1969ء میں پاکستان نے برطانیہ اور فرانس کے ساتھ پلوٹونیم اور نیوکلیئر پروسیسنگ پلانٹ کا سودا کیا۔ پلوٹونیم کو ایندھن کے طورپر استعمال کرکے ایٹمی بجلی گھرکا ڈیزائن‘ مشینیں اور تعمیر‘ مقامی انجینئرز نے تیار کرکے کام شروع کیا۔ 1974ء میں انڈیا نے Smiling Budha نام سے پوکھراں میں ایٹمی ٹیسٹ کا دھماکہ کیا تو دنیا نے انڈیا کو ایٹمی قوت بننے کیلئے تعاون کیا اور پاکستان کو ایٹمی قوت بننے سے روکنے کیلئے طرح طرح کے حیلے کئے۔ فرانس اور برطانیہ نے معاہدے منسوخ کئے۔ رکاوٹوں کے باوجود پاکستان کے انجینئرز نے پلانٹ کی تعمیر کا کام جاری رکھا اور پاکستان اٹامک انرجی کے مائننگ انجینئرزنے پلوٹونیم کی کان کنی کروائی۔ اسے دھات میں تبدیل کیا اور افزودہ کیا۔ خوشاب پلوٹونیم ایٹمی پاور پلانٹ نے 1996ء میں مکمل ہوکر پیداوار شروع کر دی۔ یوں پاکستان پلوٹونیم ایٹمی بجلی گھربنانے‘ پلوٹونیم اور ہیوی واٹر کی پیداوار میں خودکفیل ہو گیا۔ اس طرح پاکستان نے ٹیکٹیکل ایٹم بم تیار کیا جس کی بدولت انڈیا کیلئے پاکستان کے خلاف روایتی جنگ مسلط کرنے کی جرأت ختم ہوگئی۔
14 اگست 1947ء کو پاکستان آزاد ہوا۔ بٹوارے میں ہمارے حصہ کی کے لہ بارود کی بجائے انڈیا نے ریل کے ڈبوں میں اینٹ اور پتھر بھر کے روانہ کئے۔ حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا کہ ہم اینٹ اور پتھروں سے ملک کی حفاظت نہیں کریںگے۔ ہم اپنا اسلحہ بارود‘ گولیاں اور گولے خود بنائیں گے۔ 1951ء میں پاکستان آرڈیننس فیکٹریز کی بنیادرکھی گئی۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ‘ ہم نے 303 بولٹ ایکشن رائفل‘ برینٹ مشین گن اور سٹین مشین گن سے لڑی جبکہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ جرمن ساختہ‘ پاکستان آرڈیننس فیکٹری میں تیار کئے ہوئے مکمل آٹومیٹک رائفل G-3 اور MG1A3 لائٹ مشین گن کو استعمال کرکے بڑی۔ 1971ء میں انڈیا کی فوج کے پاس سیمی آٹومیٹک رائفل تھی۔ 1971ء کی جنگ میں پاکستان کو فائر پاور میں انڈیا پر برتری تھی۔آجکل پاکستان آرڈیننس فیکٹری میں جدید اسلحہ اور گولہ بارود‘ آرمی‘ نیوی اور ایئرفورس کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ مقامی طورپرکئی قسم کے راکٹ میزائل‘ ٹینک‘ جنگی ہوائی جہاز اور جدید ترین آبدوزیں اور جنگی بحری جہاز تیار ہوتے ہیں۔ انڈیا کو چونکہ دوسرے ممالک سے سب کچھ مل جاتاہے تو وہ اسلحہ سازی میں خودکفیل نہیںہے۔ یہ وہ برکتیں ہیں جو پاکستان پر مسلسل پابندیاں نافذ ہونے کی بدولت حاصل ہوئی ہیں۔ وطن عزیز میں وسائل کی کمی نہیں۔ فقط تعمیر کے جذبے کی کمی ہے۔ ہمارے سیاسی رہنمائوں نے حکمرانی کو آسائش کی زندگی گزارنے کا ذریعہ سمجھ کر آسان راہ اختیار کی ہے اور عوام کی زندگی کٹھن بناتے رہے۔ گزشتہ جمہوری حکومتوں نے ایسے جزوقتی توانائی کے منصوبے مکمل کئے جن میں قیمتی ایندھن کا استعمال ہوتا ہے اور ان کی اوران کے اقرباء و احباب کی تجوریاں بھی کچھ اس اندازسے بھرتی جاتی ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی اور پکڑے بھی نہیں جاتے۔ توانائی کے مستقل منصوبے یعنی ہائیڈرو پاور جن میں ایندھن کا استعمال ہی نہیںہوتا اور انتہائی سستی بجلی کی پیداوار ہوتی ہے ان کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ صرف توانائی کے بحران نے ملک میں صنعتی بحران‘ برآمدات میں کمی کا بحران اور عوام کیلئے روزمرہ ضروریات کیلئے مہنگائی کا بحران پیدا کیا ہوا ہے۔اب ان بحرانوں کا کوئی انت نظر نہیں آتا۔ ان تمام کے اوپر پاکستان کا ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شامل ہونے کی بدولت کھلی درآمدات نے ادائیگیوں میں عدم توازن کا بحران شدید بنا دیا ہے۔
اہل وطن کوخوشی ہوئی ہے کہ حکومت نے اپنے وسائل پر انحصار کرنے اور درآمدی صنعت کو فروغ دینے کیلئے قدم بڑھایا ہے۔ حکومت کا گیس لوڈشیڈنگ کرنے کی بجائے اپنی گیس کے کنوئوںمیں سے سوئی سدرن گیس پائپ لائنز اور سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز کمپنیوں کیلئے گیس کی رسد میں اضافہ کیا اور درآمدی صنعت کے اخراجات میںکمی کر کے بیرون منڈیوں میں مقابلہ کرکے برآمدات میں اضافہ کرنے کیلئے ان صنعتوں کیلئے گیس کی قیمتیں 1400 روپیہ فی ایم ایم بی ٹی یو سے کم کرکے 600 روپیے فی MMBTU کردی ہیں۔ اس سے عوام کو حوصلہ ہوا کہ حکومت خودکفالت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ عوام توقع کرتے ہیں کہ پچاس ہزار ٹن کیمیائی کھاد بیرون ملک سے منگوانے کی بجائے مقامی صنعت کو ضروری مقدارمیں اضافی گیس مہیا کر دی جائے تاکہ کھاد کی پیداوار میں اضافہ ہو اور اس کی درآمد کو روکا جائے جو رقم زرمبادلہ 50ہزار ٹن کھاد کی درآمد پر خرچ ہوگا وہ بچ جائے گا اور تجارتی ادائیگیوں میں توازن پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔
وزیراعظم نے حالیہ دورہ سعودی عرب اور چین میں وہاں کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں معدنیات نکالنے میں سرمایہ لگانے کی ترغیب دی ہے۔ دنیا نے پاکستان میں دہشت گردی کے متعلق اس اندازسے پراپیگنڈا کیا ہے اور ابھی تک کئے جا رہے ہیں کہ کوئی بھی بیرونی سرمایہ کار اپنی جان کوخطرہ میں ڈال کر پاکستان میں تیل‘ گیس اور معدنیات کی کان کنی میں اپنا سرمایہ لگانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ معدنیات‘ تیل و گیس پاکستان نے خود ہی نکال کر قابل استعمال بنانا ہے۔ جہاں کہیں دہشت گردی کا شبہ ہو وہاں کے کان کنی کے مقامات کو فوج کی حفاظتی تحویل میں رکھا جائے۔ CPEC کے قافلوںکی حفاظت کیلئے دو ڈویژن فوج تیار کر لی گئی ہے اور جدید طریقہ‘ سیٹلائٹ سے CPEC روٹ کی مانیٹرنگ کا بندوبست کیا گیا ہے تو معدنیات کی کان کنی‘ تیل و گیس نکالنے کے مقامات کی حفاظت کیلئے بھی معقول تعداد میں فوج تیار کر لی جائے۔ یوں لوگوں کو فوج میں بھرتی ہوکر روزگار ملے گا۔ مقامی آبادی کو کان کنی اور دیگر امور میں نوکریاں ملیں گی۔ معدنیات کا استعمال کرکے ان کی آمدن کی رقم سے ملک کو ترقی دی جا سکتی ہے اور معیشت کی بحالی آسان ہوگی۔
