لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن عدالتی انکوائری رپورٹ منظر عام پرلانے کا حکم دیدیا۔ فاضل عدالت نے حکومت پنجاب اور نامزد ملزم پولیس افسروں اور اہلکاروں کی اپیلیں مسترد کر دیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں جسٹس شہباز علی رضوی اور جسٹس قاضی محمد امین پر مشتمل فل بنچ نے تین اپیلوں کا فیصلہ سنایا۔ عدالتی فیصلہ 101 صفحات پر مشتمل ہے۔ فاضل عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون کے متاثرین کو جسٹس علی باقر نجفی کی عدالتی انکوائری رپورٹ فوری طور پر فراہم کی جائے۔ عدالت نے حکومت پنجاب کو سانحہ ماڈل ٹائون کی عدالتی انکوائری رپورٹ 30 یوم میں مشتہر کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ انکوائری رپورٹ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سانحہ ماڈل کے زیر سماعت کیس پر اثر انداز نہیں ہو گی اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ٹرائل شفاف ہو اور ٹرائل پر رپورٹ اثر انداز نہ ہو۔ اس سے قبل لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل سنگل بنچ نے سانحہ ماڈل ٹائون عدالتی انکوائری رپورٹ جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔ حکومت پنجاب کے علاوہ نامزد پولیس افسران اور اہلکاروں نے سنگل بنچ کے فیصلے کو فل بنچ کے روبرو چیلنج کیا تھا۔ تین مختلف اپیلوں میں موقف اختیار کیاگیا تھا کہ سنگل بنچ نے یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹائون کی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دیا۔ رپورٹ کے پبلک کرنے سے امن و امان کے مسائل پیدا ہوں گے۔ عدالتی فیصلہ سنتے ہی عوامی تحریک کے کارکنان نے کمرہ عدالت سے بایر نکلتے ہی پرجوش انداز میں حکومت مخالف اور عدلیہ کے حق میں نعرے بازی کی۔ متاثرین کے کچھ ورثاء نے سجدہ شکر ادا کیا۔ اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے تحت ابھی ہوم سیکرٹری کے پاس جا کر رپورٹ حاصل کی جائے گی اگر یہ رپورٹ نہ دی گئی تو سیکرٹریٹ کے سامنے دھرنا دیا جائے گا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سانحہ کے مرکزی ملزم وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو گرفتار کیا جائے۔احاطہ عدالت میں اپوزیشن لیڈر میاں محمودالرشید، تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اعجاز چوہدری اور عوامی تحریک کے وکیل ایڈووکیٹ محمد اظہر صدیق، ادارہ منہاج القرآن کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالتی فیصلے سے قانون کی بالادستی ہوئی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے خون سے ہاتھ رنگنے والے اب جلد قانون کی گرفت میں ہوں گے۔
لاہور (شہزادہ خالد) لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر پنجاب حکومت کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق جسٹس علی باقر نجفی کی رپورٹ پبلک کر دی گئی جس کے مطابق پنجاب حکومت کی جانب سے 17 جون 2014ء کی ماڈل ٹاؤن میں واقع منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے حوالے سی کی گئی کارروائی غیر قانونی تھی۔ رپورٹ 132 صفحات پر مشتمل ہے۔ جس کے مطابق پنجاب حکومت کے معصوم ہونے پر شبہ ہے۔ جسٹس باقر نجفی نے رپورٹ میں کہا ہے کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے عوامی تحریک کے حامیوں سے نمٹنے کیلئے فری ہینڈ دیا تھا۔ جس میں 14 افراد جاں بحق اور 90 سے زائد زخمی ہوئے پنجاب کے سابق وزیر قانون رانا ثناء اور نہ ہی وزیر اعلی کے سابق پرنسپل سیکرٹری، ڈاکٹر توقیر شاہ نے کمشن کو بیان دیا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ منہاج القرآن کے کارکنوں نے پولیس پر پتھر پھینکا جس کے بدلے میں پولیس نے کارکنوں میں فائرنگ کی۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ پولس نے پنجاب حکومت کے احکامات کی پیروی کی۔ رپورٹ کے مطابق منہاج القرآن انٹرنیشنل سیکرٹریٹ کے باہر رکاوٹیں قانونی تھیں۔ جنہیں ہٹانے کیلئے پولیس نے کارروائی کی۔ رپورٹ کے صفحہ 65 پر درج ہے طاہر القادری کی جانب سے 23 جون 2014ء کو لاہور سے راولپنڈی لانگ مارچ کے اعلان کے بعد رانا ثناء وزیر قانون پنجاب نے سخت مؤقف اختیار کیا اور اجلاس میں بتایا کہ وہ ہرگز لانگ مارچ نہیں ہونے دینگے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے behalf پر ڈاکٹر توقیر نے منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے گرد سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دیا۔ رکاوٹیں قانونی تھیں کیونکہ ہائیکورٹ نے اپنے حکم نامہ ICA No.155/2011 کے تحت رکاوٹوں کو قانونی قرار دیا تھا۔ ٹی ایم اے گلبرگ ٹاؤن اور زون II کے ٹی ایم اوز رات کے وقت موقع پر گئے اور 16 جون کی رات رکاوٹیں ہٹانے گئے۔ کارکنوں نے پتھر پھینکے جس کے بعد پولیس نے سیدھی فائرنگ شروع کر دی پولیس اہلکاروں کی جانب سے کسی نے بھی اس شخص کی نشاندہی نہیں کی جس کے حکم پر فائرنگ کی گئی۔ رپورٹ میں میڈیا کے نمائندوں کا بھی شکریہ ادا کیا گیا جن کی وجہ سے رپورٹ مرتب کی جا سکی اور حقائق سامنے آ سکے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت کے لائزن آفیسر اسد اللہ فیض ایڈیشنل سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ نے تیز رفتاری سے ثبوت فراہم کئے دو رجسٹرار جواد الحسن ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اور صادق مسعود صابر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اور دوسرے ممبران نے دن رات کام کیا جس کی وجہ سے انکوائری ٹربیونل رپورٹ بنانے میں کامیاب ہوا۔ رپورٹ میں انٹرسروسز انٹییلی جنس، آئی بی اور سپیشل برانچ کی شہادتیں بھی نوٹ کی گئی ہیں۔ آئی ایس آئی کی جانب سے بھی شواہد حاصل کئے گئے جن کا حوالہ رپورٹ کے صفحہ 40 پر درج کیا گیا ہے رپورٹ میں درجنوں پولیس اہلکاروں اور افسران کے بیان حلفی بھی منسلک کئے گئے ہیں۔ عینی شاہدین اور زخمیوں کے بیانات بھی درج کئے گئے۔ آئینی ماہرین کے مطابق رپورٹ ہر لحاظ سے مکمل اور جامع ہے اور تمام قانونی تقاضے پورے کئے گئے ہیں۔
لاہور (نوائے وقت رپورٹ+دی نیشن رپورٹ) جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ کمشن نے ازخود تفتیش کی کسی پر ذمہ داری نہیں ڈالی۔ رانا ثناء اللہ‘ ڈاکٹر توقیر اور شہباز شریف کے فون کا ڈیٹا آئی ایس آئی نے دیا۔ پنجاب حکومت نے پولیس کو کمشن کی رپورٹ مسترد کرنے سے منع کیا۔ سپیشل برانچ‘ آئی بی اور آئی ایس آئی نے الگ الگ رپورٹس کمشن کو دیں۔ ٹربیونل رجسٹرار سمیت منہاج القرآن گیا اور 43 منٹ تک جائے وقوعہ کا معائنہ کیا۔ کمشن کو پولیس کے ذریعے تفتیش کرانے کا اختیار حاصل تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر منہاج القرآن کے باہر رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دیا گیا۔