وزیر اعظم عمران خان کی ویژن میں اوور سیز پاکستانی حاوی نظر آتے ہیں۔ بیرون ملک تعلیم، کرکٹ اور شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لیے فنڈ ریزنگ میںاوور سیز پاکستانیوںنے کمال کا کارنامہ انجام دیا۔تحریک انصاف کو بھی بیرونی ملکوں میں مقیم پاکستانیوںنے پذیرائی بخشی ۔ اور اس کے لئے بھی فنڈ ریزنگ حوصلہ افزا رہی۔یہی وجہ ہے کہ یہ اوور سیز پاکستانی عمران خان کی نظروں میںبے حد اہمیت رکھتے ہیں۔ان سے وہ بھاشہ، دیامیر اور مہمند ڈیم کے لئے چندہ بھی لینا چاہتے ہیں اور پاکستان میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کے لئے بھی انہوںنے اوور سیز پاکستانیوں سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔
اوور سیز پاکستانیوں کو متحرک اور سرگرم رکھنے کے لئے وزیر اعظم کی مدد ان کے دوست زلفی بخاری کرر ہے ہیں،دوسری طرف چودھری سرور گورنر پنجاب بھی اوور سیز پاکستانیوں میں بے پناہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ وہ اپنی استطاعت کے مطابق وزیر اعظم کی معاونت کریں گے۔
پاکستان کو اپنے اوور سیز شہریوں پربہت انحصار کرنا پڑتا ہے۔ان کی خون پسینے کی کمائی ڈالروں کی شکل میں واپس آتی ہے تو قومی خزانے کی رگوں میں لہو دوڑنے لگتا ہے۔ انہی ترسیلات سے تارکین وطن کے عزیز و اقارب کی زندگی کا پہیئہ چلتا ہے ، ان کا چولھا جلتا ہے۔ ان کے بچے تعلیم حاصل کرتے یں۔ ان کے بوڑھے والدین اپنا علاج معالجہ کراتے ہیں، ٹوٹی پھوٹی چھتوں اور دیواروں کی مرمت کراتے ہیں اور اگر پیسہ زیادہ آ جائے تو نئے گھر تعمیر ہوتے ہیں ۔ ان گھروں میں فریج، ٹی وی، مائیکرو ویو اور جدید زندگی کی دوسری سہولتیں بھی آ جاتی ہیں۔متمول تارکین وطن نے ملک میں سرمایہ کاری بھی کی مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ان تارکین وطن سے قدم قدم پر بد سلوکی کا مظاہرہ ہوا۔پہلے تو ان کے رشتے دارہی ان کولوٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان سے کچھ بچ جائے تو عدالتوں میں وکیلوں کی فیسیس بوجھ بن جاتی ہیں۔ایئر پورٹوں پر کسٹم اور امیگریشن حکام ان کی چمڑی تک ادھیڑ دیتے ہیں۔اوران پاکستانیوں کی امد اد اور راہنمائی کے لئے جو ادارے بنائے گئے وہ بھی استحصال کے راستے پر چل نکلے۔ اوور سیز ہائوسنگ سوسائیٹوں کے نام پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوا۔
وزیر اعظم عمران خان ان تما م مسائل سے ا ٓگاہ ہیں ۔ انہوںنے اعلان کیا ہے کہ وہ تارکین وطن کو عزت دلائیں گے۔انہیں سرامیہ کاری کے لئے راغب کرنے کے لئے ون ونڈو نظام تشکیل دیں گے۔ اب کسی کو بجلی، گیس اور دیگر سرکاری اداروں کے پیچھے پیچھے چکڑ نہیں کاٹنے پڑیں گے بلکہ تارکین وطن کی درخواست کو ایک ہی محکمہ ڈیل کرے گااور وہی دوسرے محکموں سے اجازت نامے حاصل کر کے دے گا۔ ایسا ہو جائے تویہ ایک معجزہ ہو گا۔ تارکین وطن کو اور کچھ نہیں، صر ف عزت چایئے،بلکہ عزت نفس چاہئے۔اپنا وطن بھی عزت نہ دے تو باہر والے کیسے عزت دیں گے۔ زبیر گل کے ساتھ شہباز شریف نے جو کیا،اس کے بعد کوئی اور زبیر گل لندن سے پاکستان آ کر سیاست کرنے کا نام بھی نہیں لے گا۔میں پچھلے اٹھارہ بر س سے بیرون وطن نہیں جا سکا،اس لیئے بیرون وطن پاکستانیوں میں ملکی سیاسی پارٹیوں کی مقبولیت کا مجھے صحیح اندازہ نہیں۔مگر ملائیشیا میں وزیر اعظم عمران خان نے خطاب کیا اور جب بھی یہ اعلان کیا کہ وہ چوروں کونہیں چھوڑیں گے تو ہال میں موجود لوگوںنے زبردست تالیاں بجائیں، ا سکا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کے اس ایجنڈے کو اوور سیز پاکستانی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور احتساب کا یہ نعرہ ان کے ہاں مقبول ہے۔اور وہ چاہتے ہیں کہ عمران خان اس ایجنڈے کو آگے بڑھائیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے اوور سیز پاکستانیوں کو قائل کر لیا ہے کہ ملک میں آکر سرمایہ لگائیں۔ ا سکے لئے سی پیک کے صنعتی زون موجود ہیں ۔ پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کامنصوبہ بھی پیش کر دیا گیا ہے۔ عام پراپرٹی کا کام بھی ہو سکتا ہے ،خاص طور پر گوادر میں ہائوسنگ سوسائیٹیاں انتہائی کامیاب بزنس کر رہی ہیں۔عمران خان نے دو مرتبہ میڈیا کو انٹرویو میں کہا ہے کہ عوام خاطر جمع رکھیں ،اب ڈالروں کی کمی واقع نہیں ہو گی۔ ا س کے لئے بیرون وطن پاکستانیوں سے انہیں بہت امید ہے کہ وہ ان کی اپیل پر لبیک کہیں گے۔اوراپنا پیسہ بینکوں کے ذریعے ملک میں بھجوائیں گے۔ اس سے حکومت کو امید ہے کہ زر مبادلہ کے ذخائر کی کمی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔یہ مسئلہ کوئی اتنا بڑا بھی نہیں ، اگر تارکین وطن سارا پیسہ بینک چینلز سے بھیجیں تو پاکستان کو کسی دوسرے کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت ہی نہیں۔
حکومت کی مرغبانی اور مویشی پال کی ا سکیمیں اچھی ہیں مگر کوئی شخص مشرقی بارڈر کے علاقے میں اس کاروبار کے لئے زمیں خریدے تو میری معلومات کے مطابق اسے رینجرز اور فوج سے اجازت لینا ہو گی۔ پتہ نہیں یہ قانون کہاں سے آگیا۔ لاہور کے باہر برکی، بیدیاں اور باٹا ہور کی طرف دھڑ ا دھڑ فارم ہائوسز بن رہے ہیں لیکن میں اگر قصور کے سرحدی گائوں فتوحی والہ میں نیا مکان بنانا چاہوں یا پرانے مکان کی مرمت کرنا چاہوں تو اپنے ہی کسی کھیت سے مٹی کھودنے کا مجاز نہیں۔ اپنے چولھے پر ہنڈیا پکانے کے لئے اپنے ہی درختوں کی شاخین کاٹنے کا بھی مجاز نہیں ، اس کے لئے بھی رینجرز اور فوج کی اجازت لینا پڑتی ہے۔ اگر سرحدی گائوں میں میرا حال یہ ہوتو کوئی بیرونی سرمایہ کار ان علاقوں میں کیسے کوئی تعمیراتی کام کر سکے گا۔ اس کے لئے رینجرز سے اجازت لینا ضروری ہو گی۔ اصولی طور پر یہ رکاوٹیں نہیں ہونی چاہیئیں۔
یہ تو رہا قصوربارڈر کے علاقوں کا قصہ مگر ملک کے اندر بھی درجنوں محکمے سرمایہ کاروں کی کھال ادھیڑنے کی تاک میں رہتے ہیں۔ایف بی آر سے لے کر ماحولیات تک کے محکمے نوٹس پہ نوٹس بھیجنے کے جنون میں مبتلا ہیں،۔ وزیر اعظم کو سرمایہ کاری دوست ماحول کی تشکیل کے لئے ان تما م مسائل کے خاتمے کے لئے کوشاں رہنا چاہے ۔ بہر حال پہلے سو دنوں میں انہوں نے اوور سیزپاکستانیوں کے سامنے ایک ایجنڈہ پیش کر دیا ہے،اس کی تکمیل کے لئے ان کے پاس پانچ سال موجود ہیں۔ اگر مہاتر محمد اور لی کوان یو، اپنے ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں تو عمران خان بھی عزم کر لیں تو انشااللہ پاکستان کی تقدیر بھی بدل کر رہے گی۔
پہلے سو دن۔۔سوکہانیوں کی چوتھی کہانی
Dec 06, 2018