لوگ پاکستان کے عوام کے ٹیکسوں کی کمائی کو ہی لوٹ رہے ہیں ، اور بغیر کسی قانون سازی کے کروڑوں روپے اڑا رہے ہیں، قانون سازی بھی ایسی جس پر پوری قوم ایک سراپا سوال بن جائے، اور کسی بھی قانون کا منظور ہونے کے بعد متنازع ہونا بھی ضروری ہے، متنازع قوانین بنانا بھی ’’جمہوریت‘‘ کا حسن ہے ، یہ بھی پہلی مرتبہ سنا ہے۔ بہرحال میاں نواز شریف جیسے شخص سے خان عبدالصمد خان اچکزئی کی سوچ اور مسلم لیگ کی ( یعنی قائد اعظم کو سوچ ) میں ہم اہنگی قرار دینا کا بیان یقینی طور پر تمام محب وطن افراد کیلئے ایک دکھ کی بات ہے ، اس پر صبح شام قانون اور پاکستان کی تاریخ کا درس دینے والوں کی خاموشی مزید تکلیف کا باعث ہے۔ ہم پہلے ہی اندرونی طور پر تباہ ہوچلے ہیں اب اپنی تاریخ کو مسخ کرکے جدوجہد آزادی کے شہداء کی روح کو تکلیف دینے کا اہتمام کیوں اور کس لئے ؟

مزیدخبریں