حکومتی اجلاس کے شرکاء عدالتی فیصلے سے آگاہ تھے۔ عدالتی فیصلے کے باوجود سانحہ ماڈل ٹائون کا ہونا افسوسناک ہے۔ ٹی ایم اے عملہ 10 جون 2014ء کو تجاوزات کیخلاف آپریشن کیلئے گیا۔ منہاج القرآن کے مشتعل مظاہرین نے پتھرائو کیا۔ مظاہرین کے ردعمل پر پولیس نے فائرنگ کی۔ پولیس فائرنگ سے مظاہرین جاں بحق‘ زخمی ہوئے۔ غیر مسلح مظاہرین کے خلاف پولیس کی کارروائی غیر سنجیدہ تھی۔ سانحہ میں کسی پولیس افسر کی ہدایت دینے کا پتہ نہیں چلا۔ پولیس افسروں نے دانستہ طور پر ٹربیونل سے معلومات چھپائیں۔ حقائق چھپانے پر پولیس کا رویہ سچائی کو دفن کرنے کے مترادف ہے۔ ٹربیونل کو کیس کی تہہ تک جانے کیلئے مکمل اختیارات نہیں دئیے گئے۔ وزیرقانون کے تحت اجلاس میں کارروائی کا فیصلہ ہوا۔ وزیراعلیٰ کے نمائندے ڈاکٹر توقیر نے رضامندی ظاہر کی۔ اجلاس کے شرکاء 2011ء کے عدالتی فیصلے سے آگاہ تھے، آپریشن پر ایڈووکیٹ جنرل کی رائے نہیں لی گئی۔حکومت کی سچائی جاننے کی نیت ٹھیک نہیں تھی۔ سانحہ سے پہلے خان بیگ کو آئی جی پولیس کے عہدے سے ہٹایا گیا۔ غیر مسلح مظاہرین کیخلاف پولیس کی کارروائی غیر سنجیدہ تھی۔ سانحہ میں کسی پولیس افسرکی ہدایت دینے کا پتہ نہیں چلا۔ سانحہ سے قبل ڈی سی او لاہور کو بھی عہدے سے ہٹایا گیا۔ رانا ثناء اللہ، ڈاکٹر توقیر اور پولیس افسر سانحہ ماڈل ٹائون میں معصوم نہیں، پولیس کی خاموشی سے لگ رہا تھا انہیں صرف حکم پر عمل کرنا تھا۔ پولیس نے عوامی تحریک کے کارکنوں سے زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کیا۔رانا ثناء اللہ، طاہرالقادری کو سیاسی مقاصد پورا کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتے تھے۔ وزیرقانون پنجاب رانا ثناء اللہ کے اجلاس کا فیصلہ ہلاکتوں کا سبب بنا۔ پولیس افسران نے وہی کیا جس کیلئے انہیں بھجوایا گیا تھا۔ فائرنگ کس کے حکم پر کی‘ پولیس افسر بتانے سے گریز کرتے رہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون پر کسی پولیس اہلکار نے ایک لفظ نہیں بتایا، تمام پولیس افسر انکوائری میں ایک دوسرے کو بچاتے رہے۔آئی ایس آئی نے سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے ٹربیونل کو رپورٹ میں کہا کہ پولیس کو 17 جون کی رات منہاج القرآن کے بیرئیر ہٹانے کا سخت حکم ملا۔ پولیس پہنچی تو منہاج القرآن کے کارکنوں نے پتھرائو کیا ایک سب انسپکٹر نے تین ہوائی فائر کئے جس سے کارکنوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ آئی ایس آئی کے سب انسپکٹر نے سیکرٹری ٹو سی ایم کو فون کیا تو جواب ملا وہ کچھ نہیں جانتے سیکرٹری ٹو سی ایم کا کہنا تھا طبیعت ٹھیک نہیں آج دفتر بھی نہیں جائیں گے پولیس کی فائرنگ سے دس لوگ ہلاک‘70 زخمی ہوئے50 کو فائر لگے رانا ثناء اللہ ڈٹے رہے بلکہ طاہرالقادری کو ان کے مقاصد پورے نہیںکرنے دیں گے۔ سانحہ میں کہیں بھی پولیس کی کمانڈ نظر نہیں آتی سانحے سے پہلے آئی جی اور ڈی سی او بدلنے سے شبہ ظاہر ہوتا ہے۔رانا ثناء اللہ اور سیکرٹری داخلہ نے وزیراعلیٰ کے حکم کا ذکر نہیں کیا طاہرالقادری کے گھر کی چھت سے گارڈز کی فائرنگ پر وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ منہاج القرآن کے گارڈ نے چھت سے فائرنگ کی جس سے دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے زخمی اہلکاروں کی اطلاع ملنے پر پولیس مشتعل ہوگئی۔ رپورٹس، پولیس افسران کے حلف نامے عکاسی کرتے ہیں وزیراعلیٰ نے پولیس ہٹانے کا حکم دیا ۔ پولیس، حکومتی مشینری نے بغیر کسی خوف کے آپریشن کیا حکومت پنجاب کے تمام ارباب اختیار کے معلوم ہونے پر قوی شبہ ہے حکومت پنجاب کے تمام ارباب اختیار کی سرد مہری اور لاپرواہی نظر آتی ہے۔دی نیشن کے مطابق جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ میں سانحہ ماڈل ٹائون کے ذمہ داروں کے حوالے سے وزیرقانون رانا ثناء اور پولیس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تاہم کسی کو براہ راست ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جبکہ پنجاب حکومت نے رپورٹ پبلک کرنے کے عدالتی فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے کمشن نے رپورٹ پولیس اہلکاروں کے بیانات انتظامی افسروں کے بیانات میں رانا ثناء اللہ بھی شامل ہیں اور وزیراعلیٰ کی طرف سے دئیے جانے والے بیان حلفی کی روشنی میں تیار کی رپورٹ دو صفحوںپر مشتمل ہے پہلے حصے میں 74 صفحات جبکہ دوسرے میں 54 صفحات ہیں۔ آئی این پی کے مطابق ماڈل ٹان آپریشن کی منصوبہ بندی وزیر قانون پنجاب کی نگرانی میں ہوئی۔ سانحہ ماڈل ٹان سے ایک روز پہلے یعنی 16 جون 2014 کو وزیرقانون رانا ثنا اللہ کی زیر صدارت سول سیکرٹریٹ میں اجلاس ہوا، اس وقت کے سی سی پی او لاہور چوہدری شفیق گجر اور وزیر اعلی پنجاب کے سیکریٹری توقیرشاہ بھی شریک ہوئے، اجلاس میں طاہر القادری کی رہائش گاہ اور ادارہ منہاج القرآن کے اطراف میں لگائے گئے بیریئرز ہٹانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق وزیراعلی پنجاب نے بیان دیا کہ انہیں اس واقعے کا 17 جون کی صبح 9 بجے علم ہوا اور انہوں نے فوری طورپرآپریشن روکنے کی ہدایت کردی، اسی روز صبح 10 بجے وزیراعلی نے گورنرہاس میں نئے چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ جسٹس خواجہ امتیازکی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی وہ دن 11 بجے ماڈل ٹان اپنی رہائش گاہ پہنچے جہاں دوپہرایک بجے تک انہوں نے غیرملکی وفد سے ملاقات کی، رپورٹ کے مطابق اس دوران شہبازشریف نے دوبارہ ماڈل ٹائون کی صورتحال سے متعلق کسی سے کوئی رپورٹ نہیں مانگی۔رپورٹ کے مطابق 16 اور17 جون کی درمیانی رات ادارہ منہاج القرآن کے اردگرد صورتحال کشیدہ رہی، عوامی تحریک کے کارکنوں کی طرف سے پتھرا ئوکے نتیجے میں کئی پولیس اہل کار زخمی ہوگئے، 17 جون کی صبح 9 بجے ڈی آئی جی آپریشنز موقع پرپہنچے اور انہوں نے مختلف ڈویژنز کے ایس پیز کو بلالیا، پولیس نے عوامی تحریک کے کارکنوں کو جواب دینے کیلئے آنسوگیس کی شیلنگ اور فائرنگ کی، ڈی آئی جی آپریشنز نے صورتحال خراب ہونے پردن 11بجے ایلیٹ فورس کو بھی طلب کرلیا، دوپہر12 بجے فائرنگ سے جاں بحق ہونے والوں کی لاشوں اور زخمیوں کو جناح اسپتال منتقل کیا گیا، دوپہر ڈیڑھ بجے تک طاہرالقاری کی رہائش گاہ اور ادارہ منہاج القرآن کے گرد تمام بیریئرز ہٹا دیئے گئے۔ انکوائری رپورٹ میں جسٹس علی باقر نجفی نے ایک سے زیادہ بار دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب آپریشن اورفوج کی قربانیوں کا ذکر کیا ہے۔
وزیراعلیٰ کے نمائندے نے رضامندی ظاہر کی‘ ماڈل ٹائون آپریشن کا فیصلہ رانا ثنا کی زیر صدارت اجلاس میں ہوا
Dec 06, 2017