ہارڈ ٹاک کا پنڈورا باکس

Dec 06, 2020

کامران نسیم بٹالوی

حالیہ چند روز سے ملک کے سیاسی حلقوں میں بر طانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے پروگرام ’’ہارڈ ٹاک ‘‘ کا تذکرہ خوب گرم ہے جس میں مسلم لیگ ن کے دور حکومت کے سابقہ وفاقی وزیر خزانہ جلا وطن اسحاق ڈار کا انٹرویو نشر کیا گیا اور اس انٹرویو کے جاری ہونے کے بعد حکومتی جماعت کے وزرائ،مشیروں اور اراکین اسمبلی اور عام پارٹی کارکنان کی خوشی دیدنی ہے ۔اس ہارڈ ٹاک شو میں اسحاق ڈار کی ذاتی بوکھلاہٹ اور  انکی جانب سے تسلی بخش جواب نہ آنے پر مخالفین فاتحانہ انداز اپناتے ہوئے خوب مزے لے لیکر باتیں کر رہے ہیں اور اسے نا کام انٹرویو ٹھہراتے ہوئے مسلم لیگ کے حالیہ بنانیہ کی شکست کا ذریعہ قرار دے رہے ہیں۔ اسحاق ڈار کس حد تک کرپٹ ہیں؟لندن میں انہیں سیاسی پناہ کی ضرورت کیونکر پڑی؟بی بی سی پروگرام میںمیزبان کو ترکی بہ ترکی جواب دینے میں کیونکر کنفیوژ رہے؟اور مشہور میزبان اینکر کی گفتگو پاکستان کی معاشی صورتحال پر بات چیت کی بجائے صرف مرکز ذات تک کیوں محدود رہی؟ اور پاکستان میں پی ٹی آئی کی سرکار کے حکم نامہ کے تحت پیمرا کی جانب سے ملکی الیکٹرانک میڈیا پر اسحاق ڈار کے انٹرویو کی نشریات کی پابندی پر خوش ہونیوالوں کی بی بی سی پر اپنی ناپسندیدہ شخصیت کے انٹرویو پر اتنی مسرت کا اظہار کیوں؟یقینا یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات کیلئے لمبے چوڑے دیباچہ کی ضرورت ہے لیکن’’ ہارڈ ٹاک‘‘ کے ماخذ پر یقینی طور پر بات کی جا سکتی ہے۔’’ہارڈ ‘‘ کا مطلب سخت اور ’’ٹاک‘‘ کا مطلب گفتگو یعنی صحافتی اصطلاح میںایسی تند و تیز بات چیت جو حقائق پر مبنی ہو اور اپنے اندر کڑواہٹ رکھتی ہو اور سامنے والے کے چھکے چھڑا دے اور اسے بھاگنے کا راستہ بھی نہ ملے ۔خیر بات ہو رہی تھا ہارڈ ٹاک کی تو اگر اس پٹاری کو پاکستان میں صحیح معنوں میں کھولا جائے توسخت سوالات کی بوچھاڑ اتنی تیز ہو گی کہ سامنے والا پل میں ڈھیر ہو جائے۔لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت جب مسند اقتدار پر ہوتی ہے تو اپنے ناکام دعوں اور بیانیوں کو سچ ثابت کرنے کیلئے ٹھوس اور مدلل دلائل کی  بجائے آ ئیں بائیں شائیں اور غیر ضروری تاویلوں کا سہارا لیتی ہے مذکورہ بالا تمام شعبہ جات میں سے کسی ایک پر بھی بات کر لی 
جائے تو پتہ چلے گا کہ آج ہر شعبہ ماضی کی نسبت حال میں دگر گوں کا شکار ہے لیکن مخالفت برائے مخالفت  کے ایجنڈا کے علاوہ ہماری سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی واضح منشور نہیںجس سے عام شہری کو حقیقی معنوں میں ریلیف مل سکے اپنے ان تمام اداروں اور قومی معاملات کے حوالے سے ہر محب وطن پاکستانی کے ذہنوں میں اور لبوں پر بہت سے کڑوے اور سخت  سوالات موجود ہیں جن کے مناسب حل اور جواب نہ ملنے پر ہر شہری اضطراب کا شکار نظر آتا ہے تعلیم کی ہی بات کر لی جائے تو مایوسی کی سی کیفیت نظر آتی ہے پی ٹی آئی کے ٹاپ ایجنڈوں میں تعلیم کا شعبہ ترجیحی سطح پر تھا لیکن حکومت کی آدھی سے زیادہ آئینی مدت پوری کرنے کے باوجود کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں لاسکی اور اب ابھی بھی دو کروڑ ساٹھ لاکھ پاکستانی بچے سکول ایجوکیشن سے محروم ہیں اور کرونا کی بنا پر یہ تعداد بڑھ کر تین کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور تعلیمی بجٹ میں گزشتہ حکومتوں کی نسبت اضافہ کی بجائے مزید کٹ لگا کر کمی کر دگی گئی جسکے نتیجہ میںسکول ایجوکیشن تو مسائل کا شکار تو ہی تھی لیکن جامعات کی بین الاقوامی سطح پر رینکینگ طے کرنیوالے برطانوی ادارہ کے پاکستانی یونیورسٹیوں کی کار کردگی کی قلعی کھول کر رکھ دی ملک بھر کی جامعات میں سے ایک بھی یونیورسٹی دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں اپنا نام بنانے میں ناکام رہیں۔برطانیہ کے نامور ادارے کیو ایس  کی جانب سے جاری کی گئی جامعات کی نئی درجہ بندی برائے2021 میں دنیا کی بہترین350 جامعات میں ایک بھی یونیورسٹی پاکستانی نہیں جب کہ اس مقابلہ میں بھارت کی 3 ملائشیا کی 5 چین کی6 اور سعودی عرب کی 2 یونیورسٹیاں دنیا کی 200 بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہیں حالیہ سروے کے  مطابق امریکہ کی میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ برائے ٹیکنالوجی پہلے نمبر پر ہے جو کہ مسلسل 9 سالوں سے اول نمبر پر آرہی ہے اسٹین فورڈ دوسرے ہاورڈ تیسرے اور کیلفورنیا انسٹی ٹیوٹ برائے ٹیکنالوجیچوتھے نمبر پر ہیں جامعات کی درجہ بندی کیلئے طے کردہ معیاری نقاط  کے تحت درج ذیل پہلوں کا جائزہ لے کر رینکنگ کی جاتی ہے تعلیمی شہرت،آجر کی ساکھ،فیکلٹی اور طلبہ کا تناسب،بین الاقوامی طلبہ کا تناسب،بین الاقوامی فیکلٹی کا تناسب،فیکلٹی کا حوالہ لیکن افسوس ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیم نظام سرمایہ داروں کے نرغے میں آچکا ہے۔ رہی سرکاری یونیورسٹیوں کی بات تو جب انکے بجٹ کو محدود کر دیا جائیگا /وہاں نئی تحقیقات اور ایجادات کیسے ممکن ہیں؟ پاکستانی تعلیمی معیار کا گرنا بھی ایک ہارڈ ٹاک ہے۔

مزیدخبریں