ماضی کو فراموش کر دیں، الزام تراشیوں سے کچھ نہیں ملے گا,جلد مکمل امن میں پیش قدمی کر لیں گے:پاک فوج

پاک فوج نے اعلان کیا ہے کہ جلد مکمل امن میں پیش قدمی کر لیں گے۔چارہزار فوجی افسران کاکڑا احتساب ہو چکا ہے، ان میں جیل بھجوانا بھی شامل ہے، فصیل آب (واٹر شیڈ)پر کھڑے ہیں، آئیں پاکستان کو مل کر مضبوط بنائیں، ماضی کو فراموش کر دیں، الزام تراشیوں سے کچھ نہیں ملے گا،بلوچستان کے ملک سے باہر بیٹھے لوگوں سے درخواست ہے کہ واپس آ کر قومی دھارے میں شامل ہو کر بلوچستان کی ترقی میں کردار ادا کریں، کراچی میں 99فیصد جرائم میں کمی ہو چکی ہے، فاٹا میں حالات بہتر ہیں، پی ٹی ایم کے مطالبات میں پیش رفت کر چکے ہیں، چار ہزار لاپتہ افراد کے معاملات حل ہو چکے ہیں،افغانستان کی طرف سے کوئی مسئلہ نہ ہو تو آج فاٹا سے فوج کو واپس بلا لیں، چھ سو کلومیٹر میں باڑ لگ چکی ہے، سماجی و معاشی ترقی کو فاٹا میں یقینی بنا دیا گیا ہے، جمعرات کو پریس بریفنگ کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ بھارت کی طرف سے ایل او سی پر خلاف ورزیوں کا سلسلہ بڑھ گیا ہے اور وہ آبادی کو نشانہ بنا رہا ہے، 2017ءمیں 1881 سرحد کی خلاف ورزیاں کی گئیں، 2018ءمیں سرحدی خلاف ورزیوں کے نتیجے میں بھارتی فائرنگ میں 55 شہری شہید ہو گئے۔ 300 زخمی ہوئے، تاریخ میں سب سے زیادہ شہریوں کی شہادتیں ہیں، مورچوں پر فائرنگ ہو تو اس میں جواب دیا جاتا ہے مگر بھارت ہماری شہری آبادی کو نشانہ بناتا ہے اور ہم اس طرح کا جواب دینے سے گریز کرتے ہیں، بھارت کو ہماری تشویش کو مدنظر رکھنا چاہئے، اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں فرق پڑتا ہے، کرتارپور پر راہداری بننے سے چار ہزار زائرین آ سکیں گے، انہوںنے کہا کہ امن کے لئے پاکستان نے اقدامات کئے ہیں، مذاکرات کی بھارت کی طرف سے رضامندی نہیں ہوتی، فاٹا کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ دہشت گردی کے واقعات کم ہوئے ہیں، پاکستان میں 2013ءمیں ہر ماہ سات سے آٹھ بڑے حادثات ہوتے تھے تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ دن بھی قریب ہیں مکمل استحکام کی طرف بڑھیں گے۔ مکمل طور پر امن کی طرف چلے جائیں گے۔ بلوچستان کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ جغرافیائی طور پر بلوچستان 43 فیصد ہے جبکہ آبادی میں تناسب چھ فیصد ہے۔ فاٹا جغرافیائی طور پر تین فیصد ہے وہاں دو لاکھ جبکہ بلوچستان میں 60، 70 ہزار فوج تعینات ہے اور یہ دستے بھی بلوچستان کی سماجی، معاشی ترقی کے منصوبوں اور سی پیک کی سکیورٹی کے لئے ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں انتہائی کمی ہوئی ہے اور اس میں تیزی سے مزید کمی آ رہی ہے۔ امن وامان کی صورتحال بلوچستان اور فاٹا میں بہتر ہے۔ تین سالوں میں بلوچستان نے دو ہزار فراری سرنڈر کر چکے ہیں۔ پہاڑوں پر بیٹھے اور ملک سے باہر بیٹھے لوگوں جو امن کے لئے مسئلہ پیدا کرتے ہیں سے درخواست ہے کہ وہ واپس آئیں اور قومی دھارے میں شامل ہو کر بلوچستان کی ترقی میں کردار ادا کریں۔ کراچی کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ سندھ رینجرز نے جانفشانی اور قربانی دیکر کراچی کی روشنیاں لوٹائی ہیں۔ 2017ءمیں کراچی مکمل طور پر پرامن رہا۔ 2018ءمیں بھی صرف چینی قونصل خانے والا واقعہ ہوا۔ کراچی میں سکیورٹی کی صورتحال اچھی ہے۔ رینجرز کے ساتھ دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کا بھی کردار ہے اور کراچی میں 99 فیصد جرائم میں کمی ہو چکی ہے جو کہ پرسکون شہر کا اشارہ ہے۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے۔ ایک وقت تھا کہ جرائم کے حوالے سے کراچی دنیا کے پہلے چھ شہروں میں شامل تھے۔ آج کراچی کا نمبر 67 ہے۔ مکمل امن کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ردالفساد کے حوالے سے بتایا کہ 44 بڑے آپریشن ہوئے۔ 4200 چھوٹی کارروائیاں ہوئیں۔ اسلحہ سے پاک ملک میں پیشرفت کرنی ہے جس میں تاحال کامیابی نہیں ہو سکی۔ تاہم اسکے لئے ضروری قانونی سازی پر کام ہو رہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ کوئی بھی جنگ صرف آپریشن سے ختم نہیں ہو سکتی۔ سماجی، معاشی ترقی ضروری ہے اور اس جانب پاک فوج نے بھرپور توجہ دی۔ فاٹا بلوچستان میں ترقی، یوتھ کو روزگار کی فراہمی اور دیگر اقدامات کئے۔ انسداد پولیو مہم میں پاک فوج کا اہم کردار ہے۔ پشتون تحریک موومنٹ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کے چیک پوسٹوں میں کمی، بارودی سرنگوں کو صاف کرنے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے تین مطالبات تھے۔ اس حوالے سے حالات بہتر ہوئے ہیں۔ فاٹا میں پاک فوج کی چیک پوسٹوں میں کمی کی گئی ہے۔ طریقہ کار کو بھی تبدیل کیا گیا ہے۔ 2016ءمیں فاٹا میں 469 چیک پوسٹیں تھیں جو کم ہو کر 331 رہ گئی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی بھی چیک پوسٹ نہ ہو مگر افغانستان کا بھی مسئلہ ہے۔ فوجی جوان اپنے گھروں سے سینکڑوں میل دور آبادی کے تحفظ کے لئے مورچے پر بیٹھا ہے۔ افغانستان کی طرف سے امن اور سرحد پر بھی خلاءہے۔ ہم چاہتے ہیں آج واپس چلے جائیں مگر خطرہ ختم نہیں ہوا۔ چھ سو کلومیٹر میں باڑ لگا دی گئی ہے۔ دراندازی میں کمی ہو گی۔ بارودی سرنگیں صاف کرنے کے لئے فاٹا میں 43 ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔ 44 علاقوں کو صاف کر چکی ہیں۔ ایک دن آئے گا سب سرنگیں صاف ہو جائیں گی۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ کبھی سات اور کبھی آٹھ نو ہزار کے اعداد و شماردیئے جاتے تھے۔ 2010-11ءمیں کمیشن بنا، عدالتوں میں کیسز گئے۔ 7 ہزار کیسز کمیشن کے پاس آئے۔ چار ہزار لاپتہ افراد کے معاملات حل ہو چکے ہیں۔ تین ہزار پر کارروائی ہو رہی ہے۔ دو ہزار کیسز کمیشن کے پاس ہیں۔ 15سال جنگ لڑی ہے۔ تحریک طالبان جو کہ افغانستان میں بیٹھی ہے اس کی بھی فورس ہے۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ لاپتہ افراد ان کے پاس بھی ہو سکتے ہیں یا مارے گئے ہوںگے یا کسی اور جگہ ہونگے۔ پاکستان کے 70 ہزار شہریوں نے قربانیاں دی ہیں۔ یہ بھی تو دنیا سے لاپتہ ہو چکے ہیں۔ آپریشن میں نقصانات ہوتے ہیں ہمیں نقصانات کو بھولنا پڑے گا۔ پی ٹی ایم پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ وہ وقت نہیں آیا کہ کوئی سخت ہاتھ ڈالیں اگرچہ ایسے نعرے بھی لگے جنہیں فوجی اور شہداءکے خاندان محسوس کرتے ہیں۔ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے۔ ہم سب بھائی ہیں۔ ہم ان کے دکھ، تکالیف کا احساس رکھتے ہیں اور یہ بھی اچھی بات ہے کہ ابھی پی ٹی ایم کی طرف سے تشدد استعمال نہیں کیا گیا۔ ان سے درخواست ہے کہ ان کے حقیقی مطالبات میں بہت پہلے پیش رفت ہو چکی ہے۔ کوئی ایسی لائن عبور نہ کریں جس سے ریاست کو اپنا زور دکھانا پڑے۔ انہوں نے پاک فوج کے احتساب کے نظام پر بھی بات کی اور کہا کہ پاک فوج چین آف کمانڈ کے تحت کام کرتی ہے۔ تھری سٹار جنرل کی سربراہی میں ہماری ایک برانچ قائم ہے جو صرف اور صرف پاک فوج کے نظم و ضبط اور احتساب کی نگرانی کرتی ہے۔ چیک اینڈ بیلنس کا موثر نظام موجود ہے۔ فوراً پتہ چل جاتا اور فوراً اصلاح کر لی جاتی ہے۔ اس میں اخلاقی رویے بھی شامل ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ 2017-18ءمیں پاک فوج میں چار سو افسران کا احتساب کیا گیا۔ مختلف سزائیں دی گئیں۔ ان میں انتباہ، تنخواہوں اور مراعات میں کٹوتی کے علاوہ جیل جانا بھی شامل ہے۔ سولجر سے زیادہ افسران کے احتساب کا نظام سخت ہے اور پھر بھی یہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ 20 کروڑ سے زائد آبادی میں پاک فوج چھ لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 70 سالوں سے نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ ایک نازک دور سے گزرتے ہیں دوسرے میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ان نازک ادوار کا ذمہ دار کون ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہتے ہیں ماضی میں بیٹھے رہیں گے تو آگے نہیں بڑھ سکیں گے یقینا ماضی سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان بھی ہوا۔ کشمیر کا مسئلہ بھی ہے۔ داخلی طور پر بھی فالٹ لائنز کا سامنا کرنا پڑا جن میں کرپشن، طرز حکمرانی، معیشت، جمہوریت، ڈکٹیٹر شپ، باریاں، فرقہ واریت، نسلی تعصبات اور کیا کچھ نہیں دیکھا۔ غلطیاں تسلیم کئے بغیر کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اپنی غلطی کے بجائے دوسروں کی غلطیاں نکالتے رہتے ہیں جس کو دشمن استعمال کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان قربانیوں کے نتیجے میںفصیل آب( واٹر شیڈ) پر آ گئے ہیں جس کے نتیجے میں اچھائی بھی ہو سکتی ہے اور خرابی بھی ہو سکتی ہے۔ اس واٹر شیڈ پر موجود رہتے ہوئے اچھے پاکستان کی طرف جانا ہے۔ آج کی فوج گزرے کل کی فوج نہیں ہے۔ مشکل وقت بھی دیکھا ہے ہم نے اپنے ہاتھوں میں اپنے ساتھیوں کی میتیں اٹھائیں۔ گھروں سے دور گلیوں، کوچوں اور سڑکوں پرکھڑے ہیں اور یہ سب کچھ قوم کے تحفظ کے لئے ہے۔ اس واٹر شیڈ پر آگے چلنا ہے اور اس کا طریقہ یہی ہے انہوں نے قرآن پاک کی آیت پڑھی کہ سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور تفرقے میں نہ پڑیں۔ معیشت اور امن وامان کو ٹھیک کرنا ہے۔ بہتری آ رہی ہے۔ ایمان، اتحاد،تنظیم ہم سب کا ماٹو ہونا چاہئے۔ چھ ماہ میں میڈیا پاکستان کی ہونے والی ترقی دکھا دے۔ پاکستان مضبوط ملک نظر آئے گا۔ انہوں نے اس موقع پر آرمی چیف کا یہ بیان بھی دہرایا کہ ایک ایک اینٹ لگا کر امن وامان بحال کر رہے ہیں۔ معیشت کو مضبوط کرنا ہے۔ پاکستان میں آئین کے تحت قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہے اور طاقت کا استعمال صرف اور صرف ریاست کے پاس ہو گا۔ کوئی بھی اپنے آپ کو پاکستان اور اداروں سے بالاتر نہ سمجھے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...