موجودہ حکومت کی طرف سے اٹھارہویں ترمیم کو منسوخ کرنے کی صدا سنائی دے رہی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم دستور پاکستان کا اہم جز بن چکی ہے جس کی بدولت صوبہ پنجاب کو چنیوٹ کے سونا‘ چاندی‘ تانبہ اور دنیا کے اعلیٰ معیار کے مقابل لوہے کے ذخائر‘ اٹک اور دیگر مقامات سے تیل و گیس کی آمدن پر تصرف حاصل ہوا ہے۔ صوبہ سندھ کو کئی مقامات سے حاصل تیل و گیس‘ تھرکول کے وسیع ذخائر‘ سرکریک میں دنیا کے سب سے بڑے سونے کے ذخائر پر تصرف حاصل ہوا ہے۔ صوبہ بلوچستان کو تیل‘ گیس‘ سونا چاندی‘ تانبہ‘ لوہا سمیت پچاس سے زائد دھات اور غیر دھات کے ذخائر پر تصرف ملا ہے۔ صوبہ کے پی کے کو کئی مقامات سے تیل و گیس‘ قیمتی پتھر اور قیمتی دھات کے ذخائر پر تصرف ملا ہے۔ صوبوں کو اٹھارویں ترمیم کی برکتیں حاصل ہونا شروع ہوئیں کہ مرکز کی طرف سے صوبوں کو ان سے محروم کرنے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔ اگر صوبوں سے ان کا حق چھینا گیا تو معدنیات کے وسیع خزانے زمین کے اندر دبے رہ جائیںگے۔ مرکز کو بھی کچھ حاصل نہیںہوگا۔ اٹھارہویں ترمیم کی تنسیخ سے صوبوں کی طرف سے شدید ردعمل ہوگا۔ دشمن ایسے معاملات کی تاک میں ہے۔ ادھر صوبوں کو محروم کیا گیا ملک میں انارکی پھیل جائے گی اور دشمن کی ریشہ دوانیوں کی بدولت ملک لامتناہی عدم استحکام میں مبتلا رہے گا۔ اٹھارہویں ترمیم سیاسی معاملہ نہیں۔ یہ صوبوں اور وہاں کے عوام کا معاشی معاملہ ہے۔ ایسی انارکی پھیلانے کا کیا فائدہ ہے؟
پاکستان کو IMF کی ہدایات پر بجلی کی مہنگائی سے احتراز کرنا چاہئے۔ بجلی مہنگی کرنے سے عوام کی زندگی دوبھر ہو جائے گی۔ مہنگائی بہت زیادہ بڑھ جائے گی اور عوام کی ضروریات زندگی ان کی قوت خریدسے باہر ہونگی۔ امام محمد غزالی نے سلطان سنجر سلجوقی کو مخاطب ہوکر فرمایا: ’’ ایک یہ کہ اہل طوس پہلے ہی بدانتظامی اور ظلم کی وجہ سے تباہ تھے۔ اب سردی اور قحط سے بالکل برباد ہوگئے۔ ان پر رحم کر‘ خدا تجھ پر رحم کرے گا۔ افسوس مسلمانوں کی گردنیں مصیبت اور تکلیف سے اور تیرے گھوڑوں کی گردنیں زرین طوقوں کے بوجھ سے ٹوٹی جاتی ہیں اور تجھے کچھ خیال نہیں۔‘‘ وطن عزیز کے امراء اور حکام سے عوام چاہتے ہیں کہ پہلے ہی حاکموں کی غیرملکوں کی کاسہ لیسی‘ بدانتظامی‘ حرص اور لالچ نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔ نئی حکومت کے آتے ہی مہنگائی اور انارکی نے سر اٹھایا ہے۔ مزیدمہنگائی کا بوجھ برداشت نہیں کر پائیں گے۔ رب العالمین نے قرآن پاک میں فرمایا: اللہ کسی نفس کو اس کی قوت برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘ اگر موجودہ حکومت نے عوام کو ان کی قوت برداشت سے زیادہ تکلیف میں مبتلا کیا تو زیادہ دیر حکومت نہیںکر پائیں گے۔ اس لئے مصیبت زدہ عوام حکومت سے مہنگائی میں کمی کی توقع کرتے ہیں۔
مشکلیں جو خود کفیل بنا گئیں
Dec 06, 2018