ایران کے اعلی پائے کے ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادہ کو ایرانی ایٹمی پروگرام کی وجہ سے قتل نہیں کیا گیا بلکہ روح اللہ خمینی کے بقول‘ اصل وجہ یہ ہے کہ’’ہمارے دشمن ہمارے اسلامی نظام کی بنیادوں کے مخالف ہیں جس کی وجہ سے وہ کبھی اس دشمنی سے باز نہیں آئیں گے۔‘‘ یہ’ بنیادی سچائی‘ہے جس پر بحث کرتے ہوئے میں یہ بتانا چاہوں گا کہ کس طرح ایران‘ افغانستان اور پاکستان اس کے منفی اثرات بھگت رہے ہیں اور اپنی اقدار اور ایمان و یقین کا تحفظ کرنے کی ان میں کتنی صلاحیت ہے۔
ایران: پہلے حربے میں امریکہ کو ایرانی انقلابیوں کی گرفت سے اپنے یرغمالیوں کو آزاد کرانے میں ناکامی ہوئی اور اس مقصد کے لئے کی جانے والی کاروائی خود ان کی اپنی تباہی کا سبب بنی۔اس کے بعد انہوں نے صدام حسین کی ہمت بندھائی کہ وہ ایران پرحملہ کرے جس کے نتیجے میں آٹھ سالہ طویل جنگ ہوئی اوردونوں جانب بے گناہ مسلمانوں کا خون بہتا رہا اور جب ایران نے شط العرب عبور کیا تو صدام نے مہذب دنیا کی طرف سے فراہم کئے جانے والے کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کر دیا۔ اس کے بعد ایران کو اقتصادی طور پر اپاہج بنانے کے لئے اسے طرح طرح کی پابندیوں میں جکڑ دیا گیاجس کا گذشتہ تیس برسوںسے ایرانی قوم جوانمردی سے سامناکر رہی ہے لیکن ان کے عزم و استقلال کو نہیں توڑا جا سکا۔ ایران کو سزا دینے کی خاطراس سال کے شروع میں وارسا پلان (Warsaw Plan)کے تحت ایک اتحاد بنایا گیا جس کے بعد صدر ٹرمپ نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ٹارگٹ کر کے قتل کرایاـ۔ ایران نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے امریکہ اور اسرائیل کی بجائے سعودی عرب پر حملہ کیا جو ایک معروف امریکی صحافی کے بقول معمولی نوعیت کی کاروائی نہیں تھی:
’’14 ستمبر2019 ء کو علی الصبح ایرانی ائر فورس نے عبقیق(Abqaiq) میں واقع سعودی عرب کے تیل کی اہم تنصیبات پر بیس ڈرونز اوردرست نشانے پر لگنے والے کروز میزائلوں (precision guided missiles) سے حملہ کیا جس میں سعودی عرب کوبھاری نقصان اٹھانا پڑا۔یہ تعجب خیزنوعیت کی کاروائی تھی۔ایرانی ڈرونز اور میزائلوں نے اس خاموشی سے نچلی پروازکرتے ہوئے حملہ کیا کہ امریکی اور سعودی ریڈار بھی ان کا سراغ نہ لگا سکے۔ ایک اسرائیلی عسکری تجزیہ نگار کہتا ہے کہ وہ ایران کی ان صلاحیتوں کو دیکھ کردنگ رہ گئے ‘ جو مشرق وسطی میں پرل ہاربر (Pearl Harbor)کی طرزکا حیران کن حملہ تھا۔ ‘‘
7دسمبر1941 ء کوپرل ہاربر پر حملے کے بعد امریکہ دوسری عالمی جنگ میں شامل ہوا تھا لیکن عبقیق پر حملے کے بعد ٹرمپ سعودی عرب کی مدد کو نہ آیا بلکہ محض تین ہزار کا علامتی فوجی دستہ بھیج کر اس امر کو یقینی بنایاہے کہ ’’ہم جو کچھ ان کیلئے کر رہے ہیں وہ اس کی قیمت اداکرتے رہیں گے‘یہی ہماری اولین ترجیح ہے۔‘‘
2006ء میں حزب اللہ اسرائیل جنگ میں حزب اللہ نے چند ہزار فری فلائٹ راکٹوں کے حملے کرکے اسرائیل کو شکست دی تھی۔اب ایران اور اسکے اتحادی بھی چند ملین فری فلائٹ راکٹ اور درست نشانہ پر لگنے والے ایرانی میزائلوںکی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں۔اسکے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں خودکش بمبار بھی اس جنگ میں شامل ہونے کے حکم کے بیتابی سے منتظر ہیں۔جہاں تک ایران کے ایٹمی پروگرام کی تیاری کی بات ہے تواس سلسلے میں ٹرمپ نے ایٹمی معاہدے سے دستبردار ہوکرایران کی مدد کی ہے جس سے حوصلہ پاکرایران نے ایٹم بم کیلئے یورینیم کی افزودگی کا عمل جاری رکھاہے۔اسی طرح امریکہ نے افغانستان میں روسی جارحیت کے خلاف پاکستان کو شامل کرکے پاکستان کی بھی مدد کی تھی۔ اس دوران پاکستان نے یورینیم کی افزودگی کا عمل جاری رکھا اور ایٹم بم تیار کر لیا۔لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ پاکستان کے ایٹم بم بنانے کے حوالے سے ’’ امریکی نگران‘‘ کی مثبت رپورٹ کے باوجود امریکی صدر سال بہ سال کانگریس کویقین دلاتے رہے کہ ’’پاکستان ابھی تک اس منزل تک نہیں پہنچا کہ ایٹم بم بنا سکے۔‘‘
افغانستان: گذشتہ چار دہائیوں سے افغانی قوم نے دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتوں کیخلاف برسرپیکار رہتے ہوئے ان طاقتوں کو شکست دی ہے اور اپنے اسلامی نظام کی بنیادوں کا تحفظ کیاہے۔1989ء میںجب روس پسپاہوا تو افغان مجاہدین کو اسلامی حکومت بنانے کے حق سے محروم کردیا گیا اور وہاں خانہ جنگی کرائی گئی جس کی کوکھ سے2001 ء میں طالبان نے جنم لیا۔ امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کرنے کی خاطر جبر و تشدد کی حکمت عملی جاری رکھی تاکہ طالبان کو مجبور کیا جاسکے کہ وہ افغانستان میں اسلامی امارات کے قیام کے مقصد سے پیچھے ہٹ جائیںلیکن طالبان ان کا حکم ماننے کیلئے تیار نہ ہوئے کیونکہ ملا عمر کے بقول ’’جس طرح 1990 ء میں امریکہ اور پاکستان‘ دونوں نے ہمیں دھوکہ دیا تھا‘ اب ہمیں دوبارہ دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔‘‘
افغانیوں نے اپنے اسلامی نظام کی بنیادوں کے تحفظ کی بھاری قیمت چکائی ہے اور دنیا کی دو سپر پاور کیخلاف کامیاب مزاحمت کا نیا باب رقم کیا ہے جو منفرد نوعیت کا ہے اوراپنے ایمان و یقین‘ روایات و اقدار کے تحفظ کی خاطر‘ انسانی جدوجہد کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ماشاء اللہ طالبان کو کوئی جلدی نہیں کہ امریکی فوجیں کب افغانستان سے نکلتی ہیں کیونکہ ’’وقت ان کے ہاتھ میں ہے جبکہ دشمن کی دسترس محض گھڑی تک محدود ہے۔‘‘ زمینی حقائق سے صاف عیاں ہے کہ طالبان مطمئن ہیں ‘ جیسا کہ ایک معروف پاکستانی تجزیہ نگارکے ان الفاظ سے ظاہرہوتا ہے:
