ناتجربہ کار ٹیم حکومت کی بدنامی اور’’قرطاس ابیض‘‘ کا ’’چرچا‘‘

عمران خان کی حکومت کے100 دن پورے ہونے پر جہاں حکومت کی جانب سے بلند بانگ دعووں پر مشتمل کارکردگی کے دعوے کئے گئے وہاں اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ ن کی طرف سے حکومت کی 100 روزہ کارکردگی پر ۔مسلم لیگ(ن) نے تحریک انصاف کی حکومت کے 100دن مکمل ہونے پر "یوٹرن، جھوٹ اور ناکامیوں کے 100دن کے عنوان سے ’’قرطاس ابیض‘‘ جاری کیا ہے جبکہ دیگر جماعتوں نے جن میں پیپلز پارٹی ،عوامی نیشنل پارٹی شامل ہیں ، صرف بیانات کی حد تک حکومت کی کارکردگی کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ بہرحال تحریک انصاف نے اپنی حکومت کے 100 دن مکمل ہونے پر جناح کنونشن سینٹر میں ’’سیاسی میلا‘‘ لگایا جس میں وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کی ’’اعلیٰ‘‘ کارکردگی بیان کی۔ تاہم ان کے ’’نائبین‘‘ اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور شہزاد اکبر نے ’’خوبصورت‘‘ انداز میں حکومتی کارکردگی ’’ ُطومار‘‘ کھڑے کر دیئے۔ ’’کپتان‘‘ نے تالیوں کی گونج میں سالہاسال سے غربت کی چکی میں پسے ہوئے لوگوں کو امید کی ایک ’’ کرن‘‘ دکھائی اور کہا کہ انھوں نے حکومت کی سمت کا تعین کر دیا ہے، جلد اس کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ اگرچہ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں حکومت کی 100 روزہ کارکردگی کے حوالے سے اپنی ٹیم کی کارکردگی کو سراہا ہے لیکن2 روز بعد ہی انھوں نے اینکر پرسنز کے ایک گروپ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے قبل از وقت انتخابات کرانے کا عندیہ دے کر سیاسی حلقوں میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ سیاسی حلقوں کی جانب سے قبل از وقت انتخابات کی برملا مخالفت کی جا رہی ہے خصوصاً پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ہم عمران خان کو قبل از وقت انتخابات کرانے کے نام پر حکومت سے راہ فرار اختیار نہیں کرنے دیں گے۔ جبکہ وزیراعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ میں آئندہ 10روز میں رد و بدل کا اشارہ دے کر کابینہ کے ارکان میں سراسیمگی کی لہر دوڑا دی ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی کے ترجمان سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے بھی وزیراعظم کے قبل از وقت انتخابات سے متعلق بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ناکامیوں سے مایوس حکومت کو ملک سے کھلواڑ نہیں کرنے دی جائے گی جبکہ مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے اپنے ردعمل میں کہا کہ عمران خان کو پتہ ہونا چاہیے کہ ان کی اور ان کی ٹیم کی قابلیت اور 100 دن کی کارکردگی کے بعد اپوزیشن کو حکومت گرانے کے لئے وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ عمران صاحب! آپ اور آپ کی ٹیم ہی آپ کی حکومت گرانے کے لئے کافی ہے۔ حکومت اپنی 100روزہ ’’کارکردگی‘‘ ثابت کرنے پر پورا زور لگا رہی ہے جب کہ اپوزیشن اس کی’’ناکامیوں‘‘ کا مذاق اڑانے میں مصروف ہے۔ کسی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے کے لئے 100دن ناکافی ہوتے ہیں اس کے لئے کم از کم سال سوا سال درکار ہوتا ہے لیکن تحریک انصاف کی ناتجربہ کار ٹیم حکومت کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔ حکومت کی ناتجربہ کاری کے باعث ہی ایسے اعلانات کر دیئے گئے جن کا 100 روز میں مکمل ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ 100دن تو کسی حکومت کے لئے ’’ہنی مون ‘‘ پیریڈ ہوتا ہے 100دن کے ’’ہنی مون پیریڈ‘‘ کے خاتمے پر ’’ہم مصروف تھے‘‘ کی پھبتی ہی کسی گئی ۔ اپوزیشن بھی اپنا پورا زور حکومت کی ناکامیاں گنوانے میں لگا رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدہ تعلقات کار کا شاخسانہ ہی ہے کہ 100 دن گزرنے کے باوجود بھی قومی اسمبلی میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کا تنازعہ حل ہو سکا اور نہ ہی مجالس قائمہ کا قیام عمل میں آ سکا۔ شنید ہے کہ سپیکر اسد قیصر قومی اسمبلی کے چھٹے سیشن کے آغاز سے قبل ایک بار پھر پبلک اکائونٹس کمیٹی اور قومی اسمبلی کی مجالس قائمہ کے قیام کیلئے اپوزیشن کو آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے لیکن اپوزیشن کے حکومت کی تجاویز سے اتفاق کرنے کے بہت کم امکانات ہیں۔ ’’بے رحم ‘‘ اپوزیشن نے عمران خان کو ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیا ’’ہنی مون ‘‘پیریڈ انجوائے کرنا تو دور کی بات ہے اپوزیشن کے دباء و میں آکر عمران کو 99دن کام کر کے کچھ کر دکھانے کی دھُن سوار رہی۔ سو عجلت میں ان سے جو کچھ بن پایا کر دکھایا لیکن ان کا مقابلہ مسلم لیگ (ن) سے ہے جو حکومت کی ہر کمزوری کا سیاسی فائدہ اٹھانے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف کی حکومت کا مسلسل تعاقب کر رہی ہے یہ اپوزیشن کا دبائو ہی تھا عمران خان کو100دن کی کار کردگی ظاہر کرنا پڑی لیکن مسلم لیگ (ن) کی طرف سے جاری کردہ ’’قرطاس ابیض ‘‘ کا بڑا ’’چرچا ‘‘ہے ۔ ان دنوں پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سربراہ آصف علی زرداری پوری طرح ’’ متحرک ‘‘ نظر آرہے ہیں انہوں نے اپنی توپوں کا رخ عمران خان کی طرف کر رکھا ہے انہوں نے موجودہ حکومت پر ’’چڑھائی‘‘ کر رکھی ہے ایسا دکھائی دیتا ہے انہوں نے آنے والے دنوں میں پیش آنے والی صورت حال کا ذہنی طور پر مقابلہ کرنے کی’’ پیش بندی ‘‘کر دی ہے انہوں نے کہا ہے کہ کوئی حکومت کتنا عرصہ چلے گی وہ اس بارے کوئی پیشگوئی نہیں کر سکتے ۔ تاہم انہوں نے کہا ہے کہ غیر سنجیدہ وزیر اعظم سے ملک سنبھالا نہیں جا رہا لیکن کیا وہ جیل برداشت کر سکیں گے انہوں نے کہا ہم نے الیکشن سے قبل ہی کہہ دیا تھا کہ ’’کٹھ پتلیوں ‘‘ سے ملک نہیں چل پائے گا انہوں نے بھی ’’مرغی انڈے‘‘ پر مبنی معیشت کا مذاق اڑایا ہے انہوں نے کہا حکومت وہی بچائیں جو اسے لے کر آئے ہیں اگرچہ عمران خان نے سعودی عرب ، چین ،متحدہ عرب امارات اور ملائشیا کے دورں کے بعد زرمبادلہ کی پوزیشن جزوی طور مستحکم کرنے دعوایٰ کیا لیکن ڈالر کے مقابلے میں روپیہ شدید دبائو میں ہونے کی وجہ سے مسلسل روپے کی قدر گر رہی ہے آئی ایم ایف کے پاس ’’کشکول‘‘ اٹھا کر نہ جانے کے اعلانات کرنے والی حکومت نے آئی ایم ایف سے رجوع کر لیا ہے سر دست حکومت معاشی بحران سے نکلتی نظر نہیں آرہی ہے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہر جلسہ میں ’’10روپے کی روٹی16روپے کا نان ۔یہ نیا پاکستان واہ رے عمران خان ‘‘ کے نعرے لگا رہے ہیں جب کہ تحریک انصاف نے جوابی نعرہ تیار کیا ہے ’’قومی خزانے کو جو لگی بیماری اس کا نام ہے زرداری‘‘۔ و زیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ’’ پاکستانیوں کے11ارب ڈالر کے غیر قانونی اثاثوں کا سراغ لگایا ہے لیکن سوال یہ ہے کیا موجودہ حکومت11ارب ڈالر کی رقم پاکستان واپس لانے میں کامیاب ہو گی ؟َ اسی طرح وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ’’ دوبئی میں پاکستانیوں کے اکائونٹس میں ایک ارب ڈالر سے زائد اثاثے موجود ہیں لیکن دوبئی نے اقامہ رکھنے والوں کے اکائونٹس کی تفصیلات فراہم نہیں کیں ‘‘ ۔ اسی طرح ایف آئی اے نے 100 روز میں375 ارب روپے کے جعلی اکائونٹس کا لگانے کا دعوی کیا جسے موجودہ حکومت اپنی کارکردگی ظاہر کر رہی ہے ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا یہ اکائونٹس کس نے کھلوائے ہیں وزیر اعظم نے کہا ہے کہ’’ حکومت کا نیب پر کوئی کنٹرول نہیں‘‘ لیکن کل کی بات ہے اسلام آباد ہائی کورٹ میں وزیر اعظم کے خصوصی معاون زلفی بخاری کانام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر سخت موقف اختیار کرنے پر نیب کے سپیشل پراسیکیوٹر عمران شفیق کو حکومت کے دبائو میں اسی روز مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیا وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزادارباب نے بتایا ہے کہ وفاقی حکومت نے34میں سے18اہداف کامیابی سے حاصل کرلئے ہیں ، لیکن اپوزیشن حکومت کی کسی کامیابی کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ’’ قرطاس ابیض ‘‘ میں کہا گیا ہے 50لاکھ گھر بنانے اورایک کروڑ نوکریاں دینے کیلئے حکومت نے 100دن میں کوئی کام نہیں کیا۔ ، 100دنوں میںڈالر کی قیمتوں میں اتار چڑھائو سے پاکستان کے قرضوں میں2کھرب روپے کا اضافہ ہوا ہے، دلچسپ امر یہ ہے عمران خان نے کہا ہے انہیں ڈالر کی قیمت میں اضافہ میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا عمران خان نے ’’مرغیاں اور کٹے‘‘ پالنے کا مشورہ دے کر لوگوں کو سوشل میڈیا پر اپنے بارے میں مذاق بنانے کا موقع فراہم کر دیا ہے 100دن کی کارکردگی کے حوالے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جنگ جاری ہے اب دیکھنا یہ ہے اس جنگ میں کس کو کامیابی ہوتی ہے اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہو جائے گا ۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذآرائی سے پارلیمانی ماحول میں شدید کشیدگی آسکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن