پشاور (نوائے وقت رپورٹ) پشاور ہائی کورٹ نے بس ریپڈ ٹرانزٹ سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے جس میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو 45 روز کے اندر انکوائری مکمل کر کے رپورٹ جمع کرانے کا کہا گیا ہے۔ فیصلے کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت نے کسی وژن اور منصوبہ بندی کے بغیر منصوبہ شروع کیا۔ عدالت کے مطابق منصوبے نے 6 ماہ میں مکمل ہونا تھا جبکہ سیاسی اعلانات کے باعث منصوبہ کئی نقائص کا باعث بنا، تاخیر کا شکار ہوا اور لاگت بھی بڑھی۔ منصوبے کے پی سی ون میں غیر متعلقہ سٹاف کے لیے بھی پرکشش تنخواہیں رکھی گئیں۔ عدالت کے مطابق بی آر ٹی کی فی کلومیٹر لاگت 2 ارب 42 کروڑ، 70 لاکھ روپے ہے جو زیادہ ہے۔ کمزور معیشت کا صوبہ اس کا متحمل نہیں تھا۔ بھاری تنخواہوں پر کنسلٹنٹ رکھے گئے جس سے حکومتی پیسے کا ضیاع ہوا۔ 6 ماہ میں صرف 6 فیصد کام ہوا وہ بھی غیر معیاری۔ کنسلٹنٹ نے بس پر سوار ہونے والے مسافروں کا تخمینہ 3 لاکھ 40 ہزار لگایا جو لاہور میں سوار ہونے والے مسافروں سے بھی زیادہ ہے، پنجاب کی میٹرو بس میں 65 بسیں شامل ہیں، جبکہ پشاور کے لیے 219 بسیں استعمال کی جانی ہیں۔ 155 بسیں فیڈر روٹس پر چلیں گی جن کو نجی ٹرانسپورٹرز چلائیں گے، عوام کے پیسوں پر چلنے والی بسیں نجی ٹرانسپورٹرز کو کیوں دی جا رہی ہیں؟ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ آئی ٹی ایس کی تنصیب کا کام زبردستی موجودہ حکومت کے اہم بندے کو دیا گیا، کیا منصوبے کے لیے اتنا بڑا قرضہ لینے کی ضرورت تھی؟ اس قرضہ سے صوبہ کی معاشی خوشحالی بھی ممکن تھی اور کون مناسب فیزیبلٹی کے بغیر منصوبہ کی منظوری پر زور ڈال رہا تھا؟ پی ٹی آئی حکومت نے منصوبے کو فیس سیونگ کے لیے شروع کیا۔ کیا بی آر ٹی منصوبہ اس صدی میں مکمل ہوگا؟ پشاور ہائیکورٹ کے ریمارکس۔ محکمہ ٹرانسپورٹ میں بی آر ٹی سیل قائم تھا، تاہم منصوبہ پی ڈی اے کو دیا گیا، پرویز خٹک، سابق وزیر ٹرانسپورٹ دو سابق ڈی جی پی ڈی اے، اعظم خان اور کمشنر پشاور کے درمیان کیا تعلق تھا؟ اپنے حصے لینے کے لیے ان کا کس طرح تعلق بنا؟ مقبول کالسنز پنجاب میں بلیک لسٹ تھی، اس کے باوجود اسے بی آر ٹی کا ٹھیکہ کیوں دیا گیا؟ عدالت نے سوالات اٹھائے ہیں کہ ٹھیکہ دار نے سیکرٹری ٹرانسپورٹ، ڈی جی پی ڈی اے اور کمشنر پشاور کو مہنگی گاڑیاں دیں، چمکنی اور حیات آباد کے قریب کھڑی بسوں کو موسمیاتی اثرات سے کیوں نہیں بچایا جارہا؟ ٹرانس پشاور کے سی ای او درانی کو عہدہ سے کیوں ہٹایا گیا؟ علاوہ ازیں پشاور ہائیکورٹ نے چیف سیکرٹری کی تنخواہ روک دی۔ ہائی کورٹ نے جواب جمع نہ کرانے پر چیف سیکرٹری کی تنخواہ روک دی۔