ریاست جموں کشمیر کی جغرافیائی پوزیشن سے انکار ممکن نہیں،جنت نظر وادی پر بھارتی فوجیوں کا قبضہ اوربربریت جاری ہے۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ عالمی برادری بھی نریندر مودی کی پالیسیوں کے سامنے بے بس اور خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔بھارتی فوجی آئے روز کرفیو کی صورتحال کے باوجود کشمیر یوںکوشہید کررہے ہیں،اگر یہ کہا جائے کہ وہاں زندگی کا دائرہ تنگ ہوچکا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ جموں و کشمیر کی ہیت، کردار، تاریخ اور جغرافیہ تبدیل کرنے کی پے درپے کوششیں ہو رہی ہیں۔زمین اور جائیداد سے بیدخل کرنے کے قوانین پر عالمی برادری نے کوئی آواز نہیں بلند کی۔ کیاخاموشی قومی دھارے میں شامل ہونے کا اظہار ہے؟یہ بات شدت سے محسوس کی جاتی رہی ہے کہ عدلیہ میں انصاف کے ترازو اکثر اوقات غیرمسلم ججوں کے ہاتھوں میں رہے ہیں اسی لیے دہائیوں سے جیلوں میں قید سیاسی اور آزادی پسند کارکنوں کی رہائی کے معاملوں کودبادیا جاتا ہے۔ ہندوستان کے ہر شہری کو یہاں زمین خریدنے کا حق ہے۔ اس طرح انتہا پسند ہندو اپنی بستیاں بنا کر کشمیریوں کو بیدخل کرنا چاہتے ہیں اور ان کی بات سننے کیلئے نہ انتظامیہ ہوگی، نہ پولیس اور نہ عدلیہ۔اس سے قبل مقبوضہ جموں و کشمیر کے مستقل رہائشی ہی خطے میں اراضی خرید سکتے تھے لیکن اب اس قانون کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔بی جے پی حکومت نے قانون بنایا تھا کہ بھارت کی کسی بھی ریاست کا شہری مقبوضہ خطے میں جائیداد بنا سکتا اور ملازمت بھی حاصل کرسکتا ہے انڈیا کی حکومت کا دعویٰ تھا کہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کرنے اور ریاست کو وفاق میں مکمل طور پر ضم کرنے سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں خوشحالی، امن اور ترقیوں کا نیا دور شروع ہو جائے گا۔مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 370 میں ایک شق تھی جس میں زمین خریدنے کیلئے کشمیر کا مستقل شہری ہونا ایک لازمی شرط تھی تاہم اس آرٹیکل کے خاتمے کے بعد جو نیا قانون ہے اس میں اس شق کو ہٹا دیا گیا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ آرٹیکل 370 نے کشمیر میں ترقی کی راہ کو محدود کر رکھا تھا۔اس طرح کے انتظامات کئی شمال مشرقی ریاستوں میں بھی ہیں جہاں دوسری ریاستوں کے لوگ زمین نہیں خرید سکتے ہیں تاکہ وہاں کی آبادی کا تناسب اور تشخص نہ بدلے۔ 19 جولائی 1947 کو مسلم کانفرنس نے الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کر کے کشمیر ی عوام کی پاکستان کے ساتھ اپنی محبت اور اپنے مستقبل کا اعلان کیاتھااور جب 14 اگست کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو کشمیر کی ساری ریاست میں چراغاں کا اہتمام کیا گیا اور اس دن کشمیر کے ہر گھر میں جشن کا سماں تھااور 24 اکتوبر کو سردار ابراہیم کی قیادت میں حکومت قائم ہوئی اور 25 اکتوبر کو سرینگر میں ایک جلوس نکالا گیااور 27 اکتوبر کو بھارت نے اپنی افواج کشمیر میں داخل کر کے بڑے پیمانے پر قتل و غارت شروع کر دی۔ 73 سال گزرنے کے باوجود کشمیر کے عوام بھارت کے ناجائز قبضہ کیخلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور اس تحریک آزادی کی جدوجہد میں لاکھوں کشمیری شہید ہوئے،ہزاروں بہنوں کی عصمت دری ہوئی اور کشمیر میں ہزاروں اجتماعی قبریں بنیں،آج مقبوضہ کشمیر دنیا کی تاریخ کا ایک المناک باب ہے جہاں ہر دوسرا گھر شہید کا گھر ہے یہاں احسان دانش یاد آتے ہیںجنہوں نے کہا تھا کہ
؎قبر کے چوکٹھے خالی ہیں ، انہیں مت بھولو
جانے کب ، کون سی تصویر لگا دی جائے
کشمیر کی آزادی صرف کشمیر کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کے وقار اور خودمختاری کا بھی مسئلہ ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والا ظلم پوری دنیا کے انسانی حقوق کے علمبرداروں کے لیے سوالیہ نشان ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و ستم کے اس خو فناک کھیل کو روکیں۔مرکزی حکومت نے ایسے سخت قوانین کشمیر پر لاگو کیے کہ جن کی وساطت سے کسی بھی شخص کو ’دہشت گرد‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ منظرکشی کیلئے عالمی میڈیا کو متحرک کرنا پڑیگا، ایک کروڑ بیس لاکھ مقامی آبادی کو سوشل میڈیا پر اپنا وجود قائم کرنے کی ترغیب دینی ہوگی اور وسیع پیمانے پر اس کا استعمال کرنے پر آمادہ کروانا پڑیگا۔ کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا کہ ہر شہری کو پابندی کے باوجود انٹرنیٹ کی سہولت درکار رہے اور وہ باہر کی دنیا کو اندرونی معاملات سے آگاہ کرتا رہے۔ یورپ اور امریکہ میں آباد کشمیری انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو اپنی بات کہنے کا وسیلہ بنائے۔یہ قدم اٹھانا لازمی ہوگا کہ ایک ایسی لیڈرشپ کا قیام عمل میں آجائے جو عوامی جذبات کی نمائندگی کرے اور عالمی رائے عامہ ہموارکرنے کا ایک مربوط پروگرام ترتیب دے کہ وہ خود کو اس پر امن جدو جہد میں تنہا نہ محسوس کریں۔