’’اب بھی ملک کے زیادہ تر دیہی علاقے طالبان کے قبضے میں ہیں جہاں ان کی اپنی خودساختہ حکومت ہے‘ ٹیکس وہ خود وصول کرتے ہیں‘ راتوں کو ان کا راج ہوتا ہے اور اسلامی ریاست(آئی ایس آئی ایس) کے خلاف دفاعی حصار ہیں‘ جس کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے مارچ 2020ء میں کنڑ اور اس کے مضافات سے اسلامی ریاست کوبے دخل کیا تھا۔اور اگر2011ء میںدنیا کے تقریباپچاس(50) طاقتور ممالک کے ایک لاکھ پچاس ہزار(150,000)سے زائد فوجی دستے دو دہائیوں تک افغانستان میں امن نہیں قائم کر سکے تو دو ہزار فوجیوں کی کیا اوقات ہے۔کابل کی حکومت مصنوعی اورعارضی سہاروںپر قائم ہے اورامریکہ کے نومنتخب صدر مزید مدت تک کھلی اجازت دینے کیلئے رضامند نظر نہیں آتے۔
’’وزیراعظم عمران خان کا حالیہ کابل کا دورہ بلا جواز اور بے وقت تھا کیونکہ صدر اشرف غنی غیر ملکی ٹانگوں کے سہارے کھڑے ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب طالبان کی لہر انہیں بہا لے جائے گی۔‘‘
پاکستان۔ پاکستان اپنے اسلامی نظام کی بنیادوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے کیونکہ دنیا کے نقشے پر ابھرتے ہی اس نے سرد جنگ میں شمولیت اختیار کرکے امریکہ کی طرفداری کا فیصلہ کیا ۔اس فیصلے سے امریکہ نے ہمارے سیاسی اور سلامتی کے نظام پر کنٹرول حاصل کر لیاجس کی وجہ سے پاکستان میں نہ تو جمہوریت پنپ سکی اورنہ ہی صحت مند معاشرتی نظام قائم ہو سکا ہے۔لیکن افسوس ناک بات یہ تھی کہ جب امریکہ نے پاکستانی قوم کی ذہنیت سازی (Perception Management) کیلئے1.4 بلین ڈالرکی خطیر رقم مختص کی‘ اور’ریڈ انڈین‘ سمجھتے ہوئے ہمیںنظم و ضبط سکھانا چاہاتو ہمارے منتخب حکمرانوں نے خوشدلی سے یہ رقم اداروں‘ غیرحکومتی اداروں (NGOs) اورہر ایسے شخص کو جومقصد کے حصول کو یقینی بنانے کا اہل ہو ان‘میںتقسیم کرنے کی اجازت دے دی۔اسی کے نتیجے میں ہمارے تعلیم یافتہ طبقے میںایسی ذہنیت ابھری ہے جو لبرل ازم اور سیکولرازم جیسے سماجی نظام کی بات کرتے ہیں جس کا محور اللہ تعالی کی ذات کی بجائے انسان کی اپنی ذات ہے۔نعوذ باللہ۔
یہ ایک المیہ ہے جس سے پاکستان کے سماجی و معاشرتی نظام پر انتہائی مہلک اثرات مرتب ہوئے ہیں جبکہ ہمارا سیاسی نظام بری طرح افراتفری کا شکار ہے۔ اس وقت ملکی مفادات کا تقاضا ہے کہ ایک منصفانہ جمہوری اوراسلامی نظام کے تحفظ کی خاطر ایسی ’’سماجی یک جہتی‘‘قائم ہو جو انقلابی ایران اور جہادی افغانستان کے ساتھ مل کردنیائے اسلام کے اس حصے کے‘ جو آج دشمنوں کی زد میں ہے‘ تحفظ کے لئے انتہائی ضروری سلامتی کی تذویراتی گہرائی (Strategic Depth of Security)کی چھتری مہیا کر سکے۔