’’جبل خان‘‘ کی موت 

میر ظفراللہ خان جمالی المعروف ’’جبل خان ‘‘ سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی مجھے یاد نہیں لیکن یہ بات مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ انہوں نے میری دعوت پر راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب میں (جو اب نیشنل پریس کلب ) بن چکا ہے ’’ میٹ دی پریس پروگرام ‘‘ میں شرکت کی۔ وہ جنرل ضیاالحق کابینہ میں وزیر مملکت برائے پٹرولیم تھے پھر ان سے ملاقاتوں اور دوستی ‘‘ کا سلسلہ طوالت پکڑ گیا۔ ان سے دوستی اور تعلقات کی داستاں کم وبیش چار عشروں پر محیط ہے یہ رشتہ ان کی وفات تک قائم رہا۔ مرحوم جمالی بلوچستان ہائوس اسلام آباد میں مقیم تھے‘ وہ عارضہ قلب میں مبتلا تھے وفات سے چند روز قبل میری ان سے ٹیلی فون پر بات ہوئی اور میں نے ان کی عیادت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں فیملی میر ے ساتھ ہے‘ آپ سے کیا پردہ ؟ آپ جب چاہیں ملنے کیلئے آسکتے ہیں۔ بہرحال ملاقات تو نہ ہوئی لیکن اس دوران ان کو’’ وینٹی لینٹر ‘‘پر منتقل کر دیا گیا۔ ان کی تشویش ناک صورت حال کی وجہ سے ان کی موت سے تین روز قبل موت کی افواہ پھیل گئی جس پر صدر مملکت عارف علوی نے تعزیتی بیان جاری کر دیا بعد ازاں صدر مملکت کو ٹویٹر پر اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کرنا پڑی اور جمالی کے خاندان سے معذرت کرنا پڑی ۔ میر ظفر اللہ جمالی نے ابتدائی تعلیم گاؤں روجھان میں حاصل کی ، ایف اے لارنس کالج گھوڑا گلی سے کیا ایچیسن کالج سے تعلیم حاصل کی ، بی اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا جبکہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے تاریخ میں ڈگری حاصل کی ۔ یکم جنوری 1944 ء کو میر شاہنواز جمالی کے ہاں روجھان جمالی ضلع نصیر آباد میں پیدا ہونے والے ’’جبل خان ‘‘ بارے 76سال قبل کسی کو علم نہیں تھا کہ کل یہ بچہ پاکستان کا پارلیمنٹیرین ، وزیر ، وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم بنے گا۔ ان کا تعلیم کا زیادہ وقت پنجاب میں گذرا۔انہیں بلوچی ، براہوی ، انگریزی ، اردو ، سندھی اور پنجابی زبانوں پر عبور تھا ۔میر جعفر خان جمالی تحریک پاکستان کا معتبر حوالہ اور قائد اعظم کے قریبی ساتھی تھے۔
 ، میر جعفر خان جمالی ، میر ظفراللہ خان جمالی کے تایا تھے ، جب 30نومبر 1967 کو ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو اس سے چند روز قبل روجھان جمالی میں ، میر جعفر خان جمالی پاس گئے جو ایک سکہ بند مسلم لیگی تھے۔ ان سے درخواست کی کہ وہ ایک نئی سیاسی جماعت بنا رہے ہیں اس میں جمالی خاندان کی نمائندگی کا خواہاں ہوں تو میر جعفر خان جمالی نے ان کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا تایا نے اپنے بھتیجے میر ظفراللہ خان جمالی کا ہاتھ ذوالفقار علی بھٹو کو پکڑا دیا اس طرح میر ظفراللہ خان جمالی کا شمار پاکستان پیپلز پارٹی کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ وہ لاہور میںڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر ہونیوالے پیپلز پارٹی کے تاسیسی اجلاس میں شریک تھے۔ انہوں نے 1970 ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر بلوچستان اسمبلی کا انتخاب لڑا لیکن ہار گئے میرظفراللہ خان جمالی بلوچستان کے دو بار وزیر اعلی رہے ،جنرل ضیاء الحق کے عبوری دور میں کواپریٹو کے وزیر مملکت اور سینٹ کے ممبر بھی رہے ، محمد خان جونیجو کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والے ایوان میں پانی و بجلی کے وزیر رہے ، 21نومبر 2002ء سے 26 جون 2004 ء تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے میر ظفراللہ خان جمالی پاکستان کے شلوار قمیص پہننے واحد وزیر اعظم نہیں پاکستان کے مختلف صدور اور وزرائے اعظم نے قومی لباس کو اپنی شان بنایا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جب جنرل پرویز مشرف نے اپنے لئے بلوچستان سے وزارت عظمیٰ کیلئے مناسب نام کی تلاش شروع کی تو خفیہ ایجنسیوں کی تحقیق میں میر ظفر اللہ خان جمالی کا نام نمایاں تھا لیکن جنرل پرویز مشرف کو ’’شلوار قمیص ‘‘ میں ملبوس شخص پسند نہیں آرہا۔ جب انہیں بتایا گیا کہ بلوچ سردار نہ صرف ایچوسونین ہے بلکہ راوینز اور گیلین بھی ہے جسے انگریزی زبان پر عبور ہے جس کے بعد میر ظفر اللہ جمالی کے نام قرعہ فال نکل آیا۔ جمالی ایک ووٹ کی حیثیت سے وزیر اعظم تو ہو گئے لیکن بہت جلد جنرل پرویز مشرف کو احساس ہوا کہ انہوں نے ٹیڑے شخص کا انتخاب کر کے بڑی غلطی کی ہے کیونکہ یہ بلوچ سردار ان کے امریکی ایجنڈے کی تکمیل میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ جب جنرل پرویز مشرف نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹرعبدالقدیر خان کو امریکہ کے حوالے کرنے لگے تو بطور چیف ایگزیکٹو میر ظفر اللہ جمالی نے ڈاکٹر خان کے ’’خروج ‘‘ کے حکم پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان نے راقم السطور کو بتایا کہ مرحوم جمالی نے جنرل پرویز مشرف کو کھڑے کھڑے کہہ دیا ’’اگر میں نے ڈاکٹرخان کو امریکہ کے حوالے کر دیا تو میں قوم کیا منہ دکھائوں گا۔ آخر میں اپنے علاقہ میں بھی جانا ہے ‘‘ سو بہادر بلوچ نے ایک نہ سنی اور کچھ دنوں بعد اس حکم عدولی پر انہیں وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا۔ جمالی کی ’’سرکشی ‘‘ سے امریکہ ناراض ہو گیا ویسے بھی جنرل پرویز مشرف ایک شکی انسان ہیں انہیں شک تھا میر ظفر اللہ خان جمالی انکے اقتدار کے خاتمہ کی کسی سازش کا حصہ ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے ، شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنانے کیلئے عبوری مدت کیلئے وزیر اعظم کے منصب کا بوجھ چوہدری شجاعت حسین کے ناتواں کندھوں پر ڈال دیا چوہدری شجاعت حسین نے مقررہ وقت میں یہ بوجھ اپنے کندھوں سے اتار دیا۔ میر ظفر اللہ خان جمالی پاکستان کی سیاست میں شرافت کی علامت تھے انتہائی نفیس شخصیت ، ہنس مکھ اور درویش صفت تھے بلوچستان سے پاکستان کے حق میں اٹھنے والی بلند آواز تھی جمالیوں نے بلوچستان میں ہمیشہ پاکستان کی بات کی اور ہمیشہ فیڈریشن کا ساتھ دیا وہ ہر وقت پاکستان کیلئے فکرمند رہتے ۔ (جاری)

نواز رضا… مارگلہ کے دامن میں

ای پیپر دی نیشن